آغا سیّد حامد علی شاہ موسوی
مشکلات، پریشانیوں اور سختی کو اللہ کی تخلیق کی حکمت میں سے قرار دیا گیا ہے، مشکلات کی حکمت انسان کے اندر پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ہے۔ انہی مشکلات کی کوکھ سے جہاں ایجادات نے جنم لیا، وہیں مخلوقات کے عزم و حوصلے اور جہد مسلسل کے سبب ایسے ایسے راستوں کے راز منکشف ہوئے جو مخلوق کو خالق تک پہنچانے کا سبب بنتے ہیں ۔تاریخ میں ایسے بہت سے کرداروں کا ذکر ملتا ہے، جنہوں نے مشکلات میں اپنی قوموں کو کامیابی و سرفرازی کے راستے پر گامزن کیا، ان عظیم رہنماؤں میں ایک ممتاز و منفرد فرزند رسولؐ، امام زین العابدینؒ ہیں، جنہوں نے اس وقت امت محمدی ؐ کی رہنمائی کافریضہ انجام دیا، جب10محرم کو کربلا کے میدان میں نبی کریم ﷺ کے نواسے امام حسینؓ اپنی عظیم قربانی دے چکے تھے۔
اس مشکل اور نازک ترین دور میں حضرت امام زین العابدین ؒنے اپنی عمہ محترم سیدہ زینب بنت علیؓ کی تائید و حمایت سے خانوادۂ رسولﷺ کے لٹے ہوئے قافلے کے میر کارواں بن کر عزم و استقامت کی وہ روشن ترین مثال قائم کی کہ تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے ۔ علی ابن الحسینؓ جو کثرت عبادت کی وجہ سے زین العابدین ، سجاد اور عابد کے القاب سے بھی مشہور ہیں ، نے امام حسینؓ کے برپا کردہ انقلاب کو اسیران کربلا کے ہمراہ ایسا آب حیات پلایا اور دنیا کو اس عظیم انقلاب کے اغراض و مقاصد سے اپنے خطبات کی صورت کچھ اس انداز سے آگاہ کیا کہ ظالمین جس شہادت کو بے آب وگیاہ میدان میں دفن کردینا چاہتے تھے ،اس کے ثمرات دنیا کے ہر خطے اور گوشے تک پہنچ گئے ۔
امام زین العابدین ؒکی دعاؤں کا مجموعہ صحیفہ سجادیہ، حقائق و معارف الہٰی کا عظیم ترین خزانہ ہے۔ یہ دعائیں عارفین کے دلوں کو حرمِ خدا اور معرفتِ الہٰی کی ناقابلِ تصور بلندیوں تک پہنچا دیتی ہیں اور عبادت گزاروں کو محرابِ عبادت میں وہ لذت مہیا کرتی ہیں کہ جو فانی دنیا کی لذتوں کو بے معنی کر دیتی ہیں۔
امام زین العابدین ؒ نے 15جمادی الاول (بعض روایات 5شعبان )38ھجری کو مدینہ منورہ میں نواسۂ رسولؐ حضرت امام حسین ؓکے پاکیزہ گھرانے میں آنکھ کھولی ۔آپ کی والدہ گرامی حضرت شہر بانوتاریخ کی عظیم ترین خواتین میں سے ایک ہیں جو آخری ساسانی بادشاہ یزد گرد دوم کی بیٹی تھیں۔ اس نسبت سے امام علی ابن الحسین کا ددھیال سرور کائنات پیغمبر اسلام ﷺاور ننھیال نوشیرواں عادل سے تھا ۔
امام زہری ،ابن مسیب اور ابن عیینہ کہتے ہیں کہ ہم نے امام علی ابن الحسین ؓسے زیادہ افضل عبادت گزار اور فقیہ کسی کو نہیں دیکھا ۔(نورالابصار) امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ آپ کو کثرت عبادت کی وجہ سے زین العابدین کہا جاتا ہے۔ (نورالابصار) حضرت علامہ عبدالرحمن جامی ؒروایت کرتے ہیں کہ امام زین العابدینؒ ایک مرتبہ نماز تہجد میں مشغول تھے کہ شیطان ایک اژدھے کی شکل میں آگیا اور آپ کے پاؤں کے انگوٹھے کو کاٹنا شروع کردیا، لیکن آپ عبادت خداوندی میں انہماک سے مشغول رہے، شیطان آپ کو عبادت خداوندی سے ہٹانے میں ناکام رہا، حتیٰ کہ وہ عاجز آگیا۔ جب آپ نے اپنی نماز مکمل کرلی تو طمانچہ مار کرشیطان کو دور ہٹادیا، اس وقت ہاتف غیبی نے تین بار صدا دی ’’انت زین العابدین ،انت زین العابدین،انت زین العابدین‘‘بے شک، آپ عبادت گزاروں کی زینت ہیں۔اس کے بعد آپ کا یہی لقب مشہور ہو گیا۔(شواہد النبوۃ )
امام زین العابدینؒ اخلاق محمدی ؐ اور علم مرتضویؓ کے مالک تھے ۔آپؒ ایک اونٹنی پر سوار ہو کر بیس مرتبہ حج کے لیے گئے، لیکن کبھی ایک مرتبہ بھی اسے چھڑی سے نہ مارا۔جب آپ کی شہادت ہوئی اور انہیں غسل دیا گیا تو غسل دینے والے ان کی کمر پر سیاہ نشانات دیکھنے لگے اور کہنے لگے:یہ کیا ہے؟ تو کسی نے انہیں بتایا کہ: امام زین العابدینؒ رات کو آٹے کی بوریاں اپنی کمر پر اٹھا کر اہل مدینہ کے فقراء میں تقسیم کرتے تھے اور یہ ان ہی بوریوں کے نشانات ہیں۔
ایک روایت میں ہے کہ کسی نے حضرت امام زین العابدینؒ سے کہا: آپ لوگوں میں سے سب سے زیادہ نیک و برگزیدہ ہیں، لیکن آپ اپنی والدہ کے ساتھ ایک برتن میں کھانا نہیں کھاتے، حالانکہ وہ یہ چاہتی ہیں؟ تو آپؒ نے فرمایا: میں یہ پسند نہیں کرتا کہ میرا ہاتھ اس لقمے کی طرف سبقت لے جائے جس لقمے کی طرف میری ماں کی آنکھیں سبقت لے چکی ہیں۔
ایک دفعہ حضرت امام زین العابدین ؒ کی ایک کنیز سے کھانے سے بھرا برتن ٹوٹ گیا جس کی وجہ سے اس کا چہرہ خوف سے پیلا ہو گیا۔ تو آپ نے اسے فرمایا: جاؤ ،تم خدا کی راہ میں آزاد ہو۔
مروی ہے کہ ایک دن آپؒ کا گزر کچھ ایسے افراد کے پاس سے ہوا جو آپ کی برائیاں کر رہے تھے، امام زین العابدینؒ اْن کے پاس رکے اور اْن سے فرمایا: اگر تم سچ کہہ رہے ہو تو خدا میری مغفرت فرمائے اور اگر تم جھوٹ بول رہے ہو تو خدا تمہاری مغفرت فرمائے۔
ایک روایت میں مذکور ہے کہ ایک دفعہ حضرت امام سجادؒ باہر نکلے تو آپ سے ایک شخص ملا جس نے آپ کو برا بھلا کہا، جس کی وجہ سے آپ کے ساتھ موجود غلام اور چاہنے والے اس شخص پر غضب ناک ہو گئے تو آپ نے اْن سے فرمایا: ٹھہر جاؤ، پھر آپ نے اس شخص سے مخاطب ہو کر فرمایا: ہمارا معاملہ تم پر زیادہ پوشیدہ نہیں رہنا چاہیے، کیا تمہاری کوئی ایسی حاجت ہے کہ جسے ہم پورا کر سکتے ہیں؟ یہ سن کر وہ شخص شرمندہ ہو گیا۔ پھر آپ نے اپنی چادر اس پر ڈال دی اور اسے ایک ہزار درہم دینے کا حکم دیا۔ اس کے بعد وہ شخص امام زین العابدینؒ کو کہا کرتا تھا کہ: میں گواہی دیتا ہوں واقعی آپ رسولوں کی اولاد ہیں۔
25 محرم الحرام 95 ھ مطابق714 ء کو آپ کو زہر دے دیا گیا جس کے سبب آپ درجہ شہادت پرفائزہوگئے۔ شہادت کے وقت امام زین العابدین57سال کے تھے ۔آپ کے فرزند امام محمدباقرؒ نے آپ کی نمازجنازہ پڑھائی اورآپ مدینہ منورہ میں اپنے عم بزرگوار حضرت امام حسنؓ اور دادی خاتون جنت حضرت فاطمہ زہراءؓ کے پہلو میں جنت البقیع میں دفن کیے گئے۔