• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عرفان مہر قتل کیس، فائرنگ کے وقت ملزم کا بیٹا بھی کار میں تھا


کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں سندھ بار کونسل کے سیکریٹری عرفان مہر قتل کے وقت فائرنگ کرنے والے ملزم کا حقیقی بیٹا بھی اسی کار میں مقتول کے ساتھ بیٹھا تھا۔

عرفان مہر قتل کیس میں گرفتار مقتول کے برادر نسبتی غلام اکبر نے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) پولیس کے سامنے دوران تفتیش سنسنی خیز انکشافات کیے ہیں۔

اس ہائی پروفائل قتل کیس کا سراغ لگانے والی سی ٹی ڈی کی خصوصی ٹیم کے انچارج راجہ عمر خطاب کے مطابق عرفان مہر کو قتل کرنے کا ٹاسک اس کی بیوی صاحبزادی اور سالی شبانہ عرف کراڑی عرف چھوٹی نے اپنے حقیقی بھائی ملزم غلام اکبر کو دیا۔

گرفتار ملزم غلام اکبر کے بیان کے مطابق مبینہ طور پر مقتول عرفان مہر اپنی بیوی یعنی اس کی بہن کے ساتھ سخت رویہ رکھتا تھا، جس سے وہ تنگ تھی، تینوں بہن بھائیوں نے مل کر قتل کی منصوبہ بندی کی۔

ملزم کے مطابق اس واردات کے لیے اس کی دلچسپی اس لیے بھی تھی کہ وہ 30 سے 40 لاکھ روپے کا مقروض تھا، عرفان مہر کے قتل کی صورت میں انہیں مقتول کے پاس کیش کی شکل میں موجود لگ بھگ 70  سے 80 لاکھ روپے ملنے کی امید تھی۔

ملزم کے مطابق اس کی بہن صاحبزادی نے اس کام کے لیے ابتدائی طور پر اسے 1 لاکھ 60 ہزار روپے اور پھر چند دن بعد مزید 60 ہزار روپے دیے۔

ملزم کے مطابق ان پیسوں سے اس نے ایک لاکھ 50 ہزار روپے میں نئی 125 سی سی موٹر سائیکل خریدی اور پستول کا بندوبست کیا۔

ملزم کے مطابق اس سے قبل اس نے اس کام میں معاونت کے لیے اپنی چھوٹی بہن شبانہ کے شوہر رحیم بخش مہر کو آمادہ کیا تاہم بعد میں اپنے ایک دوست واجد جاکھرو کو شریک جرم بنایا۔

ملزم کے بیان کے مطابق اس کے لیے اس نے واجد کو 40 ہزار روپے دیے اور مزید 60 ہزار روپے کام کے بعد دینے کا وعدہ کیا۔

ملزم کے مطابق واردات سے قبل اس نے مقتول عرفان مہر کی خود ریکی کی، واردات سے ایک روز قبل صدر سے ٹراؤزر اور جیکٹ خریدیں بعدازاں کالے رنگ کے 2 ہیلمٹ خریدے اور اس نے کینٹ اسٹیشن پر واقع ایک ہوٹل میں قیام کیا۔

ملزم غلام اکبر کے مطابق واردات والے دن وہ اور واجد موٹر سائیکل پر بیٹھ کر گلستانِ جوہر بلاک 13 پہنچے اور چیپل لگژری اپارٹمنٹ کے سامنے پارک کے ساتھ کھڑے ہوکر عرفان مہر کے نکلنے کا انتظار کرنے لگے۔

ملزم کے مطابق عرفان مہر اپنے بچے کو لے کر اسکول چھوڑنے کے لیے گھر سے نکلا تو اس کی بہن صاحبزادی نے موبائل فون سے اسے اطلاع دی۔

ملزم غلام اکبر کے مطابق عرفان مہر بچے کو اسکول چھوڑ کر واپس آیا تو انہوں نے اسے نشانہ بنایا، واردات کے وقت اس نے دیکھا کہ اس کا اپنا بیٹا خوشحال گاڑی کی پچھلی سیٹ پر عرفان کے ساتھ بیٹھا تھا، تاہم اپنے بچے کو بچاتے ہوئے اس نے پے در پے فائرنگ کی۔

ملزم کے مطابق واردات کے بعد وہ وہاں سے سہراب گوٹھ پہنچے اور پھر ایک گوٹھ میں پہنچ کر کچھ دیر قیام کیا، کپڑے تبدیل کیے اور پھر وہاں سے کینٹ اسٹیشن پہنچے جہاں ہوٹل سے سامان لے کر چیک آؤٹ کیا اور کرایہ کی کار میں شکارپور چلے گئے۔

سی ٹی ڈی کے افسر راجا عمر خطاب کے مطابق انہوں نے ٹیکنیکل بنیادوں پر اس واردات کا سراغ لگایا۔

پولیس کے مطابق واردات میں مقتول کی بیوی صاحبزادی اور سالی شبانہ مرکزی ملزمان ہیں، ان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

تازہ ترین