ا سلام آباد(فاروق اقدس/نامہ نگار خصوصی) پاکستان کی سیاست میں مختلف ادوار کی اپوزیشن کے رہنمائوں کی جانب سے حکومت کے اعلیٰ ترین آئینی اور سیاسی منصب پر فائز حکمران شخصیت پر ملک میں ہونے والے ایسےواقعات کے حوالےسے جن میں اس کی غلطیوں، لاپرواہی یا بے نیازی سے بڑی تعداد میں جانی یا قومی نقصان ہوا۔
الزامات اور تنقید کرتے ہوئے روم کے شہنشاہ ’’نیرو‘‘کے حوالے سے اس مشہور ضرب المثل کا حوالہ اکثر و بیشتر دیا جاتا ہے کہ ’’روم جل رہا تھا اور نیرو چین کی بانسری بجا رہا تھا‘‘پیر کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی ’’سانحہ مری‘‘پر ہونے والی بحث کے دوران اپوزیشن لیڈر میاں شہبازشریف نے بھی اپنی تقریر میں ایک سےزیادہ مرتبہ مختلف پیرائے میں اس ضرب المثل کا تذکرہ کیا جس پر اپوزیشن کے ارکان نے ڈیسک بجا کر انہیں پرجوش انداز میں داد بھی دی۔
لیکن اس ضرب المثل کا پس منظر کم لوگوں کے ہی علم میں ہے سلطنت روم کے اس آخری شہنشاہ ’’نیرو‘‘کی شخصیت کےبارے میں تاریخ میں متضاد روایات موجود ہیں تاہم اکثریت کے ساتھ مصدقہ قراردی جانے والی اس ضرب المثل کا تناظر نرگسیت(خود پسندی)کا شکار ، بے حسی کا حوالہ رکھنے والا یہ سفاک حکمران اپنی شقی القلبی میں بھی شہرت رکھتا تھا جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے اپنی دونوں بیویوں کو اذیت دے کر زندگی کے منظر سے ہٹا دیا۔
حادثاتی طور پر تخت نشیں ہونے والے شہنشاہ ’’نیرو‘‘نے اپنے سب سے بڑے محسن ’’کلاڈیس‘‘کے بیٹے کو بھی قتل کرا دیا تھا جبکہ بعض محققین کے مطابق اپنے ماں کے قتل کا بھی خود ’’نیرو‘‘ہی ذمہ دار تھا جس نے اسے تخت نشین کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا محققین کے مطابق 64ویں عیسوی کے ماہ جولائی میں جب روم آگ کی لپیٹ میں آیا اور 5 دن تک انتہائی خوفناک آگ روم کے بڑے حصے کے درودیوار کو خاکستر کر رہی تھی تو روایت کے مطابق اس وقت ’’نیرو‘‘ایک پہاڑی پر بیٹھا بانسری بجا کر اس نظارے سے لطف اندوز ہو رہا تھا اور وہیں سے یہ واقعہ اور منظر ضرب المثل بن گئے اور صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ کئی ممالک میں اپوزیشن اپنے حکمرانوں کے حوالے سے موقع کی مناسبت کے پیش نظر تنقید کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
’’نیرو‘‘کے حوالے سے تاریخ دانوں کی تحریروں میں یہ تذکرہ بھی شامل ہے کہ سونے کا محل بنانے کا اپنا پرانا خواب پورا کرنے کیلئے روم کے بیشتر حصوں میں آگ خود ’’نیرو‘‘نے ہی لگوائی تھی اور جب آگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے تو اپنے درباریوں کے ساتھ موسیقی کے مزے لے رہا تھا۔
تاہم بہت سے رومن تاریخ دان ’’نیرو‘‘ کو نہایت بلند مقام اور عزت دیتے ہیں کہ اس نے نہ صرف اپنے عوام کو ہر طرح کی آزادی دی بلکہ ان کی حفاظت بھی کی محققین کے مطابق 68ویں عیسوی میں فوج نے ’’نیرو‘‘کیخلاف جب بغاوت کر دی تو ’’نیرو‘‘ملک سے فرار ہوگیا اس وقت کے ایک آئینی ادارے نے ’’نیرو‘‘کو موت کی سزا سنائی لیکن مورخین کے مطابق پھانسی سے قبل اس نے خودکشی کر لی تھی اور مرتے وقت اس خودپسندی کے شکار اور اذیت پسند حکمران کے آخری الفاظ یہ تھے ’’دنیا نے مجھ جیسا کیسا نایاب ہیرا کھو دیا ہے‘‘۔