• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈائری اوراق اُلٹتے اُلٹتے ایک ورق پر نظر ٹھہرسی گئی۔ جوشوہر کی بابت تھا۔ جنہوں نے میری قدر نہیں کی! لکھا تھا ’’اے میرے خوابوں کی سب سے پہلی سرزمین، تمہیں میرے گزارے ہوئے پچیس برسوں کی اس ریاضت کا سلام جسے تمہاری خود ساختہ انا پرستی نے کبھی پنپنے نا دیا۔ میں تمہیں الفاظ میں شاید کبھی نا بتا پاؤں کہ میرے لئے تم ہمیشہ سے ایک ایسے محل کی مانند تھے، جس میں قید ہونے کے لئے میں اپنے آپ کو خود اپنی سلطنت سے نکالنے کے لئے راضی تھی۔

میں صرف بیس برس کی تھی جب میری شادی ہوئی اور آپ کے گھر میں آگئی۔بیس برس کی لڑکی خود سے دس برس عمر میں بڑے آدمی کے ساتھ اس کے فرائض کو بانٹنے، اس کے رشتوں کو جوڑنے، اس کے گھر کے سارے کاموں کو بخوبی سر انجام دینے کی نیت سے آئی۔لیکن کاش کبھی کسی نے اس بیس برس کی لڑکی کو ایک سے زائد بار غلطیوں پر ہنس کر نظر انداز کر کے بھی دیکھا ہوتا، کاش کہ اس بیس برس کی لڑکی کو اجازت ہوتی کہ وہ اپنی مرضی سے سو کر اٹھے،بغیر بتائے اپنی ماں سے کچھ دل کی باتیں چھپ کر کر سکے، وہ کبھی تو بغیر برتن دھوئے بھی کچن سے نکل سکے اور یہ اطمینان رکھے کہ اس کا کام کوئی بانٹ لے گا، کبھی تو اسے بھی یہ احساس ہو کہ اس گھر میں وہ اپنے جذبات کو کھل کر بیان کر بھی دے گی تو اسے منفی سوچ کے ترازو میں نہیں تولا جائے گا۔

ماں باپ کی طرح اس کی ناراضی، اس کی ضد ، اس کے غصہ کو ایک لمحہ کے لئے سہہ لیا جائے گا۔ مجھے یاد ہے آج بھی، جب بچے کی پیدائش سے پہلے مجھے بار بار یہ کہا جاتا تھا کہ پوری دنیا کی عورتیں حاملہ ہوتی ہیں، اس حالت میں کام بھی کرتی ہیں ۔لیکن ان نو ماہ میں کبھی اس حالت میں فرائض کو بخوبی انجام دینے والی عورت کے لئے کوئی تعریف اور احساس کے دو بول بھی نہیں بولے گئے۔ 

میں اس دن پہلی بار اپنے اندر گھٹ گئی۔جب میرا بچہ دانت نکال رہا تھا اور میں کچن میں دعوت کے لئے کھانا تیار کر رہی تھی، میری بہن کی عیدی اس کے سسرال جا رہی تھی لیکن میں اپنی نند کے آنے والے رشتوں کے لئے ناشتے کا انتظام کر رہی تھی، میری بچپن کی سہیلی شادی کے بعد مجھ سے ملنے آنا چاہتی تھی لیکن گھر میں تناؤکی وجہ سے اسے بلا نہ سکی۔ ڈپریشن سے گزری لیکن کسی کو پتہ نا چلا، میں کئی بار اپنی خواہشات کو دبا کر سسرال کی خوشیوں کو منانے لگی لیکن کسی کو پتہ نا چلا، میں ایک چھوٹے سے کمرے میں اپنے شوہر، دو بچوں اورساز و سامان کے ساتھ اپنے خوابوں کی کرچیاں سمیٹتی رہی لیکن کسی کو خبر تک نہ ہوئی۔

جب بھی میرے بچوں کی کسی بھی اخلاقی کمی کی بناء پر مجھے یہ سننے کو ملا کہ پتہ نہیں ماں نے کیسی تربیت کی ہے،کیوں کہ میری تربیت کی راہ میں رکاوٹ تو خود آپ لوگ تھے، ساری محبت اور لاڈ آپ کو میری اولاد پر اسی وقت آتا جب میں انہیں کسی بات پر ڈانٹ رہی یا سمجھا رہی ہوتی،کہا جاتا’’ایک چھوٹا سا جھوٹ ہی تو بولا ہے ، اب کیا اس کی جان لے لو گی ،ایک پینسل ہی تو لے کر آیا ہے دوست کی، کوئی چوری تھوڑی کی ہے،ایک ذرا سی ضد ہی تو کی ہے دکان پر، اب کیا کوئی بات بھی نہیں مانو گی۔ ایک ذرا سا جاگنا ہی تو چاہتا ہے رات میں، اب کیا پی ایچ ڈی کرواؤ گی بچے سے‘‘۔یہ ایک ایک ذرا ذرا کر کے مجھے میرے بچوں سے دور لے کر جانے لگے لیکن میں اپنے ہی بچوں کو اپنے انداز سے پالنے کی مجاز نہ تھی۔

ذمے داریوں کے بوجھ تلے میری زندگی کے پچیس برس کیسے بیتے ، مجھے پتہ ہی نا چلا،آج یونہی گزرتے ہوئے کچھ اوراق اپنی پرانی ڈائری کے پڑھے تو یاد آیا کہ میں تو ایک بہت اچھی مقررہ تھی، میں تو وہ لڑکی تھی جسے اسکول میں حساب میں گولڈ میڈل ملا تھا ، ابو کہتے تھے کہ میری بیٹی اچھے اچھوں کا حساب ٹھیک کردے۔

وہ جان ہی نہ پائے کہ میں تو کبھی اپنے ہاتھ میں اپنے لئے اپنی مرضی کا نوٹ بھی نہ دیکھ پائی جسے میں خود اپنے اوپر آزادی سے لٹا بھی سکوں۔ اس ڈائری میں ایک جگہ میں نے بہت فخر سے لکھا تھا۔مجھے ہرانا، ناممکن ہے، میری پیاری سسرال۔ تمہیں بس یہ بتانا ہے کہ تم نے میرے پچیس سال جیت لئے،کیوں کہ اب میری زندگی میں سسرال کی خدمت کا انعام ضرور ہے لیکن اپنی ذات کے ساتھ نا انصافیوں کا ایک بوجھ بھی ہے۔جو اب مرتے دم تک میرے ساتھ رہے گا‘‘۔

فقط… ایک خاموش خدمت گزار بہو۔