ایک عجیب بات یہ ہے کہ اردو ادب پر کثیرتعدادمیں تحقیقی و علمی کاموں کے باوجود اس میں دو کمیاں بڑی شدت سے محسوس ہوتی ہیں۔ایک تو یہ کہ ہمارے کلاسیکی دور کے بعض عظیم شعرا کے کلام کے ایسے معیاری نسخے میسر نہیں ہیں جنھیں معتبر و مستند کہا جاسکے۔ دوسرے یہ کہ ہمارے ادب کی بعض عظیم شخصیات کی مستند سوانح عمریاں بھی دست یاب نہیں ہیں۔
غالب اور اقبال ہمارے عظیم ترین شعرا میں شامل ہیں اور ان پر لکھا بھی سب سے زیادہ گیا ہے لیکن غالب کے اردو کلام کا مستند مطبوعہ نسخہ اگر کوئی ہے تو وہ امتیاز علی خاں عرشی رام پوری کا مرتبہ ہے جو نسخہ ٔ عرشی کہلاتا ہے لیکن اس پر بھی بعض محققین کواعتراضات ہیں۔ اس کے بعد نسخہ ٔ حمیدیہ اور دیگر نسخے ہیں مگر وہ بھی تنقید کا نشانہ بنے ۔
اسی طرح اقبال کی سوانح عمری کو دیکھیے۔ آج تک اقبال کی کوئی ایسی سوانح عمری نہیں لکھی گئی جسے سو فی صد مستند اور خامیوں سے مبرا قرار دیا جاسکے، جبکہ اقبال صرف اردو کے عظیم شعرا ہی میں شامل نہیں ہیں بلکہ وہ ہمارے قومی شاعر اور تصور ِ پاکستان کے خالق بھی ہیں۔یہ ٹھیک ہے کہ اقبال انسان تھے، فرشتہ یا ولی اللہ نہیں تھے لیکن بعض لوگوں نے اقبال کی نیک نامی اور شہرت کو نقصان پہچانے کی دانستہ کوشش بھی کی اور اقبال کی ابتدائی زندگی سے متعلق بعض من گھڑت واقعات کو سچ ثابت کرنا چاہا۔
عطیہ فیضی سے ان کا نام بلا وجہ وابستہ کرکے بے سروپا داستانیں تخلیق کی گئیں۔ اقبال کی شخصیت سے متعلق بے بنیاد الزام لگانے کے علاوہ ان کی زبان، فلسفے اور شاعری پر بھی عجیب عجیب اعتراضات لگائے گئے۔ حالیہ برسوں میںاقبال کی شخصیت، فکر اور فلسفے پر اعتراض کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ اقبال پر الزامات اور اعتراضات کا جواب تو ڈاکٹر ایوب صابر صاحب نے اپنی متعدد کتابوں میںبڑی محنت اور تحقیق سے دے دیا ہے لہٰذا سر ِ دست آئیے اقبال کی سوانح عمریوں اور ان کی حیات پر لکھی گئی کتابوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
اقبال کی زندگی پر کتابیں بعد میں لکھی گئیں اور ان سے متعلق سوانحی کتابوں سے پہلے ان پرسوانحی مضامین کا آغاز ہوا اور اس ضمن میں سب سے پہلے سر عبدالقادر کا نام لیا جاتا ہے ۔مخزن کے مدیر سر عبدالقادر نے اقبال پرپہلا سوانحی مضمون لکھا جو لکھنؤ سے نکلنے والے رسالے ’’خدنگ ِ نظر‘‘ کے مئی ۱۹۰۲ء کے شمارے میں شائع ہوا۔بعدازاں محمد دین فوق، سر ذوالفقار علی خان اور مولوی احمد دین نے اقبال کی حیات ہی میں اقبال کی حیات پر مضامین لکھے۔
لیکن کسی نے بھی اقبال کی زندگی میں اقبال پر سوانحی کتاب نہیں لکھی حالانکہ یہ کام اُس وقت نسبۃً آسان ہوتا ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اقبال نے اپنی سوانح لکھے جانے کے کام کی کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی اور یہی کہا کہ ان کی زندگی میں کوئی ایسے واقعات نہیں ہیں جن سے کسی کو کوئی دل چسپی ہو یا کوئی ان سے کچھ سیکھ سکے۔البتہ جاوید اقبال نے اپنے والد کی سوانح ’’زندہ رود‘‘میںیہ ضرور لکھا ہے کہ اقبال اپنی فکر اور اپنے فلسفے کا تدریجی ارتقا بیان کرنا چاہتے تھے لیکن انھیں اس کا موقع نہ مل سکا۔
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کے مطابق لاہور سے شائع ہونے والے رسالے نیرنگ ِ خیال نے اقبال پر ایک خصوصی شمارہ ۱۹۳۲ء میں شائع کیا۔ نیرنگ ِ خیال کایہ شمارہ ستمبر اور اکتوبر۱۹۳۲ء کا مشترکہ شمارہ تھا اور اسے ’’اقبال نمبر‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اقبال کی زندگی میں ان پر شائع ہونے والا یہ کسی رسالے کا پہلا ’’نمبر ‘‘ یا خاص شمارہ تھا۔ شمس بدایونی نے اخبار اردو ،ستمبر ۲۰۲۱ء کے شمارے میں مطبوعہ اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ابواللیث صدیقی کی ادارت میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے رسالے علی گڑھ میگزین کا خاص شمارہ تیار کیا گیا اور یہ اپریل ۱۹۳۸ء میں شائع ہونے والا تھا اور اس میں اقبال کی بعض عکسی تحریریں بھی تھیں ۔ اقبال کی زندگی میں ان پر شائع ہوانے والا یہ دوسرا نمبر ہوتا لیکن ۲۱؍اپریل ۱۹۳۸ء کو اقبال کا انتقال ہوگیا لہٰذا اسے ان کی وفات کے بعد جاری کیا گیا ( ص ۳۶)۔
اقبال کی وفات کے بعد ان پر پہلی کتاب لکھی گئی جو اسی سال یعنی ۱۹۳۸ء میںمنظر ِ عام پر آئی۔ حیات ِ اقبال کے عنوان سے یہ کتاب چراغ حسن حسرت نے لکھی تھی اور اسے تاج کمپنی نے شائع کیا تھا ۔ ۱۹۳۹ء میں اقبال پر تین کتابیں شائع ہوئیں : محمد حسین خان کی’’اقبال ‘‘ ، محمد طاہر فاروقی کی ’’سیرت ِ اقبال‘‘ اور عبداللہ انور بیگ کی دی پوئٹ اوف دی ایسٹ (The Poet of the East) ۔
لیکن یہ کتابیں اقبال کی مکمل سوانح عمریاں نہیں کہی جاسکتیں۔سچیدانند سنہا کی انگریزی کتاب ’’اقبال : ہز پوئٹری اینڈ میسج ‘‘ (Iqbal: His Poetry and Message) ا لہٰ آباد سے ۱۹۴۷ء میں شائع ہوئی لیکن یہ دراصل اقبال کی مخالفت میں تھی اور اس میں انھوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اقبال نہ تو فلسفی تھے اور نہ شاعر بلکہ وہ ایک قوم پرست مسلمان تھے جو دنیا پر مسلمانوں کی حکومت اور تسلط چاہتے تھے ۔
عطیہ فیضی کی انگریزی کتاب ’’اقبال‘‘ممبئی سے ۱۹۴۷ء میں پہلی بار شائع ہوئی ۔ یہ بعد میں بھی شائع ہوئی اور اس کے اردو میں تین تراجم ہوئے ۔راقم نے اسے انگریزی میں حواشی کے ساتھ مرتب بھی کیااور اسے اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس نے شائع کیا۔عطیہ فیضی نے اس کتاب میں بعض ایسی باتیں بھی لکھی ہیں جو عجیب ہی کہلائیں گی۔ مثلاً ان کا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اقبال جب سر اکبر حیدری سے ملنے جارہے تھے تو میں (یعنی عطیہ )نے انھیں ان کے نام ایک تعارفی خط دیا۔
اس سے قطع نظر کہ اقبال اس وقت تک اچھے خاصے معروف ہوچکے تھے اور انھیں اس تعارفی خط کی کوئی ضرورت نہ تھی (اگرچہ سر اکبر حیدری عطیہ فیضی کے رشتے دار تھے)اسی کتاب میں شامل اقبال کے ایک انگریزی خط سے عطیہ فیضی کی غلط بیانی کا پردہ چاک ہوتا ہے۔ اقبال نے عطیہ کے نام اپنے خط میں اکبر حیدری کا ذکر کرتے ہوئے پوچھا ہے ’’کیا آپ انھیں جانتی ہیں ؟‘‘ اگر اقبال عطیہ سے اکبر حیدری کے نام کوئی تعارفی خط لیتے تو کیا اپنے خط میں ان سے یہ پوچھتے کہ آپ انھیں جانتی ہیںیا نہیں؟ ہرگز نہیں۔ دراصل عطیہ نے اس کتاب کو اپنی شخصیت کو ابھارنے اور اقبال پر اپنا اثر و رسوخ دکھانے کے لیے بھی استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔
یہ ضرور ہے کہ عطیہ فیضی کی کتاب نے اقبال کی شخصیت میں مزاح اور بذلہ سنجی کو بھی آشکار کیا اور اقبال کے قیام ِ یورپ کی بعض دل چسپ باتیں اس کتاب کے ذریعے منظر ِ عام پر آئیںجو ان کی سوانح میں اہمیت رکھتی ہیں ۔ پھر اس میںاقبال کے ایسے انگریزی خطوط شامل ہیں جو پہلی بار اس کتاب کے ذریعے سامنے آئے۔ اس کتاب میں اقبال کی بعض دست نوشتہ چیزیں بھی شامل ہیں ۔ لیکن انہی دست نوشتہ چیزوں میں عطیہ نے غلطی سے کچھ ایسے اشعار بھی شامل کردیے ہیں جو اقبال کے نہیں نہ اقبال کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں ۔ بہرحال یہ کتاب اقبال کی زندگی کے کچھ ہی پہلوؤ ںکا احاطہ کرتی ہے اور اسے سوانح نہیں کہا جاسکتا۔
عبدالسلام ندوی کی اقبال ِ کامل ۱۹۴۸ء میں اعظم گڑھ سے چھپی ۔ اس میں اقبال کی سیرت، مزاج اور اخلاق وعادات پر اہم باتیں شامل ہیں۔ اقبال سنگھ کی انگریزی کتاب دی آرڈینٹ پلگرم (The Ardent Pilgrim) ۱۹۵۱ء میں لندن سے چھپی۔
عبدالجمید سالک (ذکر ِ اقبال)اور عبدالسلام خورشید (سرگزشت ِ اقبال )سے یہ توقع بے جا نہیں تھی کہ وہ اقبال کی زندگی پر مستند کتاب لکھیں گے۔ مگر ان دونوں کی اقبال پر لکھی ہوئی کتابیںمایوس کن ثابت ہوئیں۔ البتہ اقبال کی حیات پر چند دیگر کتابیں دل چسپ اور اہم معلومات سے پُر ہیں، مثلا ً فقیر سید وحیدالدین، سید نذیر نیازی،خالد نظیر صوفی، عبداللہ قریشی، عبداللہ چغتائی، حمید احمد خان، سعید اختر درانی، افتخار احمد صدیقی، محمد حمزہ فاروقی، محمد حنیف شاہد، صابر کلوروی اور بعض دیگر لکھنے والوں نے اقبال کی زندگی کے بعض پہلوئوں اور واقعات پرمفید اور اہم کتابیں لکھی ہیں۔ اسی طرح بعض مضامین مثلاً شیرازہ( لاہور )کے اقبال نمبر میں شامل مضامین کے علاوہ نذیر نیازی، ڈاکٹر تاثیر ، محمود نظامی ، خلیفہ عبدالحکیم اور خواجہ عبدالمجید کے لکھے ہوئے مختلف مضامین بھی اقبال کی سیرت اور سوانح کے لیے بہت ضروری اور مفید مآخذ ہیں۔ لیکن یہ سب اقبال کی سوانح کے لیے مآخذ ہی کا کام کرتے ہیں ، خود مکمل سوانح نہیں ہیں۔
انیس سو ستتر (۱۹۷۷ء)کا سال اقبالیات کے تعلق سے ایک یادگار سال ہے کیونکہ اس سال کو حکومت ِ پاکستان نے اقبال کے صد سالہ یوم ِ پیدائش کے طور پر منانے کا اعلان کیا اور نقادوں اور محققین نے اقبال پر بڑی تعداد میں مضامین اور کتابیں لکھیں اور جرائد نے اقبال پر خصوصی شمارے یا گوشے شائع کیے۔ اور اس کے بعد سے کوئی سال ایسا نہیں جاتا جس میں اقبال پر کوئی نئی کتاب شائع نہ ہو۔ لیکن یہ کتب بیشتر اقبال کے فن اور فکر کا زیادہ ذکر کرتی ہیں اورخالصتاً اقبال کی زندگی پر لکھی گئی کتابیں بہت کم ہیں۔
ان میں سے کچھ کتابیں ایسی ہیں جو اقبال کی زندگی کا مکمل احاطہ نہیں کرتیں ، کچھ میں تفصیلات کی کمی ہے ، کچھ صرف اقبال سے ہونے والی ملاقاتوں اور گفتگو پر مبنی ہیں اور کچھ میں واقعاتی اور تاریخی اغلاط ہیں۔ اگرچہ بعض کتابوں کی صورت میں اقبال کے سوانح نگاروں کے لیے اچھا خاصا مواد موجود ہے لیکن ان سے مناسب طور پر استفادہ نہیں کیا گیا اور اقبال کی ایک ایسی مفصل اور مستند سوانح حیات کی ضرورت باقی ہے جس میں اقبال کی زندگی کو مکمل طور پر پیش کیا گیا ہو۔
اقبال کی اب تک لکھی گئی سوانح عمریوں میںایک اچھا اضافہ ان کے صاحب زادے ڈاکٹر جاوید اقبال کی لکھی ہوئی سوانح عمری ہے جو پہلی بار ۱۹۷۹ء میں زندہ رود کے نام سے شائع ہوئی ۔ اقبال کی لکھی گئی سوانح عمریوں میں اسے سب سے بہتر ، معتبر اور تفصیلی سوانح تسلیم کیا گیا اور علمی حلقوں میں اس کی خاصی پذیرائی ہوئی ۔ اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ البتہ اس میں بھی کچھ تشنگی اور کمزوریاں ہیں جن پر ڈاکٹر راشد حمید نے اپنی کتاب زندہ رود کا تحقیقی اور تنقیدی مطالعہ میں گرفت کی ہے۔
اگرچہ راشد حمید کی کتاب میں جاوید اقبال کی بعض بہت معمولی فروگذاشتوں پر بھی تنقید کی گئی ہے، مثلاً بعض الفاظ کے املا پر، جسے حروف کاری اور پروف خوانی کی اغلاط بھی کہا جاسکتا ہے، لیکن بعض نکات جو راشد صاحب کی کتاب میں بیان ہوئے ہیں وہ واقعی غور طلب اور تصحیح طلب ہیں۔ اگر ان اغلاط کو درست کردیا جاتا تو جاوید اقبال کی تحریر کردہ کتاب کی وقعت اور اہمیت میں اضافہ ہوجاتا۔
مثلا کے طور پر راشد صاحب کا ایک اعتراض یہ ہے کہ جاوید اقبال صاحب نے ان بنیادی مستند مآخذ کا استعمال نہیں کیا جو اقبال کی سوانح کے لیے بہت ضروری تھے اور جاوید صاحب کی دسترس میں بھی تھے اور ان اہم مآخذ میں اقبال کے خطوط بھی شامل ہیں۔راشد حمید کے مطابق جاوید اقبال صاحب ان تمام اہم اور بنیادی مآخذ کا آسانی سے استعمال کر سکتے تھے مگر انھوں نے اس سے پہلو تہی کی۔
دوسرا اعتراض جو راشد حمید نے کیا ہے ، اور یہ بھی وزن رکھتا ہے ، یہ ہے کہ اقبال کی اس سوانح میں بھی جو اقبال کے صاحب زادے نے لکھی ہے بعض غلطیاں موجود ہیں اور اس میں دی گئی نہ صرف بعض تاریخیں غلط ہیں بلکہ بعض واقعات بھی غلط بیان ہوئے ہیں۔اسی طرح جاوید اقبال صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ اس بات کی پوری قوت سے تردید کرتے کہ اقبال کو قادیانیوں سے کوئی ہمدردی تھی یا ان کا جھکاو اس طرف تھا(یہ غلط فہمی مظلوم اقبال نامی کتاب کے ذریعے زیادہ پھیلائی گئی ، یہ کتاب اقبال کے بھتیجے اعجاز احمد نے لکھی تھی جو قادیانی ہوگئے تھے)۔
راشد حمید نے تو یہ بھی لکھا ہے کہ زندہ رود کا اسلوب بہت جاندار یا دل نشیں نہیں ہے بلکہ کہیں کہیں یہ بہت خشک سا ہوجاتا ہے۔لیکن یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ اس کا اسلوب قابل ِ مطالعہ نہیں ہے ۔ اکثر مقامات پر یہ کتاب رواں اسلوب میں ہے اور دل چسپ ہے۔
رفیع الدین ہاشمی ہمارے ایک بڑے ماہر اقبالیات ہیں اور انھوں نے اپنی کتاب پاکستان میں اقبالیاتی ادب کا جائزہ : ۱۹۴۷ء تا ۲۰۰۸ء میں لکھا ہے کہ زندہ رودایک متوازن اور معروضی سوانح عمری ہے جس میں اقبال کی زندگی کے اہم حقائق اور دیگر تفصیلات ضروری پس منظر کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ اسے پڑھ کر قاری محسوس کرتا ہے کہ وہ ایک عظیم انسان کی سوانح پڑھ رہا ہے۔
خود رفیع الدین ہاشمی صاحب کی کتاب اقبال : شخصیت اور فن (مطبوعہ اکادمی ادبیات پاکستان) عام لوگوں اور طالب علموں کے لیے لکھی گئی ہے اور اس کا ایک مقصد اقبال کے بارے میں پھیلائی گئی غلط فہمیوں کو دورکرنا بھی ہے۔ اس کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ ہاشمی صاحب نے بعض ایسے واقعات اور تفصیلات بھی اس میں دی ہیں جو اقبال پر لکھی ہوئی اکثر کتابوں میں نہیں ملتیں۔ لیکن بہرحال یہ مکمل سوانح عمری نہیں ہے۔
اقبال کی زندگی پر لکھی جانے والی بعض کتابوں میں اس تحقیق اور احتیاط سے کام نہیں لیا گیا جو اس عظیم شاعر اور قومی و تاریخی اہمیت کی حامل شخصیت کی سوانح کے لیے ضروری ہے۔ مثال کے طور پر خرم علی شفیق کی کتاب میں جہاں غیر ضروری تفصیلات بغیر حوالوں کے پیش کی گئی ہیں وہاں انھوں نے بعض اہم باتیں بھی بغیر کسی تحقیق یا دلیل کے لکھ دی ہیں، مثلاً وہ ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ اقبال ایما ویگناسٹ سے شادی کرنا چاہتے تھے ۔افسوس کہ اتنی بڑی بات کے لیے انھوں کوئی، حوالہ، ثبوت یا دلیل دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
زندہ رود بلا شبہ اقبال کی سوانح عمریوں میں سب سے بہتر ہے بلکہ یہ اردو کی چند اچھی سوانح عمریوں میں شمار کی جاسکتی ہے لیکن اقبال کی ایک اورمستند، تفصیلی اور قابل ِ مطالعہ سوانح عمری کی ضرورت بہرحال اب بھی موجود ہے۔