برص یا بھورے پن سے آگاہی کا عالمی دن

June 13, 2021

ہر سال 13جون کو عالمی سطح پر اقوام متحدہ کے زیرِ اہتمام بھورے پن (سورج مکھی یا برصیت) کی بیماری سے آگاہی کا دن منایا جاتا ہے، جس کا مقصد لوگوں میںیہ شعور اُجاگر کرنا ہے کہ اس بیماری میں مبتلا افراد کی عزتِ نفس مجروح نہ کی جائے اور ان سے کسی قسم کا معاندانہ روّیہ نہ رکھا جائے کیونکہ بیشتر معاشروں میں بھورے پن اور پھلبہری جیسے جِلد ی امراض میں مبتلا افراد کو عجیب نظروں سے دیکھا جاتاہے اور انہیں معاشرے میں وہ مقام اور عزت نہیں دی جاتی، جس کے وہ حقدار ہوتے ہیں۔

اس بیماری سے جڑے منفی انسانی رویے ہمیشہ سے اس بیماری کا شکار افراد کے لیے مسئلہ رہے ہیں۔ اس دن کی مناسبت سے رواں سال اقوام متحدہ کی جانب سے موضوع ’’سب سے مشکلات سے بالاتر ہونا‘‘ منتخب کیا گیا ہے تاکہ پوری دنیا میں اس مرض میں مبتلا لوگوں کی کامیابیوں کو اُجاگر کیا جائے اور یہ بتایا جائے کہ یہ افراد ہر طرح کی مشکلات کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔

بھورا پن کیا ہے ؟

بھورا پن یا برص ایک جینیاتی بیماری ہے، جس میں جِلد کا رنگ تبدیل ہوجاتا ہے۔ جِلدکے اندر ایک مادہ ’میلانن‘ رنگ کو ہلکا یا گہر ا کرنے کا باعث ہوتا ہے، اگر یہ زیادہ ہوجائے تو رنگ گہرا اور کم ہو تو جِلد کا رنگ ہلکا ہو جاتا ہے۔ بھورے پن کی بیماری میں جِلد کے اندر میلانن بنتا ہی نہیں، اس لیے اس کا رنگ دودھ کی طرح سفید یا گلابی نظر آتا ہے۔ بھورے پن کی بیماری صرف جِلد کو ہی نہیں، بالوں کو بھی متاثر کرتی ہے۔ اس مرض میں مبتلا شخص کے لیے دھوپ میں نکلنا محال ہوتا ہے اوراگر وہ زیادہ وقت سورج کا سامنا کرے تو اسے مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

وجوہات

سائنسی تحقیق کے مطابق یہ بات حتمی طور پر نہیں کہی جاسکتی کہ آیا یہ موروثی بیماری ہے یا نہیں، تاہم اس کے امکانات ہوسکتے ہیں۔ اگر والدین میں سے کوئی اس مرض کا شکار نہ بھی ہو تب بھی پیدا ہونے والا بچہ اس کا شکار ہوسکتا ہے۔ دنیا بھر میں عموماً 15ہزار میں سے ایک بچہ اس سے متاثر ہوتا ہے۔ موروثی ہونے کی صورت میں جِلد کا مدافعتی نظام کچھ ایسا پروٹین بناتا ہے، جو جِلد کے مخصوص حصوں سے میلانن کو ختم کردیتا ہے اور ایسے افراد بچپن ہی سے اس بیماری کا شکا ر ہو جاتے ہیں۔

ایک تاثریہ بھی ہے کہ جن افراد میں تھائیرائڈ ہارمون بڑھ جاتے ہیں یا پھر ایڈرینل گلینڈ، کارٹیکو اسٹرائڈ کو کم کردیتا ہے یا جسم میں وٹامن بی12کی کمی ہو جاتی ہے تو ان صورتوں میں بھی بھورے پن کا مرض لاحق ہوسکتا ہے۔ آرتھرائٹس، ذیابطیس ٹائپ2یا مدافعتی نظام کی خرابی سے بھی یہ مرض لاحق ہوسکتا ہے۔

بھورا پن متعدی بیماری نہیں

یہ متعدی یعنی چھوت کی بیماری نہیں ہے، اس لیے اس مرض میں مبتلا افراد سے بچنے یا ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ خطرناک مرض نہیں ہے، البتہ ماں باپ اگر اس بیماری میں مبتلا ہیں تو پیدا ہونے والے بچے پر اس کے اثرات ہو سکتے ہیں، مگر یہ بات بھی حتمی نہیں ہے۔ دنیا بھر میں اس بیماری کا شکار لوگوں کو متعدد قسم کے امتیاز سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

لوگ اب بھی معاشرتی اور طبی لحاظ سے انتہائی غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے اِرد گرد بھورے پن یا سورج مکھی کی بیماری میں مبتلا افراد سے دوستانہ رویہ اختیار کریں اور انہیں یہ احساس نہ ہونے دیں کہ وہ مختلف ہیں۔ ایسا کرنے سے ان کے اندر احساس کمتری ختم ہوگا اور وہ اپنے آپ کو ایک کارآمد شہری سمجھیں گے۔

علاج و احتیاط

میلانن کی کمی کا مطلب ہے کہ بھورےپن کی بیماری میں مبتلا افراد جِلد کے کینسر کے خطرے سے دوچار ہیں۔ جِلد کے کینسر سے اس وقت بہت حد تک بچا جاسکتا ہے جب بھورے پن کا شکار افراد اپنے صحت کے حق سے لطف اندوز ہوں۔ اس میں صحت کی باقاعدہ جانچ، سن اسکرین اور سن گلاسز کا استعمال، اور دھوپ سے حفاظت کے لباس تک رسائی شامل ہے۔ کئی ممالک میں بھورےپن میں مبتلا افراد کی زندگی بچانے کے ذرائع دستیاب نہیں ہیں یا ایسے افراد کے لیے ناقابل رسائی ہیں۔

طبی ماہرین کے مطابق اگر اسٹیرائڈ کی کمی کے باعث بھورا پن ہوجاتا ہے تو ڈاکٹر کی تجویز پر مریض کو کچھ عرصہ اسٹیرائڈ دیا جاسکتاہے۔ ایک اور طریقہ کار کے تحت الٹراوائلٹ شعاعوں سے جِلد کا علاج کیا جاتا ہے، اس عمل کو فوٹو تھراپی کہتے ہیں جس سے 60 فیصد مریض صحت یاب ہوجاتے ہیں۔ بعض اوقات جِلد پر لگانے کے لیے مریض کو ایسی ادویات بھی دی جاتی ہیں، جس سے جِلد کی رنگت بدلتی ہے مگر اس عمل سے صرف چند فیصد لوگوں کو ہی فائدہ ہوتا ہے۔

لیزر سے بھی اس کا علاج ممکن ہے جبکہ سرجری کے ذریعے بھی جِلد تبدیل کی جاسکتی ہے، تاہم یہ مہنگا طریقہ علاج ہے ۔ چونکہ یہ ایک ضدی مرض ہے، اس لیے اس کے علاج کے سلسلے میں مریض کو بہت ہمت اور حوصلے کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔

نوٹ: کوئی بھی علاج ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر خود سے نہ کریں اور ڈاکٹر کا ہی تجویز کردہ طریقہ یا ادویات استعمال کریں۔