• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بندہ صبح اٹھتا ہے، ناشتہ کرتا ہے اور کام پر نکل جاتا ہے۔ عمر یونہی تمام ہو جاتی ہے۔ کسی کی زندگی عیاشیوں میں گزرتی ہے اور کسی کی کوڑے کے ڈھیر سے گلا سڑا پھل تلاش کرنے میں نکل جاتی ہے۔ انسان گناہ گار ہو یا نیکو کار، ہر دو صورتوں میں اسے مٹی تلے ہی جانا ہے۔ ’’مٹتا ہے فوتِ فرصتِ ہستی کا غم کوئی، عمرِ عزیز صرفِ عبادت ہی کیوں نہ ہو‘‘ (غالب)۔ پوری عمر بھی چاہے عبادت میں گزار دیں، زندگی کی مدت ضائع ہونے کا غم کبھی نہیں مٹتا۔ ایسی صورت میں کیا زندگی یونہی گزار دینی چاہئے، بےمقصد، بےمعنی؟ ایسے سوالوں کا کوئی دو ٹوک یا لگا بندھا جواب تو نہیں ہوتا مگر یہ بہرحال ممکن نہیں کہ بندہ اپنی پوری زندگی یہ سوچ کر گزار دے کہ بالآخر مرنا تو ہے، پھر کچھ بھی کرنے کا کیا فائدہ! سسیفس(Sisyphus) ایک یونانی دیو مالائی کردار ہے۔ وہ یونان کے ایک علاقے کا بادشاہ تھا، بےحد کائیاں اور چالاک۔ اُس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ دو مرتبہ موت کو جُل دینے میں کامیاب ہوا ہے۔ قصے کے مطابق جب پہلی مرتبہ ’سسیفس کی موت ہوئی‘ تو اسے پاتال میں لے جایا گیا جہاں موت کے بعد روحوں کو قید کیا جاتا تھا مگر سسیفس نے بڑی چالاکی سے وہاں موت کو ہی قابو میں کر لیا اور اسے زنجیروں سے باندھ دیا تاکہ آئندہ ’موت‘ کسی انسان کی جان نہ لے سکے۔ بالآخر حرب کے دیوتا کو اِس معاملے میں مداخلت کرنا پڑی جس کے نتیجے میں موت کو زنجیروں سے چھٹکارا ملا اور اُس نے دوبارہ انسانوں کی جان لینے کا اپنا کام شروع کیا۔ دوسری مرتبہ جب سسیفس کو پھر پاتال لے جایا گیا تاکہ اُس کی موت کو یقینی بنایا جا سکے تو سسیفس نے وہاں دیوتا کی منت سماجت کی کہ اُس کی ’موت‘ پر اُس کی بیوی نے روایت کے مطابق وہ چڑھاوے نہیں چڑھائے اور وہ قربانی نہیں دی جو ایسے موقع پر واجب ہوتی ہے لہٰذا اسے دوبارہ زمین پر بھیجا جائے تاکہ وہ اپنی بیوی کو یہ رسومات ادا کرنے پر قائل کر سکے۔ دیوتا کو رام کرنے کے لئے سسیفس نے دیوتا کی بیوی، جو قدرے رحم دل تھی، سے بھی اپیل کی کہ دیوتا سے سفارش کرے، بالآخر اُس کی کوششیں بار آور ثابت ہوئیں اور یوں وہ دوسری مرتبہ بھی ’موت کو شکست‘ دینے میں کامیاب ہو گیا لیکن اگلی مرتبہ دوبارہ اُس کی ’موت‘ واقع ہوئی تو دیوتاؤں کے بادشاہ زیس (Zeus)نے یقینی بنایا کہ سسیفس کو عبرت ناک سزا ملے اور یہ عبرت ناک سزا ہومر نے اپنی شہرہ آفاق نظم آڈیسی (Odyssey)میں بیان کی ہے۔ ہومر لکھتا ہے کہ سسیفس ایک بہت بھاری پتھر کو پہاڑ کی چوٹی تک پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے، پتھر بےحد وزنی ہے اور سسیفس بدقت تمام اسے دھکیلنے میں کامیاب ہوتا ہے لیکن جونہی وہ پہاڑ کی چوٹی تک پہنچتا ہے، پتھر لڑھک کر زمین پر واپس آجاتا ہے، سسیفس نئے سرے سے پتھر کو پہاڑ کی چوٹی تک دھکیلنا شروع کرتا ہے مگر پتھرپھر سے لڑھک کر زمین پہ آ جاتا ہے، اور یوں یہ کبھی نہ ختم ہونے والا کام ہے جو سسیفس کے ذمے ہے۔

انسانی زندگی کا المیہ بھی یہی ہے۔اپنی زندگی میں ہم جتنی بھی معنویت پیدا کرنے کی کوشش کیوں نہ کر لیں، ہماری موت کے ساتھ ہر مطلب دفن ہوجاتا ہے۔ ازل سے یہی کچھ ہو رہا ہے اور ابد تک ہوتا رہے گا۔ بعض اوقات ہمیں بخوبی علم ہوتا ہے کہ ہماری زندگی کے معمولات بےمعنی اور مضحکہ خیز ہیں، اِس کے باوجود ہم ان معمولات سے جان نہیں چھڑا پاتے اور روزانہ ایک ہی کام بار بار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ہم اپنی زندگیوں کے پتھر کو پہاڑ کی چوٹی تک دھکیل کر لے جاتے ہیں اور جونہی ہم چوٹی تک پہنچتے ہیں، پتھر لڑھک کر واپس زمین پہ آجاتا ہے اور ہم دوبارہ سے اسے پہاڑ تک دھکیلنے میں جُت جاتے ہیں۔ یہ ایک کارِ لا حاصل ہے جو سسیفس کی طرح ہمیں ہر صورت کرنا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ہم اپنی زندگیوں کو خوشگوار بنانے کی کوشش کر سکتے ہیں، مگر یہ کوشش بھی پتھر کو پہاڑ تک دھکیلنے سے مختلف نہیں ہوگی، فرق صرف اتنا ہوگا کہ پتھر دھکیلنے میں قدرے آسانی ہو جائے گی۔ یہ آسانی کیسے ہوگی؟ اِس کا جواب اُن پانچ سوالوں میں پوشیدہ ہے جو ہم روزانہ اپنی بے معنی روٹین شروع کرنے سے پہلے خود سے پوچھ سکتے ہیں۔

پہلا سوال: آپ کے اختیار میں کیا ہے؟ یہ کلیدی سوال ہے۔ اگر کوئی کام آپ کو مجبوری کے عالم میں کرنا ہے تو کیا اُس کام کو چھوڑنے کا اختیار آ پ کو حاصل ہے؟ جواب اگرہاں میں ہے تو اس پر عمل کریں اور اگر ناں میں ہے تو اُن طریقوں کے متعلق سوچیں جن پر عمل کرنے سے آپ کا اختیار بڑھ سکتا ہے۔ دوسرا سوال: آپ کن لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں؟ اِس سوال کا جواب بھی آپ کی زندگی بدلنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ اگر آپ کے حلقہ احباب میں مایوس اور حاسد قسم کے لوگ ہیں تو فوراً اُن سے جان چھڑا لینی چاہئے۔ یہ اِس لئے ضروری ہے کہ جو لوگ آ پ کے ارد گرد ہوتے ہیں وہ آپ کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں اور آپ کی زندگی اُن کی خواہشات کے تابع ہو جاتی ہے۔ تیسرا سوال: کیا یہ کام کرنا بہت ضروری ہے؟ یہ سوال بہت اہم ہے۔ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے یہ سوال خود سے پوچھیں اور بہت سی قباحتوں سے خود کو بچا لیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم فضول چیزوں میں وقت برباد کر رہے ہوتے ہیں، اُس وقت صرف یہ ایک سوال بار بار خود سے پوچھیں اور دیانتداری سے اُس کا جواب دیں، زندگی آسان ہو جائے گی۔ چوتھا سوال: آپ کی زندگی کا سب سے اہم کام کیا ہے؟ اگر آپ کو اِس سوال کا جواب ہی معلوم نہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ یہ بھی نہیں جانتے کہ کہ آیا آپ اِس کام کو اپنے روز مرہ کے معمولات میں اہمیت بھی دے رہے ہیں یا نہیں؟ جب تک آپ کے دماغ میں اِس سوال کا واضح جواب نہیں ہوگا اُس وقت تک آپ کو یہ اندازہ بھی نہیں ہو سکے گا کہ آپ نے زندگی میں اہم کام کو انجام دینے کے لئے کون سے اقدامات کرنے ہیں۔ پانچواں سوال: سعی لاحاصل ہی سہی لیکن اگر میں یہ سب کچھ نہیں کروں گا تو کیا پھر بھی میں خوش اور آسودہ رہ پاؤں گا؟ یہ ہے وہ اصل سوا ل جس کا جواب دینا مشکل ہے۔ہم زندگی کے تمام کام آئیڈیل اندازمیں ہی کیوں نہ کر لیں، آخری تجزیے میں یہ احساس بہرحال کچوکے لگائے گا کہ پتھر نے تو بہر حال لڑھک کر واپس ہی جانا ہے۔ لہٰذا ایسے کسی شخص کو تلاش کرنا شاید نا ممکن ہے جو یہ دعوی کرے کہ اگرچہ یہ زندگی بے معنی ہے اور میں یہ راز پا چکا ہوں اِس لئے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اپنی موت کا انتظار کر رہا ہوں۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ پتھر تو بہرحال دھکیلنا پڑے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین