’’یہی بات بابا محمّد علی بھی کہتے تھے۔ اور ان کا دیا گیا وہ سبق ہی آج مجھے ذہنی و روحانی آسودگی عطا کرتا ہے۔ آج وہ حیات نہیں، لیکن اُن کا علم مجھ میں زندہ ہے، جِسے میں ان شا اللہ تعالیٰ آگے منتقل کرتی رہوں گی تاکہ کوئی اور اسراء صرف روپ کے تضادات کے سبب گھٹن کی شکار ہو کرمر نہ جائے، تا کہ کوئی طالب، محض مجذوبیت میں، بھٹک بھٹک کر دیوانہ نہ ہو جائے۔ اللہ پاک بابا محمّد علی کو جنّت کے اعلیٰ و ارفع مقام میں جگہ عطا کریں۔‘‘ اسراء بول رہی تھی اور غضنفر اُس کی باتوں پر دل ہی دل میں متشکّر تھے۔ ’’آمین۔‘‘ ’’میری زندگی کی سمت متعین کرنے میں دو لوگوں نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ بابا جی نے طالبہ سمجھ کر اپنی شاگردی میں لے کے قدم قدم رہنمائی کی، لیکن اُن کے علاوہ ایک اور شخصیت بھی ہے، جس کے ایک جملے نے مجھے ایک یک سر نئی راہ کا مسافر بنا دیا۔ آپ کو ملوانا ہے، بہت جلد اُن سے۔‘‘ اسراء نے آخری جملہ مُسکراتےہوئےکہا، توغضنفربھی مسکرادیئے۔ ’’مجھے بہت خوشی ہو گی اُن سے مل کے۔‘‘
………٭٭………
کیا کچھ نہیں لکھا تھا اُس ڈائری میں۔ ضبط کی اَن گنت داستانیں، محبّت کے مدّوجز، حقیقت کا سفر، خوابوں کی شکست، فلسفۂ غم، انسان کی طلب… اتنی سی عُمر میں جانے کتنا دُکھ سہہ کر اُس نے اِن انکشافات کو زبان دی تھی۔ اور میرے نام لکھے گئے یہ خطوط… کاش وہ اِن میں سے ایک خط بھی مجھے ارسال کر دیتی، تو آج اُس کی کہانی کو نیا رُخ مل جاتا۔ لیکن مَیں جانتا ہوں، اُس نے یہ سب کیوں کیا۔ اپنی جان کو غم کی گہرایوں میں دھکیل کر، دوسروں کی خوشی کی پروا کی۔ وہ اپنی بیماری کے بارے میں جانتی تھی۔ مگر وہ نہیں چاہتی تھی کہ اُس سے منسلک لوگ بھی وہی درد سہیں، جن سے وہ گزر رہی تھی۔
اپنے جذبات پہ بند باندھ کر وہ مَن چلی لڑکی دنیا سے رخصت ہوگئی، لیکن وہ صحیح کہہ گئی ہے کہ ’’مجھےلگتاہےضبط کےقلم اور خونِ جگر کی سیاہی سے جو کہانی مَیں نے تحریر کی ہے، وہ میرے بعد بھی آسمان کی بلندیوں پہ تحریر کی جائے۔ زمین مجھےمیرےفن پہ ضرور داد دے گی۔‘‘ مجھے یک جائی کا درس دےکر میری سمت متعیّن کی تھی اُس نے، صرف اس لیے کہ وہ میرے فن کی دیوانی تھی۔ میرے تصوّرات میں وہ اپنا دھندلا عکس دیکھتی تھی، جو شاید موت سے قبل اُس پہ واضح ہو چُکا تھا۔ اُس کے صبر و ضبط اور قربانی کی لازوال داستان کا قرض مجھ پہ واجب ہے۔ مجھے اسے شائع کروانا ہوگا۔ اِس سلسلے میں مَیں جلد اُس کے اہل خانہ سے اجازت لےکر اُس کا حاصلِ حیات، دنیا کے ہر نوجوان تک پہنچاؤں گا تاکہ وہ بھی اپنے مَن کے دھندلے عکس کو واضح دیکھ سکیں۔
………٭٭………
’’آپ کو بہت بہت مبارک ہو اسراء صاحبہ! آپ کے ادارے پہ بنائی گئی ڈاکیومینٹری کو سوشل میڈیا پہ بےحد پزیرائی حاصل ہوئی ہے۔ ایک بڑے ادارے کی جانب سے آپ کو ایوارڈ کے لیے نام زد کیا گیا ہے۔‘‘ یہ خبر سُنتے ہی خوشی کی ایک لہر اس کے مَن میں دوڑ گئی۔ وہ مُسکرا کر اپنی خوشی کا اظہار کرنا ہی چاہتی تھی کہ بابا محمّد علی کی صدا اُس کے دماغ میں گونجی، ’’میرے بچّو! جو کام اللہ کے لیے کرو، تو دنیا سے اُس کے صلے کی امید کبھی مت رکھو۔ تمہارے کام میں دکھاوے کی آمیزش ہوجائے گی۔ تم اپنے مرکز سے ہٹ جاؤ گے۔
وہ جو تمہارا اور تمہارے باپ، آدم کا دشمن ہے ناں، وہ تمہارے لیےان دنیوی کام یابیوں، نام و نمود، شہرت و بلندی کو مزید خوش نُما بنا کر سامنے لائے گا۔ یہ دنیوی کام یابی ایک نشہ ہے، ایک مرتبہ اِس کی لَت لگ گئی،تو پھر انسان اللہ کو بھول کراِسی کے حصول میں لگارہتا ہے۔ جو کام اللہ کے لیے کرو، اُس کا اجر بھی بس اللہ سے چاہو، اپنی نیّت کو پاک رکھو۔‘‘ خوف کی ایک تیز لہر اُس نے خود میں دوڑتی محسوس کی۔ ’’یااللہ مجھے بچانےکا شکریہ۔ مَیں تو اپنی ساری محنت لمحوں میں برباد کرنے لگی تھی۔‘‘
پھر وہ خبر دینے والی کی جانب متوجّہ ہوئی ’’دیکھیں، ہمیں ان ایوارڈز وغیرہ سے کچھ لینا دینا نہیں۔ ہمارا اجر اللہ کے ہاں ہے۔ ہمیں اللہ نے اس کام کے لیے منتخب کیا ہے۔ ہم تو صرف فرائض کی ادا کر رہے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ ایوارڈز، انعامات، شہرت کی چاہت ہمیں ہمارے کام سے نہ ہٹا دے۔ ہمارے اِخلاص میں کہیں دکھاوے کی آمیزش نہ ہو جائے۔‘‘ ’’دیکھیں اسراء صاحبہ! یہ ایوارڈ صرف حوصلہ افزائی کے لیے دیا جا رہا ہے۔
آپ جانتی ہیں، جیسے کسی پودے کو درخت بنانے کے لیے مسلسل پانی کی ضرورت ہوتی ہے، ایسے ہی حوصلہ افزائی کسی کو بھی آگے بڑھنے میں مدد دے سکتی ہے۔ حوصلہ افزائی کے بغیر اکثر کونپلیں کلی بننے سے قبل ہی ختم ہو جاتی ہیں۔‘‘ آنے والی اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی تھی۔ ’’چلیں، مَیں کسی کو بھیجوں گی ایوارڈ وصول کرنے کےلیے۔‘‘ اسراء پھر بھی خود کو وہاں جانے سے باز رکھنا چاہتی تھی تاکہ اللہ کے لیےکیےگئے کام، اِس کام یابی سے، اُس کے دل میں کسی قسم کا فخر و غرور نہ پیدا ہو جائے۔
………٭٭………
غادہ ہو یا نایاب، وحشتیں ہوں یا غم، سب بس ذریعہ ہیں، ایک انسٹرومنٹ (وسیلہ) ہیں، جو مجھ پہ مختلف اوقات میں طاری ہو کر مجھے قدرت کے رازوں سے آگاہ کرنے کا موجب بنیں۔ یہ میری وہ کیفیات تھیں، جو مجھ پہ طاری ہوتیں، تو مَیں رنگوں کا وہ کھیل کھیلتا کہ جسے پھر دنیا، فنِ مصوّری کاشاہ کار مان کر دنگ رہ جاتی۔ مجھے اِن احساسات و جذبات سے رُوشناس بھی غادہ اور نایاب ہی نےکروایا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ محبّت میرےدل کےکسی کونےمیں پہلےہی سے موجود تھی۔ مجھے اپنے ہُنر سے عشق تھا، ایسا عشق جس کے لیےمَیں نے اپنےخاندان سےعلیحدگی اختیار کی۔ جس کےلیےمَیں نے خود کو فراموش کیا۔
پتا نہیں، ابھی وقت و حالات کو مجھ پہ مزیدکیسی کیسی کیفیات طاری کر کے مجھ سےکتنے اور راز اگلوانے ہیں۔ لیکن درحقیقت مَیں بھی بس ایک عظیم مصوّر کے رازوں کو منتقل کرنے کا ایک وسیلہ ہی ہوں، ایک خیال، ایک تصوّر، ایک کیفیت ہوں، جو رنگوں میں بدل کر خود کینوس پہ بکھر جاتا ہے۔ پھر یہی رنگ کئی آنکھوں سے ہوتے ہوئے کئی روحوں کو نئے جہانوں سے روشناس کرواتے ہیں۔ امر خدا کا ہی ہے مگرمَیں بطور تخلیق کار اُس کےاوربندوں کےدرمیان ایک وسیلہ بن جاتا ہوں۔ وہی وسیلہ، جو میرے لیے، میرےفنِ مصوّری کو اوج تک پہنچانے کےلیے، غادہ اور نایاب بنیں۔
………٭٭………
’’آنٹی، انکل…کیسے ہیں آپ لوگ…؟‘‘ عُنزہ نے گھر میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔ ’’ہمیں کیسا ہونا ہے بیٹا۔ جن کی اکلوتی، جوان اولاد اَن گنت تکالیف سہہ کر دنیا چھوڑ جائے، وہ تو زندہ ہوتے ہوئے بھی مَرے ہی ہوتے ہیں۔‘‘ نایاب کی والدہ نے بےبسی سے کہا۔ ’’آنٹی! نایاب، دنیا سے بےشک چلی گئی ہے، لیکن وہ اپنے آپ کو ہمیشہ کے لیے زندہ بھی کر گئی ہے۔‘‘ عنزہ نے اُداس چہرے پہ مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔’’کیا مطلب بیٹا، مَیں سمجھی نہیں؟‘‘ ’’یہ لیجیے آنٹی، یہ نایاب کی کتاب ہے، اس کے افسانوں کا مجموعہ۔ آپ اِن افسانوں کو پڑھیے۔ جان کیٹس نے کم عُمری میں اپنی بیماری کے باعث شاعری کی دنیا میں جو مقام حاصل کیا، وہ کسی اور شاعر کو حاصل نہیں ہوا۔ آپ یہ افسانے پڑھ کےدیکھیے،آپ حیران رہ جائیں گی کہ وہ اتنی کم عُمری میں ایسی معرفت کی باتیں، الوہی احساسات و جذبات کی کہانیاں کیسے لکھ گئی ہے اور اُس کے اہلِ خانہ سمیت، مَیں اس کی بیسٹ فرینڈ بھی اس بات سے مکمل بےخبر رہے۔ نایاب کے افسانے بھی کیٹس کی طرح کی مقبولیت سمیٹنے والے ہیں۔‘‘
’’عنزہ! جانتی ہو، وہ اپنی دادی سے اکثر کہا کرتی تھی، ’’میری باتیں، میری شاعری ساری دنیا پڑھے گی۔ مَیں اپنے نام کی طرح نایاب بنوں گی۔‘‘ اللہ نے اُس کی بچپنے کی بات کو حقیقت کر دکھایا ہے۔‘‘ نایاب کی والدہ کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ’’لیکن بیٹا! وہ شاید اس جہاں کے لیے تھی ہی نہیں۔ وہ تو پرندوں، تتلیوں کے چمن کی باسی تھی۔ حقیقت کی تلخیاں اُس کے لیے ناقابلِ قبول تھیں۔ وہ اپنے اصل مقام کی طرف پلٹ چُکی ہے اور وہاں وہ بہت خُوش ہوگی بہت خُوش… مَیں جانتی ہوں اُسے، میری پیاری بیٹی تھی وہ۔‘‘
………٭٭………
خزاں کے موسم میں شدّت آچٍکی تھی۔ پتّوں کا رنگ سبز سے زرد اور اب سُرخ میں تبدیل ہو رہا تھا۔ سامنے صحن میں موجود درخت کسی سفید بالوں والے، اُس بوڑھے شخص کی مانند تھکا ہوا دکھائی دے رہا تھا، جو عُمر کے اِس حصّے میں زندگی کا بوجھ اُٹھا اُٹھا کر تھک جاتا ہے اور اس سے جلدی چھٹکارا پانے کی آرزو رکھتا ہے۔ ایسے ہی سرخ پتّوں والے شجر بھی اپنے عُمر رسیدہ پتّوں سے اُکتا کر تبدیلی کی خواہش رکھتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہےکہ وقت انسان کے بالوں کا رنگ سفید رنگ میں اور درختوں کے پتّوں کاسُرخ رنگ میں تبدیل کر دیتا ہے۔
’’خزاں میرا پسندیدہ موسم ہے، وجہ یک سانیت ہے۔ اندر اور باہر کے موسم میں یک سانیت۔ خزاں کی یہ خوبی ہے کہ وہ انسان سے خالی پن کی اذیت چھین کر اُسے غم کی لذّت عطا کرتا ہے۔ بُھولا بِسرا، سالوں پرانا کوئی غم اُس کے سامنے لا کھڑا کرتا ہے تاکہ وہ بھی اُس رنگ میں رنگ جائے، جس میں ساری دنیا رنگی گئی ہے۔ تین موسموں میں خالی پَن اس کے وجود کو اندر ہی اندر کاٹتا رہتاہے۔ اُسے ہرلمحہ بےچین رکھتا ہے، لیکن خزاں کے آتے ہی جیسے سارے درد سینے میں اُبھرنے لگتے ہیں۔ ایک نئے پن کا احساس انسان کو اندر و باہر سے تروتازہ کر دیتا ہے۔ nothingness کی اذیّت کو الفاظ میں ڈھالنے والے مغربی ادیب، فلاسفر اگر خزاں کی لذّت سے آشنا ہوجاتے، تو کوئی شک نہیں کہ زندگی کا ایک حسین ترین رُوپ دیکھ کروہ نتھنگ نیس کی اذّیت ہی کو بھلا دیتے۔‘‘
مَیں خزاں کو اپنےجوبن پردیکھ کرخود ہی سے گویا تھا۔ پرانے دفن غم پھر سے دل کی قبر اکھاڑ کر باہر نکلنے کو بےتاب تھے۔ دل کی رفتار بڑھ چُکی تھی۔’’ روح کو غم کی طلب ایسے ہی ہوتی ہے، جیسے چائے کے شوقین کو مخصوص وقت پر چائے کی طلب۔ روح کے ساز پہ درد کی دُھن چِھڑ چکی تھی،لیکن مَیں خوش تھا، بہت خوش۔ خزاں ہی وہ موسیقار ہے، جسے معلوم ہے کہ روح کے ساز پہ درد کا ترنم ہی سب سے زیادہ لطف دے سکتا ہے۔ خزاں ہی وہ مصوّر ہے، جسے معلوم ہے کہ روح کے کینوس پہ درد کا رنگ چھڑکا جائے، تو اس میں کس قدر کشش پیدا ہو جاتی ہے۔ ‘‘
شام کی اُداس فضاؤں میں خزاں کی درد بَھری موسیقیت، رُوح کے خالی پن کو رفتہ رفتہ مٹا کر اُسے ایک ایسا لطف عطا کر رہی تھی، جس میں انسان خود میں نہیں رہتا۔ مستی اور سرشاری کی کیفیت نے مجھے لذّتِ غم کے نئے جہانوں میں لاکھڑا کیا تھا۔’’ ماضی، حال اور مستقبل کے جھنجھٹوں سے دُور مَیں ایک ایسے دَور میں کھڑا ہوں، جہاں وقت تھم ساجاتا ہے۔ تب انسان دل و دماغ کی قید سے آزاد ہو کر صرف رُوح کو دیکھ، سُن سکتا ہے۔ رُوح اس کی ہم نوا بھی ہوتی ہے اور منزل بھی۔ اگر وقت نے مجھے لاحاصل تمنّائیں دے کر غم سے روشناس نہ کروایا ہوتا، تو شاید آج مَیں بھی باقی دنیا کی طرح خزاں سے اکتا کر صرف بہار سے محبت کرتا۔ یہ غم ہی تھے، جو مجھے خزاں کا شیدائی بنا گئے اور یہ خزاں ہی ہے، جس نے مجھے روح کے سفر سے آشنا کیا۔‘‘ مَیں مسلسل خود سے مخاطب تھا۔
’’نہیں… غم یا حادثات کسی کو خزاں کا شیدائی نہیں بناتے۔ خزاں سے محبّت وہی کر سکتا ہے، جس کی رُوح خزاں پرست ہو۔‘‘ دماغ کے کیے گئے سوال کا جواب میری روح دے رہی تھی۔ شاید ایسا ہی تھا۔ میری رُوح خزاں پرست تھی کہ بہاریں مجھے کبھی آسودگی نہیں دے سکی تھیں۔
صحن میں پڑے مصوّری کے سامان کو سمیٹ کر مَیں نے اپنا کام شروع کر دیا تھا۔ آج ایک عرصے بعد خالی پن کے بادل ہٹنے کے بعد مجھ پہ نئے تصوّرات کی بارش ہورہی تھی اور اُن سے فیض یابی کے لیے مصوّری کا ساتھ ازحد ضروری تھا۔
………٭٭………
’’منزل کی تلاش میں انسان دَر دَر بھٹکتا ہے، نگر نگر کی خاک چھانتا ہے، علم کے سمندر میں غوطہ زن ہوتا ہے …اور تب کہیں جا کر اُسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی تو منزل بھی خود اُسی میں ہی ہے اور اُس منزل کی راہ بھی۔‘‘ وہ کچھ دیر ٹھہری۔ اُسے محسوس ہوا، جیسے بابا محمّد علی اُس کے رُوپ میں اُن بچّوں سے مخاطب ہیں۔
’’مگر… ہم اِس اندر کی دنیا کےسفر سے گھبراتے ہیں کہ یہ سفر اَن گنت مشکلات و مصائب کا سفر ہے۔ لیکن ہر عظیم منزل کا سفر ایسا ہی کھٹن ہوتا ہے۔ یہاں ثابت قدمی اولّین شرط ہے۔ جو باوجود مشکلات کےچلتارہا، اُس کےلیے نئے دروازے خود بخود کُھلتےچلےجاتےہیں اور جو گھبرا کےچیخ و پکار کرنے لگا،سمجھ لو، وہ رہ گیا، ہار گیا۔‘‘
ایک وقت تھا، خاموشی ہی اُس کی گفتگو تھی۔ الفاظ کو وہ مہمل جانتی تھی، لیکن اب اُس کا پیالہ اس قدر بَھر چُکا تھا کہ اُسے جگہ بنانے کے لیے اِس میں موجود علم کو الفاظ کے ذریعے منتقل کرنا پڑتا تھا کہ علم ایک قرض ہوتا ہےاور اس قرض کی ادائیگی کےلیےاُسے منتقل کرنا، آگے بڑھانا پڑتا ہے۔
’’اِس سفرمیں خودکو مکمل طور پر رب کو سونپ دیجیے۔ ہرانجام کی قبولیت کےلیےخود کو تیار رکھیے، تو ہی سفر جاری و ساری رہے گا۔‘‘
لیکچر کے بعد، اُس نے بابا محمّد علی کے انداز میں جہاں بھر کی محبّت خود میں سموتے ہوئے، ہر ایک کو سُن کر، اُس کی طلب کا اندازہ لگاتے ہوئے اپنے پیالے سے اُس کا مطلوبہ علم اُسے منتقل کیا کہ اسے بھی رب نے چہرہ شناسی کی صلاحیت بطور انعام عطا کر دی تھیَ۔ (جاری ہے)