پاکستان میں سیکولر ازم

March 03, 2021

تحریر:محمد صادق کھوکھر،لیسٹر
پاکستان میں اسلام اور سیکولرازم کی بحث ایک طویل عرصہ سے جاری ہے۔ سیکولر حضرات اپنے موقف کے دفاع میں کہتے ہیں کہ سیکولرازم کا مطلب لا دینیت نہیں بلکہ اس کا مطلب دنیاویت ہے۔ ان کے مطابق چونکہ دین اور سیاست دو مختلف نظریات ہیں اس لیے ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جو تمام مذاہب کو برابر کی مذہبی آزادی دے سکے تاکہ ملک کے باشندے ذاتی اور شخصی حیثیت میں جتنی چاہیں عبادت کرتے رہیں لیکن اجتماعی معاملات خصوصاً سیاست سے کنارہ کش ہو جائیں۔وہ سیکولرازم کا ایک مفہوم رواداری بھی بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ سیکولرازم سے تمام مذاہب میں رواداری پیدا ہوتی ہے۔ سیاسی لحاظ سے وہ یہ دلیل بھی بڑے زور و شور سے بیان کرتے ہیں کہ قائدِ اعظم نے گیارہ اگست 1947 کو پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ آپ آزاد ہیں۔ آپ اس معاملے میں آزاد ہیں کہ آپ ریاستِ پاکستان میں مندر، مسجد یا کسی بھی عبادت کی جگہ جائیں ریاست کے معاملات سے اس بات کا کوئی تعلق نہیں کہ آپ کس مذہب، ذات یا نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ قائدِ اعظم کے ان الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ بھی ان کے مطابق پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے۔ اس طرح وہ اپنے تئیں سیکولرازم کا ایک بڑا زور دار مقدمہ پیش کرتے ہیں۔ آئیں ان دلائل کا جائزہ لینے کے لیے مذہب کی بات کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی ہدایت کے لیے جتنے بھی انبیاء بھیجے ان سب کی دعوت کے بنیادی نکات توحید رسالت اور آخرت تھے۔ توحید کا تقاضا ہے کہ رب کی حاکمیت سے سوا کسی کی حاکمیت کو تسلیم نہ کیا جائے۔ قرآن اہلِ ایمان سے مطالبہ کرتا ہے کہ اللہ کو چھوڑ کر دوسرے سرپرستوں کی اتباع مت کرو۔ سورہ الاعراف آیت 3۔ گویا اس آیت کی روشنی میں مسلمان مجبور ہیں کہ ہم اپنے دستور میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت تسلیم کریں تاکہ کوئی بھی قانون قرآن اور سنت سے بالاتر نہ بن سکے۔ سیکولر حضرات دین کو زندگی کا ایک خوش نما شعبہ بنا کر اس طرح پیش کرتے ہیں کہ جس سے آدمی نماز روزے وغیرہ میں پوری طرح منہمک ہو جائے اور باقی معاملات سے دست بردار ہو جائے۔ حالانکہ قرآن و سنت کی تعلیمات انسانی زندگی کا ایک ہمہ گیر تصور پیش کرتی ہیں۔ اس تصور کے مطابق اسلام صرف مراسمِ عبودیت تک محدود نہیں بلکہ یہ زندگی کے تمام معاملات کے متعلق ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ ہر نبی نے اللہ کی حاکمیت قائم کرنے اور اس کی بتائی ہوئی تعلیمات کے مطابق معاشرتی، معاشی اور سیاسی زندگی کو استوار کرنے کے لیے جدوجہد کی تھی۔ ہر زمانے میں انہیں باطل پرستوں سے سابقہ پیش آیا جو قدم قدم پر رکاوٹیں ڈالتے تھے۔ قرآن کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ اسلامی ریاست میں حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ذات ہوتی ہے، ساری دنیا کی مخلوق مل کر بھی اس کی حاکمیت کو چیلنج نہیں کر سکتی۔ اسلامی ریاست قرآن و سنت کی تعلیمات کو نافذ کرتی ہے اور اس کے مطابق معاشرے کو سیاسی، معاشرتی، معاشی اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کو ڈھالتی ہے۔ یہ ریاست رعایاکو بنیادی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی اور عدل و انصاف کو قائم کرنے کی بھی ذمہ دار ہوتی ہے جس میں تمام شہریوں کو بنیادی انسانی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ عقیدہ، ضمیر اور فکرو نظر کی آزادی بھی عوام کو حاصل ہوتی ہے۔ اس میں حاکم وقت بھی مشاورت کا پابند ہوتا ہے۔ اور خلیفہ سمیت تمام حکومتی اہل کار قانون کی نظر میں برابر ہوتے ہیں۔ کوئی بھی احتساب سے بالا تر نہیں ہوتا۔ سب اللہ تعالیٰ اوراپنی رعایا کو جواب دہ ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سیکولرازم جس مذہبی آزادی کا دعویٰ کرتا ہے کیا وہ دینِ اسلام کے اس تصور کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے؟ جس میں مسلمانوں سے فرمایا گیا ہے کہ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جائیں۔ ظاہر ہے جواب نفی میں ہوگا۔ کیونکہ سیکولر ریاست میں بالادستی اسلام کی نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ سیکولر حضرات مذہب کا محدود تصور پیش کرتے ہیں۔ لیکن ایسا تصور پیش کر کے وہ خود مذہبی معاملات میں مداخلت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اس مداخلت کے باوجود بھی وہ مذہبی آزادی اور رواداری کا درس بڑی دیدہ دلیری سے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ سیکولرازم دنیا میں قیامِ امن اور رواداری کو فروغ دینے والا بہترین نظام ہے۔ اسے کہتے ہیں کہ ہٹ دھرمی کے ساتھ غلط بیانی۔ جہاں تک قائدِ اعظم کی بات ہے۔ انہوں نے قیامِ پاکستان کی جدوجہد کے دوران کبھی بھی سیکولرازم کا لفظ تک ادا نہیں کیا۔ یہ حضرات صرف ایک جملے سے سیکولرازم کشید کرکے قائدِ اعظم کو سیکولر قرار دے دیتے ہیں۔ قائدِ اعظم نے اپنی زندگی میں سیکڑوں تقاریر کیں۔ وہ اپنی تقاریر میں کھل کر اسلام کی حقانیت بیان کرتے تھے بلکہ گیارہ اگست کی تقریر میں بھی انہوں نے اسلام کی بات کرتے ہوئے اس رواداری کا ذکر کیا جو اسلام اقلیتوں کو فراہم کرتا ہے۔ قائدِ اعظم اس تقریر کے بعد کئی ماہ زندہ رہے وہ ہر تقریر میں اسلام کا ذکرضرور کرتے تھے۔ بلکہ آخری تقریر جو انہوں نے سٹیت بنک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر کی اس میں بھی اسلامی نظامِ معیشت پر کھل کر بات کی تھی اور امید ظاہر کی کہ" سٹیٹ بنک آف پاکستان مملکت کے لیے ایک ایسا ٹھوس اقتصادی نظام تیار کرے گا جو اسلامی اصولوں کے مطابق ہوگا۔" اس کے باوجود لوگ اگر انہیں سیکولر بنا کر پیش کرتے ہیں تو ان کی ذہنی حالت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ کس طرح بانی پاکستان کے مقام اور مرتبے کو گرا کر آج کے ان سیاست دانوں کے برابر کرنے کی جسارت کرتے ہیں جو بار بار اپنا مؤقف بدلتے رہتے ہیں۔ حالانکہ قائدِ اعظم کے کردار کی گواہی تو ان کے مخالفین بھی دیتے تھے۔ ایسا کرنے سے اسلام کے مقابلے میں سیکولرازم مستند نہیں ہو سکتا بلکہ یہ طاغوتی نظام ہی کہلائے گا۔ پاکستان تو معرضِ وجود میں ہی اسلام کے لیے آیا تھا۔ اس لیے اس مملکتِ خداداد میں صرف اسلامی نظام کا نفاذ ہی ممکن ہے۔ اس کے برعکس سیکولرازم ایک منفی اور مہلک نظریہ ہے۔ جس کی بالادستی قبول نہیں کی جاسکتی۔ ان چند نکات سے ہی بات واضح ہو جاتی ہے۔ مسلمانوں کو اس باطل نظام کے مقابلے میں ڈٹ کر بات کرنی چاہیے۔ البتہ عام لوگ جن غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔ انہیں دلسوزی سے دور کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ وہ اسلام اور سیکولرازم کے فرق کواچھی طرح سمجھ کر گمراہی سے نجات حاصل کر سکیں۔