اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ پاکستان نے کہا کہ کالعدم قرار دیا گیا قانون بحال نہیں ہوگا حکومت بتائے کہ متاثرہ ملازمین کیلئے کیا ریلیف مل سکتا ہے.
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا ہے کہ جن نوجوانوں کا حق مارا گیا ان کا کیا کرینگے، ایسا کیوں نہیں کرتے کہ ملازمین کے دوبارہ ٹیسٹ اور انٹرویو کرلیں، سرکاری ملازمت کیلئے کوئی تو میرٹ اور طریقہ کار ہونا چاہیے، عدالت نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہے.
عدالتی فیصلے مستقل کیلئے بطور نظیر پیش ہوتے ہیں جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ دس سال سروس پر ملازمین کو کوئی ریلیف دینا چاہیے تو دے سکتی ہے جس پر اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا ہے کہ پارلیمان حکومت اور میرے ذریعے ایکٹ کا دفاع کر رہی ہے۔
سپریم کورٹ میں سیکڈ ایمپلائز ایکٹ 2010 کالعدم قرار دینے سے متعلق نظر ثانی درخواستوں پر سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا 7 نومبر 1996 کے خط کے تحت ان ملازمین کو نکالا گیا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کتنے اداروں کے ملازمین سپریم کورٹ کے فیصلے سے متاثرہ ہیں،اٹارنی جنرل نے کہا کہ 16 اداروں کے 16 ہزار ملازمین بتائے جا رہے ہیں .
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے کہا کہ 5 ہزار متاثرہ ملازمین ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیا قانون کے مطابق ان ملازمین کی پنشن کا حق بنتا ہے؟ اٹارنی جنرل بولے میرے خیال سے قانون کے مطابق ان ملازمین کے پنشن کا حق ابھی نہیں بنے گا۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آئین سپریم کورٹ کو مکمل انصاف کا اختیار دیتا ہے، عدالت نے اپنے فیصلے میں بھی بھرتی کے طریقہ کار کا جائزہ لیا ہے۔