واثق الخیر
اردو ناولوں میں ابتدا سے ہی عورتوں کے مسائل کو مختلف زاویوں سے پیش کیا گیا ہے۔ جدید تعلیم کے اثرات کے سبب انسانی سماج میں جو بتدریج تبدیلیاں رونما ہوئیں،ان کا عکس بھی ناولوں میں دکھائی دیتا ہے۔تہذیب کے ٹکرائو اور جدید طرز زندگی کے نمونے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ گھریلو حادثات و واقعات اور خاتون خانہ کی حقیقی روداد بھی ناول کا اہم حصہ ہیں۔
ڈپٹی نذیر احمد کو اپنے ہم عصروں میں عورتوں کی اصلاح کی ضرورت اور اہمیت کا شعور سب سے زیادہ تھا۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ جاگیر دارانہ، زمیندارانہ دور کی اخلاقی پستی اور معاشرتی انحطاط کے اثر سے طبقہ نسواں بھی محفوظ نہیں ہے۔ اس لئے انہوں نے ان کی پستی کے اسباب اور ان کے مسائل کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔ ان کے یہاں جاگیردارانہ نظام کی ستائی ہوئی عورت کی جیتی جاگتی تصویر ملتی ہے۔ کیونکہ اس نظام میں عورت کو مرد اپنی ملکیت سمجھتا ہے۔ نذیر احمد نے عورت کی زندگی کے کسی بھی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا ہے۔
ان کی آپسی رنجشوں ،اخلاقی پستی، جہالت، ضعیف الاعتقادی ،رسم و رواج کی پابندی اور اسی قسم کی دوسری برائیوں پر ،جن کی وجہ سے اچھی مائیں اور سلیقہ شعار بیویاں نہیں بن سکتی تھیں۔ بڑی خوشی سے روشنی ڈالی ہے۔ اس طبقے کی معاشرتی زبوں حالی کا انہیں شدید احساس تھا۔ ناول مراۃ العروس میں عورتوں کی سماجی بے وقعتی پر روشنی ڈالی ہے۔ ان کو جاگیردارانہ عہد کی ان مظلوم عورتوں سے شدید ہمدردی تھی جو مردوں کی ملکیت بن کر رہ گئی تھیں۔ اور جنہیں صرف اس لئے جاہل رکھا جاتا تھا کہ مردوں سے مساویانہ حقوق کا مطالبہ نہ کر بیٹھیں۔ وہ عورتیں معاشی اعتبار سے مروں کی محتاج تھیں۔
عبدالحلیم شرر نے زیادہ تر تاریخی ناول لکھے۔ لیکن ان کے ناولوں میں بھی عورتوں کے مسائل کی ترجمانی ملتی ہے۔ ان کے ناولوں کی عورتیں بہادر بھی ہیں اور مردوں کے ساتھ میدان جنگ میں شریک کار بھی ہیں۔ اس کے علاوہ اپنے معاشرتی ناول میں عورتوں کی کم حیثیت اور پستی کو موضوع بنایا۔ انہوں نے پردہ کی سخت گیری کی مخالفت اسلام کی روشنی میں کی ہے۔ ان کا ناول’حسن کا ڈاکو‘ میں عورتوں کی تعلیم کی پرزور حمایت ملتی ہے۔ ناول کا نسوانی کردار ،مہ لقا‘ کو جدید تعلیم سے آراستہ دکھایا۔
راشد الخیری نے بھی اپنے ناولوں میں عورت پر سماج میں جن مظالم اور ناانصافیوں کو روا رکھا جاتا تھا اس کی درد ناک عکاسی کی۔ انہوں نے اپنے ناولوں میں زیادہ تر عورتوں کی تعلیم پر زور دیا ۔خانگی پیچیدگیاں اور زن وشوہر کے تعلقات کو ناولوں میں نمایاں طور پر پیش کیا۔ ان کا ناول ،شام زندگی ، عورتوں کی تعلیم پر مبنی ہے۔ اس ناول میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ سماج کو بہتر تبھی بنایا جا سکتا ہے جب عورتیں تعلیم سے آراستہ ہوں۔ وہ یہ تصور کرتے تھے کہ اس دور میں عورتوں کا تعلیم یافتہ ہونا ان کے اور آئندہ آنے والی نسلوں کے حق میں بہتر ہو گا۔
اس کے لئے انہوں نے کوشش بھی کی کہ تعلیم یافتہ مسلمان عورتوں کو مدرسہ نسواں قائم کرنا چاہئے تاکہ مسلم بچیاں انپے مذہب اور تہذیب سے بیگانہ نہ رہیں۔ عورتوں پر مغربی تعلیم کے غلط اثرات مرتب نہ ہوجائیں اس کیلئے وہ خالص مشرقی اور دینی تعلیم کی ترغیب دیتے ہیں۔ ناول، صبح زندگی، میں نئی نسل کو اپنی اعلیٰ قدار کی پاسداری کا خیال رکھتے ہوئے ایسی تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دیتے ہیں جو ان کے لئے بہتر ہو۔
مرزا ہادی رسوا کے ناولوں میں بھی متوسط طبقے کی عورتوں کے مسائل سامنے آئے۔ اپنے گردو پیش میں انہوں نے جو ماحول پایا ،اس کی پستی اور خصوصاً شریف گھرانوں میں جو انتشار تھا اس کو بیان کیا۔
اس انتشار کی ذمہ داری مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں پر بھی عائد کی۔ انہوں نے لکھا کہ عورتیں جہالت کی وجہ سے اپنے فرائض سے ناواقف اور اچھے خیالات کے اکتساب سے محروم رہتی ہیں۔ رسوا اپنی مثالی عورت کے لئے جس چیز کی ضرورت خیال کرتے وہ تعلیم تھی۔ وہ اس سے اتفاق رکھتے تھے کہ موجودہ دور میں عورتوں کو تعلیم سے محروم کر کے گھروں کی چار دیواری میں مقید رکھنا قرین مصلحت نہ ہو گا۔ اختری بیگم ،میں ہرمزی کے کردار کے ذریعہ اس امر پر روشنی ڈالی کہ تعلیم سے عورتوں کے تجربات وسیع ہوں گے۔ انہوں نے ایسی پابندیوں کو جو عورتوں میں بے جا شرم اور جھجک پیدا کرتی ہیں اسے بے ہودہ خیالات سے تعبیر کیا ۔
عورتوں کے مسائل کے نقطہ نظر سے اگر پریم چند کے ناولوں کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان ناولوں میں عورتوں کی قابل رحم اور درد ناک زندگی بدلتی ہوئی نظر آتی ہے۔ عورتوں پر ہونے والے ظلم و زیادتی کے خلاف ہر محاذ پر احتجاج ملتا ہے۔ دراصل پریم چند مساوات، انسانیت ،شرافت اور انصاف کے قائل تھے۔ وہ سماج کے ہر طبقے کو زندگی کی جدوجہد میں برابر کا شریک دیکھنا چاہتے تھے۔ اس کیلئے ضروری تھا کہ عورت پہلے خود کفیل بنے،کیونکہ جب تک عورت معاشی حیثیت سے مرد ذات کی محتاج رہے گی تب تک دوسرے درجے کی مخلوق سمجھی جاتی رہے گی۔
پریم چند کے ناولوں میں عورت کے تمام ناگفتہ حالات و کوائف کا نقشہ ملتا ہے،وہ شادی بیاہ کے معاملے میں نہ صرف یہ کہ عورتوں کی آزادی رائے کے قاتل نظر آتے ہیں بلکہ وہ اس بات کی شدید حمایت کرتے تھے کہ شادی سے قبل عورت اور مرد کو تبادلہ خیال کا پورا موقع ملنا چاہئے۔ ان کے نزدیک شادی ایک معاہدہ ہے جس کی کامیابی کا انحصار فریقین کی رضامندی پر ہے ،پریم چند کے ابتدائی ناول زیادہ تر سماج کے مسائل یعنی بیوہ، طوائف ،تعلیم اور تعداد ازدواج کے مسئلے پر مبنی ہے اور ان میں اصلاح کا پہلو زیادہ نمایاں ہوتا تھا۔ لیکن بعد میں ناولوں میں انہوں نے عورت کو ایک سیاسی اور سماجی کارکن کی حیثیت سے بھی فعال دکھایا۔
ان سے قبل کسی میں بھی اتنی جرات نہ تھی کہ عورتوں کو پسماندگی سے نکالنے کی کوشش کرے اور انہیں مردوں کے دوش بدوش لا کھڑا کرے۔ پریم چند کے ناولوں میں ’’چوگان ہستی‘‘ ،غبن اورمیدان عمل، خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ جن میں عورتوں کے احساس و جذبات پوری طرح ابھر کر سامنے آئے۔
نذر سجاد حیدر کا ناول ’’جانباز‘‘ میں ہیرئون مردوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر جدوجہد آزادی میں شامل ہوتی ہے۔ جس سے ان کے اس شعور کا ثبوت ملتا ہے۔ کہ وہ نہ صرف آزادی نسواں اور مساوات کی خالی خولی باتیں کرتے ہیں بلکہ عملی طور پر اسے برتنا بھی چاہتے ہیں۔
قراۃ العین حیدر نے کئی ناول لکھے جن میں انسانی کردار واضح طور پر مرکزی حیثیت میں سامنے آئے۔’’آگ کا دریا‘‘ ،کی چمپا یا جلا وطن ،چائے کے باغ، کی راحت کاشانی ہویا ’دلربا‘ کی گلنار ،ہائوسنگ سوسائٹی، کی ثریا حسین ہو یا ’سیتا ہرن، کی سیتا:،آخری شب کے ہم سفر ، دیپالی سرکار ہو یا ’ میرے بھی صنم خانے، کی رخشندہ جو جاندار کردار ہونے کے باوجود مردوں کے جبر و استحصال سے بچ نہیں پائیں۔
عصمت چغتائی نے اپنے ناولوں میں عورتوں کے جذبات کو زیادہ اہمیت دی ۔ ان کی تخلیقات کا موضوع اکثر لڑکیوں کے روزمرہ کے حالات تھے، جسے انہوں نے بڑی تفصیل سے بیان کیا۔ ٹیڑھی لکیر، ضدی، معصومہ اور دل کی دنیا وغیرہ اس کی اچھی مثالیں ہیں۔
سعادت حسن منٹو نے اپنے اکثر ناولوں میں عورت کے جذباتی نقطہ نظر کو ملحوظ رکھا ہے۔ سماج کی ٹھکرائی ہوئی عورتوں کو موضوع بنا کر ان پر ہونے والے ظلم کو ظاہر کیا۔ منٹو اپنے ناولوں کے ذریعہ عورتوں کی خوب حمایت کرتے تھے۔
کرشن چندر کا ناول ’شکست‘ میں بھی عورتوں کے مسائل بخوبی نظر آتے ہیں۔اس کا کردار ’ونتی‘ کے ذریعے عورت کی سماجی حیثیت بڑی حد تک واضح صورت میں نظر آتی ہے۔انہوں نے ونتی کے ذریعے روایتی عورت کے سماجی مسائل کو پیش کیا۔
نصف بیسیویں صدی کے بعد عورتوں کی حمایت میں قوت آئی جو صدی کے اختتام تک باقی رہی، اکیسویں صدی میں بھی جو ناول لکھے جا رہے ہیں اس میں بھی عورتوں کے ساتھ آنے والے مسائل کو بخوبی اٹھایا گیا ہے۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی