• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

’چراغ جلتا رہا‘ وہ فلم جس نے فلمی صنعت کو محمد علی، زیبا اور دیبا جیسے مایہ ناز فنکاروں سے نوازا

فلم ’’چراغ جلتا رہا‘‘ کے فلم ساز، ہدایت کار اور مصنف فضل کریم فضلی تھے، بہ طور مصنف اور شاعر وہ ہندوستان میں بے حد مقبول تھے ، وہ وہاں آئی سی ایس افسرتھے۔ ان کے بڑے بھائی ایف ایف حسین پہلے ہی فلمی صنعت سے وابستہ ہوچکے تھے۔ فضل کریم فضلی نے ہندوستان میں فلم ’’معصوم‘‘ کی کہانی اور مکالمے لکھ کر اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ جب وہ پاکستان آئے، تو ان کے بھائی سبطین فضلی کے کریڈٹ پر سپرہٹ نغماتی میوزیکل فلم ’’دوپٹہ‘‘ کی دُھنیں خوب سنائی دے رہی تھیں۔ 

فضل کریم احمد فضلی نے کراچی میں دبستان محدود کے نام سے ایک فلمی ادارہ قائم کیا، جس کا آفس ناظم آباد میں تھا، وہاں انہوں نے اپنی فلم ’’چراغ جلتا رہا‘‘ بنانے کا اعلان کیا۔ پہلے انہوں نے اس فلم کو ’’شاکر‘‘ کے نام سے شروع کیا، جو بعد نام کی تبدیلی کے ساتھ ’’چراغ جلتا رہا‘‘ ہوگئی۔ اس فلم میں انہوں نے تمام نئے فن کار متعارف کروائے۔ نگار کے الیاس رشیدی کے توسط سے انہوں نے ناظم آباد کی رہنے والی ایک حسین و جمیل لڑکی ’’شاہین‘‘ کو ’’زیبا‘‘ کا نام دے کر اس فلم میں بہ طور ہیروئن کاسٹ کیا۔

محمد علی ان دِنوں ریڈیو اور اسٹیج پر اپنی تقدیر کو آزما رہے تھے۔ ایک موقع فضلی کا پہلی بار محمد علی سے تعارف ہوا اور انہوں نے اسے اس فلم میں بہ طور وِلن کاسٹ کرلیا۔ اس فلم سے قبل محمد علی نے ایک فلم آنکھ اور خون میں بہ طور مہمان آرٹسٹ کام کیا، جو ریلیز نہ ہو سکی تھی۔ ہدایت کار منیر رشید کی فلم ’’بازی گر‘‘ میں بھی وہ اس وقت بہ طور وِلن کام کر رہے تھے، جو تاخیر کا شکار ہوکر بہادر کے نام سے بعد میں ریلیز ہوئی، تو اس وقت تک وہ آسمان فلم پر ایک مستند اور کام یاب ہیرو کے طور تسلیم کیے جا چکے تھے، چراغ جلتا رہا ان کی پہلی فلم کہلائی۔ 

اداکارہ دیبا جو اس فلم سے قبل بے بی راحیلہ کے نام سے چند ایک فلموں میں بہ طور چائلڈ اسٹار کام کر چکی تھیں، اس فلم میں فضلی صاحب نے انہیں دیبا کا نام دیا اور جوانی کی سیڑھی پر قدم رکھنے کے بعد یہ ان کی پہلی فلم تھی۔ اس فلم کا ہیرو بھی نیا تھا، جن کا نام عارف تھا، حُسنِ اتفاق سے یہ بھی ان دنوں ناظم آباد کے رہنے والے تھے۔ 

بنیادی طور پر یہ صاحب آرٹسٹ تھے، جو کتابوں اور ناولز کے سرورق بناتے تھے، خوش شکل وجہہ ہونے کے باوجود وہ اداکاری سے واقف نہیں تھے، یہی وجہ ہے کہ اس فلم کا ہیرو اس فلم کے بعد بالکل گمنام ہوگیا، جب کہ فلم میں وِلن کا رول کرنے والے محمد علی نے بہ طور ہیرو جو مقام و عزت پائی، وہ بہت کم فن کاروں کے حصے میں آئی، فلم کی ہیروئن زیبا کی نجی زندگی کے اصل ہیرو بن کر جس طرح ان دونوں نے زندگی بسر کی۔ 

فلمی دُنیا میں ایسی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ ٹی وی اور فلم کے معروف اداکار طلعت حسین نے اس فلم بہ طور چائلڈ اسٹار پہلی بار کام کیا۔ ان کا رول اداکارہ دیبا کے چھوٹے بھائی کا تھا۔ کمال ایرانی کی شہرت کراچی کی فلموں کے حوالے سے کسی تعارف کی محتاج نہیں، ان کو بھی اس فلم میں پہلی بار متعارف کروایا گیا۔ فلم کا ایک اہم کردار جس کے گرد فلم کی کہانی گھومتی ہے، وہ کردار ریڈیو فن کار وحید محمود نے کیا تھا، جو بے حد کام یاب رہے۔ 

یہ اسکول کے ہیڈ ماسٹر کا کردار تھا، جو ایک ایمان دار اور شریف شخص ہوتا ہے۔ دیبا، طلعت حسین اور عارف اسی ہیڈ ماسٹر کی اولاد ہوتے ہیں۔ فلم میں کام کرنے والے دیگر اداکاروں میں امیر خان، مغل شبیر ڈیڈی، لاڈلے، غلام محمد ہوتھ، غلام قادر، آفتاب، صفیہ معینی، روما، نینا، آزوری، انجیلا، نصیر، نور الدین کے نام شامل تھے۔

فلم کی کہانی کا خلاصہ کچھ یوں تھا کہ شاکر (وحید محمود) ایک اصول پرست اور نیک انسان تھا، جو اپنے قصبے کی ایک اسکول میں بہ طور ہیڈ ماسٹر اپنے فرائض انجام دے رہا تھا۔ اسی قصبے کا ایک خود غرض لالچی سیاست دان (امیر خان) جو نواب بھی تھے، اپنی صاحب زادی جمیلہ (زیبا) کی شادی شاکر کے بیٹے جمیل (عارف) سے کرنے کے متمنی تھے، تا کہ شاکر کی عزت اور نیک نامی کو وہ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرسکے۔ 

جمیلہ اور جمال کا رشتہ طے ہو جاتا ہے، لیکن شاکر کی اصول پرستی کے سامنے نواب صاحب کی ایک نہیں چلتی، نواب صاحب اپنے اثر و رسوخ سے شاکر کو نوکری سے برخاست کرادیتے ہیں۔ شاکر اپنے بیٹے جمیل کو کراچی بھیج کر خود اپنی بیٹی صبا (دیبا) اور منے (طلعت حسین) کے ساتھ کسی اور گائوں چلا جاتا ہے، اس گائوں کا نواب محمود (کمال ایرانی) اسے اپنے گائوں میں رہنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ 

وہ اپنا نام ایاز بتاتا ہے۔ ایاز بن کر وہ لوگوں کے دُکھ اور تکلیفوں کا پتہ لگاتا ہے، کسی کو پتہ نہیں ہوتا کہ یہ نواب محمود ہے۔ اسی نواب کا چھوٹا بھائی افسر خان (محمد علی) جو فطرتاً ایک ہوس پرست شخص تھا، وہ ایک روز شاکر کی بیٹی صبا پر اپنی بری نظر ڈالتا ہے، شاکر کی بیگم (صفیہ ) ایک لالچی عورت ہوتی ہے، جو افسر خان کے چکر میں آجاتی ہے۔ صبا اور افسر خان کی شادی کی شاکر مخالفت کرتا ہے۔ بیگم کو افسر خان کا بھائی بھی اس شادی سے منع کرتا ہے، مگر وہ نہیں مانتی اور اس کا داخلہ اپنے گھر میں بند کر دیتی ہے۔ ایک روز افسر خان اپنے ایک ساتھی لقمان (بشیر مغل) کے ذریعے صبا کو اغوا کرنے کا پروگرام بناتا ہے۔ 

شاکر اپنی بیٹی کے اغوا ہونے کے بعد کراچی آتا، اپنے بیٹے جمیل کے پاس، جہاں وہ اپنی کتاب کے پبلشر نبی احمد (غلام محم ہوتھ) سے ملتا ہے، وہیں جمیلہ بھی موجود ہوتی ہے۔ افسر خان بھی اسی پبلشر کا مہمان بن کر اس کے گھر میں آتا ہے۔ جمیلہ کو دیکھ کر وہ اسے اپنی بیوی بنانے کا سوچتا ہے، لیکن جب اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ جمیل کو چاہتی ہے، تو افسر خان جمیل کو نوکری دلانے کے چکر میں ڈھاکا بھیج دیتا ہے، تا کہ جمیلہ سے شادی کر سکے۔ 

شاکر دوبارہ اپنے قصبے کی طرف روانہ ہوتا ہے، جہاں اسٹیشن پر اس کی ملاقات اپنی بیٹی صبا سے ہوتی ہے، جو اسے بتاتی ہے کہ افسر خان نے شادی کا دھونگ رچا کر اس کی عزت برباد کردی ہے، یہ سن کر شاکر افسر خان کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے کہ صبا کو اپنی بیوی تسلیم کرے، ورنہ اسے عدالت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ سن کر افسر خان اپنے تعلقات سے شاکر کو جیل کروا دیتا ہے۔ 

جب جمیل کو سارے حالات کا پتہ چلتا ہے، تو وہ گائوں آکر افسر خان کو ختم کرنے جاتا ہے، لیکن وہ اسے پولیس کے ذریعے گرفتار کرا دیتا ہے۔ جیل میں باپ اور بیٹے کی ملاقات ہوتی ہے۔ جمیل شاکر اپنے اچھے کردار کی وجہ سے تمام قیدیوں کی نظر میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ایک روز افسر خان کا ساتھی لقمان پولیس کے ہتھے چڑھ جاتا ہے، جو تفتیش کے دوران افسر خان کے سارے ظلموں سے پردہ ہٹا دیتا ہے۔ نواب محمود اپنے بھائی افسر خان کو پولیس کے حوالے کر دیتا ہے اور باقی سارے لوگ بھی آپس میں مل جاتے ہیں۔

جمیل اور جمیلہ کی شادی ہوجاتی ہے۔ شاکر کی کتاب بھی انگلینڈ سے شائع ہو جاتی ہے ، جس کی رائلٹی کے اسے 50ہزار ملتے ہیں۔ شاکرکی ساری تکلیفیں دور ہو جاتی ہیں اور ایک نئی صبح کا چراغ جلتا ہے۔

بہ طور ہدایت کار فضل احمد کریم فضلی کی یہ پہلی فلم تھی، یہ پاکستانی فلمی صنعت میں ایک نیا تجربہ تھا، جس کی تمام تر کاسٹ اور کریڈٹ زیادہ تر نئے لوگوں پر مشتمل تھی۔ تمام نئے لوگوں سے انہوں نے بڑی حد تک اچھا کام لیا۔ زیبا، محمد علی، دیبا اور کمال ایرانی آگے چل کر فن اداکاری میں کافی شہرت پائی۔ مبارک مستری کی فوٹو گرافی مجموعی طور پر بہتر تھی۔ انہوں نے زیبا کو بہت خُوب صورت انداز میں ایکسپوز کیا۔ 

اس کے برعکس دیبا کے مناظر میں لائٹنگ پر توجہ نہیں دی گئی، جب کہ پرنسس امینہ کا چہرہ جو کوئی خاص نہ تھا، مگر اچھی لائٹنگ نہ ہونے کی وجہ سے اور بھی بُرا لگا۔ پروسیسنگ کے شعبے میں ایم عقیل خان اور شفیع قاضی کا کام بھی بس گزارہ تھا۔ اس فلم کے تدوین کار ندیم تھے، جو مبارک مستری کے شاگردوں میں تھے، گانوں کی صدا بندی میں اقبال شہزاد کا کام تعریف کے قابل تھا۔ مکالموں کی صدا بندی ایم اسمعیل نے کی، جو مناسب تھی۔ 

فلم کی کہانی کے پس منظر میں آرٹ ڈائریکٹر فخرو الدین نے اچھے سیٹ لگائے، مگر چند ایک سیٹ بہت ہی مضحکہ خیز لگے۔ فلم کے موسیقار ریڈیو آرٹسٹ نہال عبداللہ تھے۔ ان کی پہلی فلم تھی، تمام دُھنیں مسحورکن تھیں، لیکن ان میں ریڈیو کا اسلوب شامل تھا۔ فلم والی بات بہت کم تھی۔ فلم میں رقص کا شعبہ آزوری اور شادو کے پاس تھا۔ پرنسس امینہ پر فلمایا ہوا رقص قابل تعریف تھا، لیکن اس سے قدرے بہتر رقص اداکارہ نینا کا تھا، جس کا چہرہ بھی خُوب صورت ایکسپوز ہوا۔ اس فلم میں کل 13 گانے شامل تھے۔

فلم سے جڑی کچھ یادیں !!

یہ یادگار اور کام یاب فلم جمعرات 18مارچ 1962ء عیدالفطر کے دن کراچی کے نشاط سنیما میں ریلیز ہوئی تھی، یہ اپنے مرکزی سنیما پر 15ہفتے چلی، جب کہ مجموعی 26 ہفتے کر کے شان دار سلور جوبلی منائی۔ لاہور میں یہ فلم جمعہ 28ستمبر 1962ء کواٹر سنیما میں ریلیز ہوئی، جہاں اس نے 6 ہفتے اپنی نمائش کے مکمل کیے۔ حیدرآباد کے نیو میجسٹک سنیما پر یہ فلم چلی تھی۔ کراچی کے نشاط سنیما پر اس فلم کا پریمیئر شو بڑے اہتمام سے رکھا گیا، جس میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے شرکت کی۔ 

بیگم صفیہ نے ان کا استقبال کیا۔ جب کہ فلم کی پُوری کاسٹ بھی اس موقع پر موجود تھی۔ یہ فلم اپنے پہلے دن پر چلنے کے بعد نہ جانے کیوں بعد میں کسی بھی سیکنڈ دن یا تھرڈ دن میں کسی سنیما پر ریلیز نہ ہو سکی۔ حالاں کہ فلم کا بزنس بھی شان دار تھا۔ اس فلم کی کام یابی پر نگار کے الیاس رشیدی نے کراچی کے بیچ لگژری ہوٹل کے سبزہ زار میں ’’چراغ جلتا رہا‘‘ کی پوری ٹیم کو ایک شان دار عصرانہ دیا،جس میں شہر کے معززین نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی۔

اس فلم کے حوالے سے اداکار محمد علی اپنی یادوں کا تذکرہ اس طرح کیا کرتے تھے کہ اس فلم کی کہانی کا مسودہ ان کے ایک دوست کے ذمے مرتب کرنے کے لیے آیا، تو انہوں نے فضلی صاحب کی اجازت سے وہ مسودہ میرے حوالے کر دیا۔ میں اس کی تدوین کرنے لگا۔ فلم کے مسودے کے سلسلے فضلی صاحب سے ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں، تو ایک روز انہوں نے مجھے فلم میں ایک کردار بھی سونپ دیا۔ ملکہ ترنم نور جہاں نے کراچی میں بننے والی فلم کے لیے پہلی بار پلے بیگ ریکارڈ کروا کے ایسٹرن اسٹوڈیو کے ریکارڈنگ ھال میں اقبال شہزاد نے ان کے گانوں کی صدا بندی کی۔ 

اداکارہ زیبا کراچی کی وہ پہلی ہیروئن تھیں، جن پر نور جہاں نے کراچی میں ہی پلے بیگ ریکارڈ کروائے۔ اداکارہ زیبا اس حوالے سے اپنی یادوں کے چراغ جلاتے ہوئے اس طرح بتاتی ہیں کہ جب میری اور علی کی پہلی ملاقات اس فلم کے سیٹ پر ہوئی تو، علی صاحب فلم میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ مکالموں کی ریہرسل بھی کرواتے تھے، تو ایک روز وہ کہنے لگے شاہین صحیح تلفظ کے ساتھ مکالموں کی ادائیگی نئے فن کار کی کام یابی کی ضمانت ہوتی ہے۔

(لے آئوٹ آرٹسٹ شاہدحسین)

فن و فنکار سے مزید
انٹرٹینمنٹ سے مزید