• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئندہ بجٹ میں مجموعی مالی ضروریات 30 ارب ڈالرز ہونیکا امکان

اسلام آباد (مہتاب حیدر) بجٹ 2022-23 میں پاکستان کی مجموعی مالی ضروریات 30 ارب ڈالرز ہونے کا امکان ہے۔ 

ڈاکٹر خاقان نجیب کا کہنا ہے کہ پاکستان کی نمو کا مسئلہ ادائیگیوں میں توازن کے بحران کی وجہ سے جاری رہے گا۔ جب کہ ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ برس کے لیے اقتصادی نمو کو بھول کر بیرونی شعبے کے مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے۔ 

تفصیلات کے مطابق، آئندہ بجٹ 2022-23 میں پاکستان کی مجموئی مالی ضروریات بڑھ کر 30 ارب ڈالرز ہوسکتی ہیں، جس کے بعد پاکستان کے پاس اور کوئی دوسرا راستہ نہیں بچے گا کہ وہ آئی ایم ایف سے قرضوں کا دوسرا پروگرام حاصل کرے ، جب کہ موجودہ آئی ایم ایف پروگرام ستمبر 2022 میں ختم ہوجائے گا۔ 

ذرائع نے دی نیوز کو تصدیق کی ہے کہ اگر سب کچھ درست رہا اور اسلام آباد 6 ارب ڈالرز کی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) بحال کروانے میں کامیاب ہوا تو مزید دو جائزے ساتواں اور آٹھواں جائزہ ستمبر، 2022 تک مکمل کرنا ہوگا تاکہ 39 ماہ کے ای ایف ایف پروگرام کا اہل ہوسکے۔ 

وفاقی کابینہ سے حال ہی میں قومی سیکورٹی پالیسی کی منظوری جس میں آئی ایم ایف اور کثیرجہتی قرض دہندگان سے قرضے لینے سے اجتناب کی تجویز دی گئی ہے لیکن حقیقت میں اسلام آباد کے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ بریٹن وڈ انسٹیٹیوشنز (بی ڈبلیو آئیز) سے قرضے لے۔ 

اگر ریاستی ادارے آئی ایم ایف کو مستقل بنیاد پر خیرباد کہنے میں سنجیدہ ہیں تو اس کا متبادل منصوبہ کہاں ہے جس سے آئندہ 18 ماہ میں 45 سے 50 ارب ڈالرز کا بندوبست کیا جاسکے؟

اسلام آباد اسی صورت آئی ایم ایف سے قرض لینے سے اجتناب کرسکتا ہے جب کسی معجزے سے قرضوں کے بغیر ڈالر بہائو میں اضافہ ہوجائے جس کے لیے پاکستان کی برآمدات، ترسیلات اور غیرملکی براہ راست سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) میں اضافہ کرنا ہوگا۔ 

عالمی بینک کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ درآمدات پر پابندیاں مستقل حل نہیں ہے کیوں کہ اسلام آباد کو درآمدات پر زیادہ انحصار کرنا ہوگا تاکہ برآمدات میں اضافے کے لیے خام مال حاصل کیا جاسکے۔ آئی ایم ایف کے تخمینے کے مطابق، پاکستان کی مجموعی مالی ضروریات آئندہ مالی سال 2022-23 تک 28 ارب ڈالرز تک ہوگی لیکن موجودہ کرنٹ اکائونٹ خسارے کے بلند تخمینوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ توقع کی جارہی ہے کہ مجموعی غیرملکی مالی ضروریات آئندہ مالی سال میں بڑھ کر 30 ارب ڈالرز ہوجائے گی۔ 

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کس طرح 45-50 ارب ڈالرز کا بندوبست آئندہ 18 ماہ میں کرے گا۔ آئندہ بجٹ 2022-23 میں غیرملکی قرضوں کی ادائیگی کا تخمینہ 13 سے 13.5 ارب ڈالرز لگایا گیا ہے، جب کہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ 12 سے 14 ارب ڈالرز سے کم ہوتا نظر نہیں آرہا۔ 

مالی سال 2021-22 میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ 15 سے 16 ارب ڈالرز رہنے کا امکان ہے، جب کہ غیرملکی قرضوں کی ادائیگی جس میں اصل رقم اور سود شامل ہے وہ 12.4 ارب ڈالرز تک ہوسکتا ہے۔ 

رواں مالی سال کے ابتدائی 5 ماہ میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ 7.1 ارب ڈالرز رہے گا جس میں دسمبر، 2021 میں 1.5 سے 2 ارب ڈالرز تک کا اضافہ ہونے کا امکان ہے، لہٰذا یہ جولائی تا دسمبر 9 ارب ڈالرز کے قریب ہوسکتا ہے۔ 

یہ اسی سطح کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ ہے جو کہ ن لیگ کے دور حکومت میں 2017-18 کی ابتدائی ششماہی میں رہا تھا، جب یہ 18 ارب ڈالرز کی سطح پر پہنچ گیا تھا۔ 

ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز میں یہ اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کچھ برس کے لیے اقتصادی نمو کو بھول جائیں اور بیرونی شعبے کے مسائل حل کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم باقاعدہ طور پر ادائیگیوں کے توازن کو برقرار رکھنے میں ناکام رہے تو اس سے بحران سنگین ہوسکتا ہے کیوں کہ پھر غیرملکی کرنسی ذخائر کم ہونا شروع ہوجائیں گے۔

 ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ اگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 84 ڈالرز فی بیرل پر برقرار رہیں تو پٹرولیم درآمدی بل سالانہ بنیاد پر 16 ارب ڈالرز تک پہنچ سکتا ہے۔

اس نمائندے نے سابق ڈی جی اقتصادی اصلاحات یونٹ (ای آر یو) وزارت خزانہ کے ڈاکٹر خاقان نجیب سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی نمو کا مسئلہ ادائیگیوں میں توازن کے بحران کے حوالے سے جاری رہے گا۔ جس کی بڑی وجہ درآمدی طلب کے خرچے ہے جو کہ بڑا تجارتی خسارہ پیدا کرنے کے ساتھ قابو نہ آنے والا کرنٹ اکائونٹ خسارہ پیدا کررہی ہیں۔ 

درآمدی توانائی پر بڑھتا انحصار اور اشیاء کی قیمتوں میں عالمی اضافے سے بیرونی طرز پر مشکلات بڑھی ہیں۔ 

ان کا کہنا تھا کہ آئندہ دو برس میں پاکستانی معیشت کے مستحکم ہونے میں غیرملکی ادائیگی کا توازن فیصلہ کن ہوگا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ادائیگیوں کے توازن کا غیرملکی مبادلہ ذخائر اور ملک کی شرح مبادلہ پر سنگین اثرات ہوسکتے ہیں۔ 

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ادائیگیوں کے توازن میں محتاط رہنا ہوگا ۔ جس کے لیے پاکستانی حکام کو منصوبہ بندی کرنا ہوگی کہ وہ کس طرح غیرملکی مالی ضروریات کو پورا کرے کیوں کہ آئی ایم ایف پروگرام ستمبر 2022 میں ختم ہورہا ہے۔

خاقان نجیب کا کہنا تھا کہ یہ حقیقی منصوبہ بندی ہوگی جو کہ سرمایہ کاروں اور مارکیٹوں کو اعتماد دے گی کہ پالیسی ساز متوسط مدت کی مستحکم معیشت کا ادراک رکھتے ہیں۔ 

ان کا کہنا تھا کہ ملک کو لازمی طور پر میکرو منصوبہ بندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ڈاکٹر خاقان نجیب کا کہنا تھا کہ ادائیگی میں توازن کے مسائل کرنٹ اکائونٹ کو قابو رکھنے کی ضرورت کا عندیہ دے رہے ہیں۔ مالی سال 2022 کے لیے کرنٹ اکائونٹ جی ڈی پی کا 5 فیصد مستحکم سطح پر نہیں ہے اور ابھی اسے جی ڈی پی کا 3 فیصد کے اندر رکھنے پر سوچنا چاہیئے اور اس سطح پر رکھنے کے لیے فنڈنگ کا بندوبست کیا جانا چاہیئے۔ 

اس کے لیے تجارتی فرق کا تجزیہ انتہائی ضروری ہے۔ تجارتی خسارے میں اصل مسئلہ برآمدی رسیدوں کی کمی ہے۔ یہ تشویش ناک اس لیے بھی ہے کہ درآمدی بل بہت زیادہ ہیں۔ 

ان کا ماننا تھا کہ پاکستان کے لیے یہ بات تشویش ناک ہے کہ جی ڈی پی کے شیئر کے طور پر برآمدات 1990 کی دہائی سے 16 فیصد سے کم ہوکر 10 فیصد کے قریب رہ گئی ہے۔

گزشتہ دو دہائیوں کے تجزیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ برآمدات جی ڈی پی کے تناسب سے کم رہی ہے اور شرح نمو بھی بہت معمولی رہی۔ برآمدات میں بہتری کی اشد ضرورت ہے۔ کاروبار کو برآمدی مارکیٹ میں داخل ہونے کے لیے توقع کے مطابق مراعات نہیں دی گئیں۔ کم پیداوار اور تھوڑی بہت تبدیلی مسلسل حل نہ ہونے والے مسائل ہیں۔ 

برآمدی کمزوری کی ساختی درستی کی ضرورت ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی برآمدات کو مقابلے کے لیے ٹیرف میں بہتری کی منصوبہ بندی درکار ہے اور پیداوار بڑھانے کے لیے فنانسنگ کی فراہمی ضروری ہے۔ 

اصل محنت کاروبار کی پیداوار کو اپ گریڈ کرنے کے ساتھ جدید صلاحیت کے حصول میں ہے۔ یہ تبدیلیاں دنیا کے ساتھ کرنا ہوگی اور طویل مدتی بیرونی اکائونٹ استحکام حاصل کرنا ہوگا۔

اہم خبریں سے مزید