• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر آسی خرم جہا نگیری

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اے ایمان والو! اللہ سے ایسے ڈرتے رہا کرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہاری موت صرف اسی حال پر آئے کہ تم مسلمان ہو اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں مت پڑو، اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے، اور تم دوزخ کی آگ کے گڑھے کے کنارے پرپہنچ چکے تھے پھر اس نے تمہیں اس گڑھے سے بچا لیا، یوں ہی اللہ تمہارے لئے اپنی نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔(سورۂ آل عمران۱۰۲ تا ۱۰۴)

ان آیات میں اللہ رب العزت نے خصوصیت کے ساتھ اپنے بندوں کو تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے علاوہ سب کو اجتماعی طور پر دین پر مضبوطی سے عمل پیرا ہونے کی تلقین کی گئی ہے اور فرقہ واریت کا شکار ہونے سے منع فرمایا ہے۔ اب آیا یہ تقویٰ ہے کیا کہ جس کے اختیار کرنے کا اس آیت میں حکم دیا جارہا ہے۔

تقویٰ ’’وقٰی‘‘ اور ’’وِقایۃ ‘‘ سے بنا ہے جسکا معنی ہے بچنا ،حفاظت کرنا ،پردہ کرنا اور خوف کرنا وغیرہ۔’’وقٰی ‘‘ اور’’وِقایۃ‘‘ کا معنی ہے کسی چیز کو ایذاء اور ضرر سے محفوظ رکھنا۔ سورۂ دُخان میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اللہ تعالیٰ نے انہیں عذاب دوزخ سے محفوظ رکھا۔‘‘چنانچہ’’تقویٰ ‘‘کا لغوی معنی ہے نفس کو اس چیز سے محفوظ رکھنا جس سے اسے ضرر کا خوف ہو۔

اصطلاحِ شریعت میں انسان کا ان کاموں سے بچنا جو اس کے لئے آخرت میں غضب خداوندی کا باعث ہوں، تقویٰ کہلاتا ہے۔ اپنے آپ کو اپنے رب کی ناراضی سے بچانا تقویٰ ہے۔ تقویٰ یعنی اللہ کا خوف تمام بھلائیوں کا مجموعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے وجود سے لے کر قیامت تک آنے والے تمام انس وجن کے لئے تقویٰ کی وصیت فرمائی ہے۔ 

تقویٰ ہی کل قیامت کے دن نجات دلانے والی کشتی ہے۔ تقویٰ مؤمنین کے لئے بہترین لباس اور بہترین زادِ راہ ہے۔ یہ وہ عظیم نعمت ہے، جس سے دل کی بندشیں کھل جاتی ہیں، جو راستے کو روشن کرتی اور اسی کی بدولت گمراہ بھی ہدایت پاجاتا ہے۔ تقویٰ ایک ایسا قیمتی موتی ہے کہ اس کے ذریعے برائیوں سے بچنا اور نیکیوں کو اختیار کرنا آسان ہوجاتا ہے۔

’’ تقویٰ‘‘ کے متعلق حضرت عبد اللہ بن عباسؓ ارشاد فرماتے ہیں کہ تقویٰ یہ ہے کہ انسان شرک ،کبیرہ گناہ اور بے حیائی کے کاموں سے بچے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ اور حضرت امام حسنؓ فرماتے ہیں :’’ تقویٰ یہ ہے کہ تم ہر کسی کو اپنے سے بہتر سمجھو اور اپنے آپ کو ہر کسی سے حقیر اور کم ترجانو۔‘‘حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ کے صاحبزادے فرماتے ہیں : ’’ تقویٰ صرف دن کو روزہ رکھ لینے اور رات کو عبادت کے لئے قیام کرنے کا نام نہیں، بلکہ تقویٰ یہ ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے، اس سے بچے اور جو فرض کیا ہے اسے ادا کرے۔

حضرت کعب الاحبار ؓسے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے پوچھا ! مجھے بتائیے تقویٰ کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ کیا آپ کبھی خار دار دشوار راستے سے گزرے ہیں؟ آپ نے فرمایا !ہاں تو حضرت کعب الاحبار ؓ نے پوچھا، بتاؤ خاردار جھاڑیوں والے راستے سے گزرتے ہوئے تمہارا طریقہ کار کیا ہوتا ہے ؟آپ نے فرمایا ،ڈرتا ہوں۔ 

دامن بچا کر چلتا ہوں یعنی نہایت احتیاط سے دامن سمیٹ سمیٹ کر قدم بچا بچا کر گزر تا ہوں، اس خدشے کے پیش نظر کہیں دامن چاک نہ ہو جائے ، کہیں پاؤں زخمی نہ ہو جائے ،جسم چھلنی نہ ہو جائے۔ حضرت کعب الاحبارؓ نے فرمایا، بس یہی تقویٰ ہے کہ گویا یہ دنیا ایک خاردار جنگل ہے، دنیاوی لذات اور خواہشات نفسانی اس کی خاردار جھاڑیاں ہیں جو ان خواہشات و لذات کے پیچھے چلا گیا ،اس نے اپنا دامن تار تار کر لیا اور جو بچ گیا ،وہ صاحب تقویٰ ہوا۔

تقویٰ کا اصل مرکز دل ہے، البتہ اس کا اظہار مختلف اعمال کے ذریعے ہوتا ہے۔ جیساکہ نبی اکرم ﷺنے دل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: تقویٰ یہاں ہے۔ (صحیح مسلم)غرض تقویٰ اصل میں اللہ تعالیٰ سے خوف ورجاء کے ساتھ حضور اکرمﷺ کے طریقے کے مطابق ممنوعات سے بچنے اور اوامر پر عمل کرنے کا نام ہے۔ حضرت علی ؓ کا ارشاد گرامی ہے :معصیت پر اصرار نہ کرنا اور اپنی عبادت پر ناز و اعتماد نہ کرنا تقویٰ ہے۔‘‘حضرت ابو دردا ءؓ نے فرمایا :’’تقویٰ ہر قسم کی بھلائی کا جامع ہے یہ وہ چیز ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اولین و آخرین کو حکم دیا ہے۔‘‘

تقویٰ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی ہو جاتا ہے کہ قرآنِ مجید میں دو سو چھتیس سے زائد آیات ایسی ہیں جن میں مختلف انداز میں تقویٰ ہی کا بیان ہے، اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی ہو جاتا ہے کہ دنیا میں جتنے بھی انبیائے کرامؑ تشریف لائے، سب ہی نے اپنی اپنی امتوں کو تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام کی متعدد آیات میں مختلف انداز سے تقویٰ یعنی اللہ سے ڈرنے کا حکم اور اس کی اہمیت وتاکید کو ذکر کیا ہے۔

ہمارے اسلاف کی زندگیاں تقویٰ وطہارت سے مزین تھیں، احکام شرع میں اپنی ذات کے بارے میں معمولی معمولی چیزوں میں بہت زیادہ احتیاط برتتے تھے۔ حضرت امام بخاریؒ فرماتے تھے کہ ”جس وقت سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ غیبت حرام ہے، میں نے کسی کی غیبت نہیں کی، قیامت کے دن غیبت کے بارے میں کسی کا ہاتھ میرے دامن میں نہیں ہوگا۔ احمد بن فقیہؒ کہتے ہیں کہ میں نے امام ابوالحسن اشعریؒ کی بیس سال خدمت کی، میں نے ان سے زیادہ محتاط، باحیا، دنیوی معاملات میں شرمیلا اور امور آخرت میں مستعد نہیں دیکھا۔(تاریخ دعوت و عزیمت)

امام ترمذیؒ تقویٰ، زہد اور خوف خدا اس درجہ رکھتے تھے کہ اس سے زیادہ کا تصور نہیں کیا جاسکتا، خوف الٰہی سے بکثرت روتے روتے آنکھوں کی بینائی جاتی رہی تھی۔ امام نسائیؒ کے حالات میں ہے کہ زہد و تقویٰ میں یکتائے روزگار تھے صوم داودی پر ہمیشہ عمل پیرا رہتے تھے۔

علامہ سید شریف جرجانیؒ اپنی مشہور و معروف کتاب ’’التعریفات ‘‘میں لکھتے ہیں کہ آدابِ شریعت کی حفاظت کرنا اور ہر وہ کام جو تمہیں اللہ تعالیٰ سے دور کر دے، اس سے خود کو باز رکھنا تقویٰ ہے۔‘‘دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہم سب کو تقویٰ اختیار کرنے اور تمام گناہوں اور برائیوں سے حتی المقدور بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)