• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دُنیا میں ایک عرصے سے مطلق العنان حکمرانوں اور جمہوریت پسند رہنمائوں کے مابین شدید نظریاتی کشمکش جاری رہی ہے۔ آج بھی کم و بیش یہ سلسلہ جاری ہے۔ اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں بہت سے ایسے واقعات رُونما ہوئے، جن کی وجہ سے جمہوریت پسند حلقوں میں یہ تشویش گہری ہوتی جا رہی ہے کہ آئندہ برسوں میں جمہوریت، جمہوری روایات اور انسانی بنیادی حقوق کا تحفظ کیسے کیا جا سکے گا۔ جمہوریت اور انسانی حقوق کی غیرسرکاری تنظیم فریڈم ہائوس جو ہر سال اپنی جائزہ رپورٹ شائع کرتی ہے اس نے گزرے دس برسوں میں جو جائزہ رپورٹس شائع کی ہیں ان میں جمہوری اور انسانی حقوق کی پامالی کے عمل میں شریک میانمار کی فوجی جنتا کی جاری کارروائیوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے اس کے گیارہ پوائنٹس کم کر دیئے ہیں۔ 

اسی طرح بھارت کے حوالے سے حالیہ جائزہ رپورٹ میں بھارتی حکومت پر بھی خاصی تنقید کی گئی ہے اور بھارت کا ایک پوائنٹ کم کر دیا ہے۔ فریڈم ہائوس کی حالیہ رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ بھارت نے ہمیشہ اپنے کو دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کیا ہے مگر جب سے بھارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت آئی ہے بیش تر ایسے واقعات رُونما ہو چکے ہیں جو جمہوری روایات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں شمارہوتے ہیں۔ 

مثلاً کرنسی نوٹوں کی یکایک تبدیلی، جنتا پارٹی کے بعض اہم رہنمائوں کے اقلیتوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات ،خاص طور پر گزشتہ برس نئی دہلی میں کسانوں کا بڑا دھرنا ،ر طویل ہڑتال اور جلسے جلوس کی تحریک کے دوران بھارتی حکومت کا رویہ اور پالیسی کسی طور جمہوری اقدار اور بنیادی حقوق کے حوالے سے قطعی مناسب نہ تھی بلکہ حکومت اس کے برعکس عمل کرتی رہی۔ 

کسانوں کے احتجاج کے خلاف ریاستی طاقت کا استعمال کیا گیا، آٹھ صحافیوں کو جو اس احتجاج کی میڈیا کوریج کی ذمہ داری نبھا رہے تھے نہ صرف انہیں گرفتار کیا گیا بلکہ ان پر بغاوت، معاشرے میں تعصب پھیلانے اور عوام میں پھوٹ ڈالنے کے سنگین الزامات لگا کر ان پر مقدمے بنائے گئے۔ اس تمام عرصے میں بھارتی حکومت نے جس سردمہری اور غیرلچکدار رویوں کا مظاہرہ کیا وہ جمہوریت پسند حلقوں میں شدید تنقید کا نشانہ بنےرہے۔ اس طرح بھارت میں گزرے دس برسوں میں اقلیتی حلقوں کے رہنمائوں میں شدید بے چینی اور تشویش نظر آئی ہے۔

اسی طرح ہانگ کانگ میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے بڑے بڑے مظاہرے اور دھرنے سامنے آئے۔ خاص طور پر نوجوانوں کی اکثریت نے احتجاج دھرنوں اور مظاہروں سے دُنیا کے جمہوریت پسند حلقوں کو شدید تشویش میں مبتلا رکھا۔ ہانگ کانگ کے طلبہ نے ملک کے اعلیٰ افسران کی عیش و عشرت اور ان کے زمین دوز اَڈّوں کی تصاویر بھی عیاں کر دیں۔ حکومت نے ہانگ کانگ میں جمہوریت کی پامالی کے لئے جو اقدام کئے اس سے مزید تشویش میں اضافہ ہوا۔ وہاں کتنے افراد گرفتارہوئے، کتنے افراد ہلاک اور زخمی ہوئے اس کی دُرست خبریں تاحال پردے میں ہیں۔

مشرق وسطیٰ میں عرب اسپرنگ یا عرب بہار کی نوجوانوں کی بڑی تحریک نے مراکش تا مصر شام تا لبنان دُنیا کو حیران کر دیا جو بیش تر عرب ممالک کے مطلق العنان حکمرانوں کے خلاف اور پورے خطّے میں مثبت تبدیلیوں کی خواہاں تھی۔ اسی تحریک کے نتیجے میں مصر، لبنان، لیبیا اور الجزائر میں نمایاں سیاسی تبدیلیاں سامنے آئیں اور مشرق وسطیٰ کے بیش تر جمود زدہ معاشروں میں ارتعاش نمایاں نظر آیا۔

اس عرصے میں برازیل، وینزویلا اور ترکی میں بھی نمایاں ہلچل نظر آئی۔امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کے پرتشدد مظاہرے، توڑ پھوڑ اور ہنگامے نے امریکا کی جمہوریت پر بڑا داغ لگا دیا، وہ بھی ایسے موقع پر جب امریکہ کے نئے منتخب صدر جوبائیڈن حلف اُٹھا رہے تھے تب ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے انتخابات میں دھاندلی ہوئی اور ہم بائیڈن کو صدر نہیں مانتے کے نعروں کے ساتھ جو طوفان بدتمیزی برپا کیا اس نے امریکی جمہوریت پر بھی سوالیہ نشان ثبت کر دیا اور پھر سابق صدر ٹرمپ کی اشتعال انگیز تقریر نے بھی لوگوں میں اشتعال پھیلایا۔

جمہوریت کو خطرہ اور انسانی بنیادی حقوق کے خلاف تیس سے زائد ممالک کےا قدام کو دُنیا کی ہائی ٹیکنالوجی کمپنیوں اور حکومت کے مابین شدید رَسّہ کشی جاری ہے۔ دُنیا کے بیش تر حکمراں انٹرنیٹ کی عالمی لہر اور اظہارِ آزادی کو اپنے معاملات کے خلاف بڑا خطرہ تصوّر کرتے ہیں۔ اس ضمن میں میانمار، یوگنڈا، بیلاروس سمیت دیگر حکومتوں نے بھی انٹرنیٹ کے استعمال کے خلاف اقدام کئے ہیں۔ 

اس حوالے سے گلوبل ہائی ٹیک کمپنیاں چین کو سرفہرست تصوّر کرتے ہیں جہاں چین نے اپنی خود ساختہ ویب سائٹس تبار کر لی ہیں اور گلوبل انٹرنیٹ کمپنیوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ گلوبل ہائی ٹیک کمپنیوں کا کہنا ہے کہ اس وقت دُنیا کے چالیس سے زائد ممالک نے انٹرنیٹ پر اپنی چیک لگا دی ہے۔ اس سے ان ممالک کے عوام کے بنیادی حقوق اور آزادیٔ اظہار کے حقوق شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ ہائی ٹیک کمپنیوں کا مؤقف ہے کہ انٹرنیٹ کا استعمال دُنیا کے تمام لوگوں کا بنیادی حق ہے۔ حکومتیں اپنے آمرانہ اور غیرلچکدار رویّوں سے انسانی حقوق کو پامال کرنے کی مجاز نہیں ہیں۔ وہ ہوا، دُھوپ اور چاندنی پر پابندی عائد نہیں کر سکتے۔

حالیہ چند جائزہ رپورٹس میں آزادیٔ اظہار کے حوالے سے تمام جائزوں اور رپورٹس میں عرب صحافی خاشقجی کا ذکر نمایاں نظر آتا ہے، اس کے بیہمانہ قتل پر دُنیا کو بڑا صدمہ پہنچا ہے۔ اگر اسی طرح کے اقدام ہوتے رہے اور جمہوری اقدار انسانی بنیادی حقوق اور اظہارِ رائے کی آزادی کو کچلا جاتا رہا تو یہ خدشہ اور بڑھ جاتا ہے کہ دُنیا کس طرف جا رہی ہے۔ گلوبل انٹرنیٹ کے دور میں خبروں کو پوشیدہ رکھنا بہت مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔

برّصغیر پاک و ہند میں قدیم دور سے پنچائت اور چوپال کا طریقہ کار رائج رہا جو جمہوریت کی پہلی شکل قرار دی جا سکتی ہے۔ یورپ میں قرون وسطیٰ میں جاگیردار اور کلیسا حکومت چلاتے تھے اور عوام ان دونوں کے گٹھ جوڑ سے سخت پریشان تھے۔

لفظ جمہوریت دُنیا کی لگ بھگ تمام زبانوں کی لغات میں موجود ہے۔ البتہ اس کی تشریحات ہر جگہ قدرے مختلف دکھائی جاتی رہی ہیں۔ زیادہ تر اقوام نے اس کی تعریف اور تشریح یہ کی ہے کہ عوام کی حکومت، عوام کے ذریعہ اور عوام کے لئے۔ جمہوریت کی اصطلاح کو، شاہوں، آمروں، مطلق العنان حکمرانوں، فوجی ڈکٹیٹروں اور سیاسی رہنمائوں نے بار بار لاکھوں بار استعمال کیا ہے۔

دریافت شدہ تاریخ کے مطابق یہ لفظ ڈھائی ہزار سال زائد عرصہ قبل فلاسفہ یونان کے مکالمہ بحث و مباحث سے نکلا۔ عظیم فلاسفرافلاطون نے اس پر مکالمہ کی ابتدا کی تھی۔ انسانی تاریخ ایک زرّیں باب پر بھی اہم باب ہے کہ یونانی فلاسفرز اور دانشوروں نے مکالمہ کرنے، سوال کرنے اور علمی بحث و مباحث کی عظیم روایت کو جنم دیا جس نے دُنیا کی سیاسی، علمی اور معاشرتی دُنیا میں ایک نئی ہلچل مچا دی ،تاہم اس دور کے تقاضوں اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بھی کہا گیا کہ ملک اور قوم کی اشرافیہ کو رائے دینے اور حکومت سازی کے لئے قانون سازی کے لئے نمائندوں کو منتخب کرنے کا حق ہونا چاہئے۔ 

عوام کا ہجوم اس کام کو مناسب طور پر سرانجام نہیں دے سکتا۔ یونان کے فلاسفرکی یہ بھی رائے تھی کہ صرف فلسفی، دانشور طبقہ، نمائندوں کے انتخاب میں حصہ لے اور اگر کسی فلسفی کو حکمراں منتخب کرے تو زیادہ مناسب ہوگا۔اس طرح ایک طویل عرصے تک جمہوریت اور انتخابی عمل کے نام پر جمہور کو میدان سے اور ایوان سے باہر رکھا گیا۔

اصلی بڑی تبدیلی کا عمل اٹھارھویں صدی میں انقلاب فرانس سے شروع ہوا۔ اس سے کچھ عرصہ قبل شمالی امریکہ میں سیاسی ہلچل مچی ہوئی تھی، ایسے میں امریکا میں بھی اٹھارھویں صدی میں انقلاب برپا ہوا۔ ہیٹی کا انقلاب سیاہ فام باشندوں کا انقلاب تھا، کہا جاتا ہے کہ اس میں لاکھوں افراد ہلاک ہوئے جو 1791ء میں برپا ہوا تھا۔ اٹھارھویں صدی میں برطانیہ کا صنعتی انقلاب بھی بہت اہمیت کا حامل رہا۔ 

روس میں کمیونسٹ انقلاب 1917ء میں اور چین کا کمیونسٹ انقلاب 1911ء میں برپا ہوا۔ ان انقلابات نے دُنیا کی سیاست، معیشت اور سماجیات پر گہرے اَثرات مرتب کئے۔ قبل ازیں طویل المدت شہنشاہیت کے اَدوار تھے جن میں رومن ایمپائر، ایتھوپین افریقی ایمپائر، پرتگیزی ایمپائر اور عثمانین ایمپائر تاریخ میں نمایاں ہیں۔ سلطنت عثمانیہ بڑے علاقے میں تقریباً ساڑھے چار سو سال تک قائم رہی۔ اس طرح دُنیا میں قدرتی آفات نے بھی جمہوریت کی ہر جدوجہد کو آغاز سے قبل ہی پنپنے نہیں دیا۔ 

مثلاً سولہویں اور سترھویں صدی میں افریقی، ایشیائی اور لاطینی امریکی ممالک میں بڑے بڑے قحط پڑے خاص طور پر ہندوستان میں بنگال دو بار خطرناک ترین قحط سے گزرا۔ چین میں بھی بار بار قحط پڑے اور ہزارو ں افراد ہلاک ہوگئے۔ اس طرح 2005ء میں بحرِہند میں آنے والے بھیانک زلزلہ اور پھر سونامی میں ساڑھے چھ لاکھ افراد ہولاک ہوگئے۔ اس طرح دُنیا کبھی خوفناک جنگیں، بھیانک قدرتی آفات اور کبھی شدید سیاسی تصادم کی وجہ سے جمہوریت کمزور ہوئی اور مطلق العنان حکمراں و طالع آزما آگے آ گئے۔

درحقیقت جمہوریت اور رائے شماری کا تصوّر ایک لحاظ سے قدیم قبائلی نظام اور چوپال، پنچایت کے نظام میں بھی پوشیدہ تھا۔ بعض علاقوں میں یہ نظام آج بھی مستحکم ہے اور عوام اس کے فیصلے تسلیم کرتے ہیں۔ درحقیقت جمہوری نظام کی اہمیت اس موقع پر دوچند ہو جاتی ہے جب ایک مسئلے پر عوام یا ہجوم دو مختلف نقطۂ نظر میں بٹ جاتا ہے اہر گروپ اپنی رائےکے آمرانہ دور کے ساتھ دَم توڑ گیا۔ تاریخ اور سیاست کا ہر طالب علم ان تلخ حقائق سے آگاہ ہے کہ جنرل ایوب خان نے ملک کو اور ملکی سیاست کو پاکستان میں کس قدر ناتلافی نقصان پہنچایا۔ 

خودساختہ آئین بنایا، سیاسی رہنمائوں کو راستے سے ہٹایا، بنیادی جمہورت کے نام پر الیکشن کرا کر تاریخ کی دھاندلی کی، ہر بی ڈی ممبر کو خریدا گیا، ڈرایا دھمکایا گیا اور جعلی الیکشن کے زور پر پھر خودساختہ صدر بن گئے اس الیکشن میں مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح کو الیکشن ہرایا۔ ملک کو جمہوریت کے راستے سے ہٹا کر انتشار کے راستے پر ڈالا۔ مانیں یا نہ مانیں مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کا عندیہ ایوب خان نے دیا تھا۔ سقوط ڈھاکہ کی مکمل اور دُرست تاریخ لکھنا تاریخ دانوں کا قومی فریضہ ہے۔ معذرت کے ساتھ ایوب خان تا پرویز مشرف چار آمرانہ اَدوار میں ملک کا جو حشر کیا گیا وہ آج ہمارے سامنے ہے۔ ان اَدوار میں سیاست، معاشرت، مذہب اور معیشت کو شدید ترین نقصانات برداشت کرنے پڑے۔

ماضی قریب میں جرمنی کے اڈولف ہٹلر، روس کے جوزف اسٹالن، اٹلی کے میسولینی، چین کے مائوزے تونگ، شمالی کوریا کے کم ال سنگ، یوگنڈا کے دادا عیدی امین، میانمار کے جنرل نیوئن، یونان کے پاپا موپولس، اسپین کے جنرل فرانکو، کمبوڈیا کے پول پاٹ سوڈان کے عمر البشیر، شمالی کوریا کے حالیہ صدر کم جونگ ان، زائر کے موبتو۔ ماضی بعید کے آمر جولیس سیزر بھی ظلم و ستم بربریت اور عوام دُشمنی میں بہت آگے رہے۔ مذکورہ آمروں کے علاوہ اور بھی بہت آمروں نے حکومت کی اور انسانیت کو نقصان پہنچائے۔

جمہوریت کے استحکام اور جمہوریت کی روایات کو فروغ دینے کے لئےتحریر اور تقریر کی آزادی ضروری ہے۔ فریڈم آف پریس کا نظریہ 1790ء میں سوئیڈن میں پروان چڑھا۔ دُوسری عالمی جنگ کے بعد اقوام متحدہ کے عالمی حقوق انسانی چارٹر کی ترتیب نے فرد کے سوچنے، لکھنے، بولنے کی آزادی کو فروغ دیا۔ اقوام متحدہ کے عالمگیر اعلان، انسانی حقوق کا عالمی اعلان اور آفاقی اعلان جیسے اقدام ریگستان میں ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں کے مترادف ہیں۔ جمہوری روایات اور مذکورہ عالمی چارٹرز بڑی حد تک انسانی آزادی کے حقوق کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

جین جیکسن روسو نے اٹھارھویں صدی میں آزادیٔ اظہار، مساوات، روشن خیالی، معاہدہ عمرانی، اَدب میں رُومانیت کے تصوّر کی بنیاد رکھی اور اس کا پرچار کیا آج انسانیت اس کی احسان مند ہے۔ بعدازاں برطانیہ، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں شہری آزادی، آزاد عدلیہ اور منظم سیاسی جماعتوں سمیت قانون کی حکمرانی اور اظہار کی آزادی بتدریج عام ہوئیں۔

1961ء میں برطانیہ میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کا ادارہ قائم ہوا جو دُنیا میں فرد کی بنیادی آزادی اور امن کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنے کی عملی طور پر جدوجہد کر رہا ہے۔ ہزاروں ڈاکٹر، صحافی، اساتذہ اور قانونی ماہرین ایمنسٹی انٹرنیشنل کی دُنیا بھر میں معاونت کرتے ہیں۔ عورتوں کے حقوق، بچوں کے حقوق اور اقلیتوں کے حقوق کے لئے اس ادارے نے دُنیا میں نمایاں خدمات سرانجام دی ہیں۔ حال ہی میں قازقستان کی حکومت نے اَسّی کروڑ ڈالر کی ویکسین کی خریداری کے لئے ملنے والی امدادی رقم خوردبرد کر دی اس کیس کو ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انسانی حقوق پر ڈاکہ ڈالنا کہا اور حکومت کی مذمت کی۔

دُنیا میں آزادیٔ اظہار کے حوالے سے ضمیر کے قیدی کا بھی بہت ذکر آتا ہے۔ برطانیہ قانون دان پیٹر بنین نے برطانوی اخبار ڈیلی آبزرور میں چند پرتگالی طلبہ کو سات سال کی سزا دینے کے مسئلے پر ضمیر کے قیدی کے عنوان سے ان طلبہ کی حمایت میں مضمون لکھا اجو اس اصطلاح کی وجہ سے بہت پڑھا گیا اور اسی اصطلاح کو پسند کیا گیا تب سے یہ اصطلاح مشہور عام ہوئی۔ ضمیر کا قیدی وہ ہے جو سوچتا ہے اپنے اور دُوسروں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے آواز اُٹھاتا اور انصاف مانگتا ہے اور حکومت اس کو پابندِ سلاسل کر دیتی ہے۔ بعض حالات میں حکومتوں نے اس طرح کے لوگوں کو عمر قید کی بھی سزائیں سُنائی ہیں۔ 

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی معروف ذیلی شاخوں میں انسداد غلامی سوسائٹی، انسانی حقوق کی تنظیم، انٹرنیشنل انسانی حقوق فیڈریشن وغیرہ بھی فعال ہیں اور عالمی سطح پر کام کر رہی ہیں۔ ضمیر کے قیدی کی اصطلاح اور ایمنسٹی انٹرنیشنل ساٹھ کے عشرے میں نمایاں ہوئیں۔ اس عالمی ادارہ کو امن کا نوبل انعام اور اقوام متحدہ کا عالمی انعام بھی دیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ ترقّی پذیر ممالک کی حکومتوں نے بنیادی حقوق کی پروا کئے بغیر بہت سے افراد کو جیلوں میں ڈالا ہوا ہے۔ 

ان ضمیر کے قیدیوں میں مرد اور خواتین دونوں شامل ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ میں بھی نوّے سے زائد ممالک میں جاری سیاسی صورت حال کے جائزے میں انکشاف کیا ہے کہ سب سے زیادہ عالمی میڈیا میں سابق جنوبی ترکمانستان موجودہ چین کے صوبے سنکیانگ میں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں سے متعلق ہیں یہاں ڈھائی کروڑ سے زائد ایغور مسلمان آباد ہیں۔ یہ اپنے عقیدے پر آج بھی راسخ قائم و دائم ہیں اور چین کی کمیونسٹ پارٹی اپنے ہر اقدام سے ان مسلمانوں کو اسلام سے دُور کرنے کی کوششیں کرتی رہتی ہے۔ 

خلافت عثمانیہ کے منتشر ہونے کے بعد ترکمانستان کی وسیع ریاست کو جہاں پر مسلمانوں کی اکثریت ہے ،روس اور چین نے تقسیم کر لیا۔ ترکمانستان شمالی اور جنوبی ہوگئے۔ ان کی اَلمناک داستان ہے۔ یہاں او آئی سی کا اصل چہرہ سامنے آتا ہے۔ امریکی صدر بائیڈن نے حالیہ جمہوریت کی دو روزہ کانفرنس میں ان دونوں ممالک چین اور روس کو ترکمانستان یا سنکیانگ میں ہونے والی انسانی حقوق اور بنیادی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کی وجہ سے دعوت نامے نہیں دیئے۔

جدید جمہوریت کا سب سے بڑا حامی جس کو جدید جمہوریت کا فادر بھی کہا جاتا ہے عظیم برطانوی فلاسفر جان روک، اس نے جمہوریت کی جو تعریف اٹھارھویں صدی میں بیان کر دی تھی اس کے مطابق سوچنے، لکھنے، بولنے، اپنے عقیدے پر عمل کرنے، مذہبی آزادیوں کو پورا کرنے اور اعتدال پسندی اپنانے، دُوسروں کے نظریہ اور عقیدے کا پورا احترام کرنے کی اور رائے دہی کی آزادیوں کی بھرپور وکالت کی اور حکومتوں کو مشورہ دیا کہ وہ ان تمام حقوق کی پاسداری بھی کریں اور احترام بھی۔ یورپی فلاسفہ میں جان روک اور روسو بہت نمایاں نظر آتے ہیں۔ روسو اور روک کی فلاسفی میں بڑی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے، البتہ بعض حالات میں زیادہ انقلابی دکھائی دیتا ہے۔ دونوں جدید جمہوریت کے بڑے چیمپئن ہیں۔

جان روک کو یہ سہولت حاصل رہی کہ برطانیہ میں سولہویں صدی میں پارلیمان کو کچھ حقوق مل چکے تھے۔ برطانوی پارلیمان اکثریت رائے سے قانون سازی منظور کرتی تھی پھر اس بل کو حتمی منظوری کے لئے ملکۂ برطانیہ کو یہ حق حاصل تھا کہ بل کی منظوری دے یا مسترد کر دے۔ مگر زیادہ تر ملکہ پارلیمان کے بلز کی منظوری دے دیتی تھیں۔ برطانوی سیاست کا تکون ملکۂ برطانیہ، برطانوی پارلیمان اور عوامی رائے تھے۔

اس حوالے سے برطانیہ کو جدید جمہوریت کی مدرلینڈ بھی کہا جاتا ہے۔ مگر امریکہ کو پہلی جدید جمہوریہ کا اعزاز حاصل ہے۔ اٹھارھویں صدی سے امریکہ میں جدید جمہوری نظام کامیابی سے رائج ہے۔ اس کے علاوہ ناروے، ہالینڈ، بیلجیم، ڈنمارک، کینیڈا، لکسمبرگ، میکسیکو، آسٹریلیا اور سوئیڈن کو بھی مکمل جمہوری ممالک میں شمار کیا جاتا ہے جہاں اٹھارھویں صدی سے جمہوریت رائج اور جاری ہے۔ ان ممالک میں انسانی حقوق، پریس کی آزادی اور آزاد عدلیہ کا تصوّر مستحکم ہے۔ عوام کو تمام آئینی حقوق حاصل ہیں۔

امریکی صدر بائیڈن کی بلائی جمہوریت کانفرنس میں امریکی واچ ڈوگ گروپ نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ دس میں سے نو ممالک میں بنیادی حقوق، آئینی حقوق، اظہار رائے کی آزادی پر مکمل عمل نہیں ہوتا ہے۔ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی پابندی عائد ہے یا جمہوری روایات کو پامال کیا جاتا ہے۔

حال ہی میں امریکہ میں ہونے والی جمہوریت کانفرنس میں امریکی صدر جوبائیڈن نے بتایا کہ نیویارک میں نوجوانوں نے جمہوریت کا جنازہ نکالا اور جمہوری نظام اور اس کے اداروں پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ دُنیا کے دیگر ممالک میں بھی جمہوری اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ صدر بائیڈن نے کہا کہ جمہوری اداروں کو مزید مستحکم کرنے کے لئے امریکہ نے 42 ملین ڈالر مختص کئے ہیں۔ امریکہ جمہوری اداروں کو مزید فعال اور مستحکم کرنا چاہتا ہے اور جمہوری روایات کی تکمیل چاہتا ہے۔ اس لیے اس عالمی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا ہے۔

امریکہ اور صدر بائیڈن جمہوریت، انسانی حقوق اور اظہارِ رائے کی آزادی کی مشعل اپنے ہاتھ میں اُٹھا کر دُنیا میں اپنی جمہوریت پسندی کا احیاء چاہتا ہے۔ ویسے ہی سرمایہ دارانہ نظام کی جمہوریت ضرورت رہی ہے، اب چونکہ دُنیا میں چین کا بڑھتا ہوا تجارتی اور سیاسی اَثر و رُسوخ امریکہ سمیت تمام ترقّی یافتہ ممالک کے لئے باعث تشویش ہے ایسے میں عالمی جمہوری کانفرنس کا انعقاد ان کی ضرورت تھی۔

بلاشبہ آج کی دُنیا میں آج کے سیاسی، معاشی اور سماجی معرکوں سے نمٹنے کے لئے سب سے بہتر نظام حکومت طرز سیاست صرف جمہوریت ہے۔ یہ سچ ہے کہ جمہوریت میں کچھ سقّم ہیں دو ایک کمزور پہلو بھی ہیں۔ دراصل سرمایہ دارانہ نظام اور صنعتی دور کو جمہوری نظام زیادہ راس آتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ امیر طبقہ سیاسی جماعتوں، سیاسی رہنمائوں اور سیاسی عمل پر اپنے سرمائے کی طاقت سے اثرانداز ہوتے ہیں۔ صنعتی دور کے اوّلین مرحلوں میں جاگیردار طبقہ سیاست پر چھایا ہوا تھا۔ شاہ اور کلیسا بھی جاگیرداروں کے حامی تھے ایسے میں سیاسی جماعتوں، سیاسی گروہوں کو صنعتکاروں نے اپنے ساتھ ملا کر جاگیرداروں سے مقابلہ شروع کیا تب سے جمہوری عمل آگے بڑھا، صنعتی ترقّی نے قدامت پسند شاہ پسندوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔

جمہوریت اور جمہوری روایات کو آگے بڑھانے میں بنیادی کردار سیاسی جماعتوں کا ہوتا ہے۔ ہرسیاسی جماعت کا اوّلین فرض ہے کہ ملک اور عوام کے مفاد میں اپنا منشور ترتیب دے، اسی کو آگے بڑھائے، جماعت کو وسیع اور مستحکم کرنے کے لئے رُکنیت سازی کرے، جماعت میں انتخابی عمل سے پارٹی عہدوں کی تقسیم کرے، کیونکہ سیاسی جماعت اَزخود جمہوری روایات کی پاسداری نہیں کرے گی تو وہ عوام کے ووٹوں کی ان کی رائے کی کیا پاسداری کرے گی۔ 

معذرت کے ساتھ پاکستان میں کسی جماعت میں عہدوں کی تقسیم انتخابی عمل سے نہیں ہوئی، رُکنیت سازی اور منشور کی اشاعت کم کم دکھائی دیتی ہے، دُوسرے لفظوں میں ملک کی سیاسی جماعتیں اس تعریف پر پوری نہیں اُترتی ہیں۔ ایک جھنڈا ہے جو پارٹی کی بڑی ملکیت، اس کے تلے ایک ہجوم ہے جو سیاسی پارٹی کہلاتا ہے۔ عوام میں بھی اسی لئے یہ احساس زیادہ توانا نہیں کہ ان کا کام صرف ووٹ دے کر ختم نہیں ہوتا۔ اس لئے پارٹی رہنما بھی اس احساس سے بالاتر رہتے ہیں کہ کسی کو جواب دینا ہے۔ 

ایک اور حقیقت کی طرف توجہ چاہئے کہ آل انڈیا مسلم لیگ جو 1906ء میں بنگال میں قائم ہوئی اس میں ابتدا ہی سے نوابین، جاگیردار اور امیروں کا تسلط رہا۔ اس میں جمہوری عمل ناپید تھا یہی وجہ تھی کہ قیام پاکستان کے بعد جتنی سیاسی جماعتیں وجود میں آئیں یہ تمام مسلم لیگ سے ٹوٹ کر نئی جماعتیں بن گئی۔ البتہ نیشنل عوامی پراٹی کا مسلم لیگ سے تعلق نہ تھا۔ ہر طالع آزما نے مسلم لیگ کا نام بھی استعمال کیا جیسے کونسل مسلم لیگ، کنونشن مسلم لیگ اور قیوم مسلم لیگ وغیرہ۔

قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ کے اعلیٰ عہدیداروں نے بھی سیاسی غلطیاں کیں کیونکہ جمہوری آداب سے یہ سب بے پروا تھے اور ہر رہنما اپنے کو اپنی ذات میں ایک انجمن، ایک ادارہ اور سب سے زیادہ محبّ وطن تصوّر کرتا تھا۔ اِسی وجہ سے ابتدائی دور ہی سے ملک میں غدّاروں کے خطابات کی تقسیم دل کھول کر ہوئی۔ ہر رہنما خود کو محب وطن کہتا اور دُوسرے کو غدّار قرار دیتا تھا۔ اگر لیگ میں جمہوری عمل ہوتا تو ملک میں بھی اس کے اثرات نمایاں ہوتے۔ کسی رہنما کو غدّار یا بدعنوان قرار دینے کا کام عوام کا ہے وہ اپنی رائے سے رہنما کی وطن پرستی یا وطن دُشمنی کا فیصلہ کرتے ہیں۔

اس حقیقت کو اب تسلیم کر لینا چاہئے کہ ملک کی قوت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ عوام کی رائے مقدّم ہے، عوام کو ملک کے تمام اہم فیصلوں میں رائے دینے کا پورا پورا حق ہے کوئی رہنما اپنی ذات میں کامل نہیں ہے اس کو عوامی رائے کا احترام کرنا ضروری ہوتا ہے۔ آج کا دور جبکہ دُنیا میں اہم تبدیلیاں رُونما ہو رہی ہیں۔ دُنیا دو مختلف سمتوں میں تقسیم ہو رہی ہے، دھڑے بندیوں کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ آج زندگی کے ہر شعبے میں کچھ نہ کچھ نئی تبدیلیاں رُونما ہو رہی ہیں، مگر دُنیا کی تقریباً نصف آبادی اپنے کہنہ مسائل اور مصائب سے چھٹکارا نہیں پا سکی ہے۔ 

کہا جاتا ہے کہ جدید جمہوریت زیادہ تر اجارہ دار سرمایہ داروں کو راس آتی ہے۔ عوام محض ووٹ ڈالنے کے حق کو اصل جمہوریت تصوّر کرکے صبر کر لیتے ہیں۔ عوام کیلئے مسائل اور مصائب جیسے غربت، پسماندگی، جہالت، توہم پرستی، مہنگائی وغیرہ جیسے ان کا مقدّر بن چکے ہیں۔ مغربی ممالک میں صنعتی ترقّی میں جمہوریت کو جگہ دی ہے اور اس طور کچھ بنیادی حقوق اور اظہارِ رائے کی بھی کچھ آزادیاں دی ہیں۔ مگر دُنیا کی نصف سے زائد آبادی ان عطاکردہ حقوق سے بھی محروم ہیں۔ کھوکھلے نعروں پر گزارا ہوتا ہے۔

دُنیا اب جن مسائل کا شکار ہوتی جا رہی ہے ایسے میں حکمرانوں کو محض جمہوریت کے عنوان پر کانفرنسیں کرنے سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ عوام کو اقتدار اور قومی فیصلوں میں شریک کرنا پڑے گا۔ ماحولیات، موسمی تغیّرات، وبائی امراض، مقامی تنازعات، مذہبی، نسلی، طبقاتی تعصبات دُنیا کو نہ صرف نقصان پہنچا رہے ہیں بلکہ پوری انسانیت کے لئے بڑے گھمبیر خطرات بنتے جارہے ہیں۔ امریکا جمہوریت کی حالیہ کانفرنس میں بڑی دقیق تقریریں ضرور ہوئیں، عملی مباحث بھی ہوئے مگر ٹھوس قابل عمل سودمند فیصلے سامنے نہیں آئے۔ کانفرنس کا اعلامیہ البتہ خوشنما الفاظ کا گلدستہ ضرور لگتا ہے۔