چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا ہے لاپتہ افراد کی بازیابی سب سے اہم ہے، اسلام آباد کا کام چھوڑنا پڑا تو چھوڑ دیں گے۔ کراچی سے لاشیں ملنا خطرناک صورتحال ہے۔ ایف سی کے پاس لوگوں کو منظر عام پر لایا جائے، تین سال سے کچھ نہیں ہوا، موثر کوشش ہوتی تو چار افراد ہی بازیاب ہوتے، وفاق جواب ہی نہیں دیتا، خفیہ اداروں، ایف سی پولیس کو دو ہفتوں کی مہلت۔ لاپتہ گورننس میں ایسا ہی ہوتا ہے، ڈھونڈورا پیٹا جائے کہ اگر کسی کو کہیں رٹ آف گورنمنٹ مل جائے تو فوری اطلاع دے کہ اس کے ملنے ہی سے لاپتہ افراد کا پتہ ملے گا۔ شاید لاپتہ افراد نے بزبان غالب فرمائش کر دی ہو کہ
اپنی گلی میں مجھ کو دفن نہ کر بعدِ قتل
میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے
اب لاپتہ افراد کو کیا مچھلیوں کے پیٹ میں ڈھونڈیں، بہرحال اب بھی تینوں اداروں کو دو ہفتے کی مہلت دی گئی ہے تو جو انسانی سٹاک ان کے پاس ہے اسے پیش کریں، ورنہ کوئی پیش نہیں چلے گی، یہ نہ سمجھائے کہ جسٹس افتخار محمد چودھری کے چلے جانے کا انتظار کیا جائے پھر کس نے پوچھنا ہے لاپتہ فراد کا پتہ، لیکن افتخار محمد چودھری ایک نہیں کئی ہیں، اعلیٰ عدلیہ کی آزادی کے بعد انصاف آزاد ہوا ہے اور آزاد انصاف اپنے نفاذ اور فیصلوں کے بندے ڈھونڈ لیتا ہے، اسلام آباد کا نام تو اب یوں لگتا ہے کہ ”برعکس نہند نام زنگی کافور“ (الٹا حبشی کا نام کافور رکھ دیا،) اسلام آباد گویا حکمران آباد بن کر رہ گیا اور حکمران سپریم کورٹ کو کیا جانیں، لیکن یہ بھول ہے اور اس بھول میں کوئی پھول نہیں سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کی بازیابی کو اسلام آباد کے کاموں پر ترجیح دینے کی تنبیہ کر دی ہے، اس لئے اب نتیجہ برآمد ہو کر رہے گا۔ وفاق اگر جواب نہیں دیتا تو اس کے پاس جواب ہی نہیں، گویا وہ بھی لاپتہ ہے، یا اُس کے پتے ہوا دینے لگے ہیں، بعض قلم تو حقائق کو قلم کرتے ہیں اور اپنے ممدوحوں کی خاطر لفظوں کے بازی گر حق دامن برداری ادا کر رہے ہیں ان کو وہ سب کچھ دے دیا گیا ہے جو عام آدمی سے چھینا گیا جو نجی اداروں کے ملازمین 6 فیصد ناجائز انکم ٹیکس دے رہے تھے اسحاق ڈار نے وہ نا جانے محصول بھی 7 فیصد کر دیا بھلا اس لئے ن لیگ کو بڑی پریت سے لایا گیا تھا کوئی اس زیادتی کو بھی عدالت عظمیٰ کے روبرو لائے۔
عالمی بینک کا مطالبہ، پاکستان بھارت کو انتہائی پسندیدہ ملک قرار دے، بجلی درآمد تجارتی تعلقات معمول پر لائے جائیں، نواز شریف حکومت کے لئے پالیسی نوٹ جاری۔
یاروں نے بڑا زور مارا کہ بھارت کے ساتھ تجارت، بجلی کی درآمد اور امن آشا مہم کو بہت آگے بڑھایا جائے البتہ یہ جو انتہائی پسندیدہ ملک قرار دینے کا مطالبہ ہے تو یہ دونوں ملکوں میں موجود تنازعوں کے ہوتے ہوئے کیونکر تسلیم کیا جا سکتا ہے، اب پاکستان بھارت کے لئے وہ تو نہیں بن سکتا جو برطانیہ امریکہ کے لئے بنا ہوا ہے، چھاپ تلک سب چھین کر لے جانے والے کو پسندیدہ تو چلو مان لینے پر غور کیا جا سکتا ہے مگر یہ انتہائی پسندیدہ قرار دینا تو دلہن کا خود ہی خطبہٴ نکاح پڑھنے کے مترادف ہے، ویسے اگر دیکھا جائے تو ایک لحاظ سے پاکستان کا فائدہ جو کہ بھارت کے فائدے میں پوشیدہ ورلڈ بینک نے اسے ضرور پیش نظر رکھ کر میاں نواز شریف کے لئے ایک ایسا نوٹ مرتب کیا ہے کہ کیش کرانے جائیں تو کہیں باؤنس نہ ہو جائے
وہ اور ہیں کہ جن کو دیا من و سلویٰ
ہمیں تو لوٹ لیا مالیاتی عالمی اداروں نے
بہر صورت بھارت کو بہت زیادہ پسند کر کے بھی دیکھ لیتے ہیں شاید عالمی بینک سچ ہی کہتا ہو۔
یا پھر یہ ہے کہ وہ ایک طرف سے کرنٹ بھی لگائے گا اور مہنگی ترین بجلی بھی فراہم کرے گا اور تجارتی رکاوٹیں دور کرنے سے بھارت کے پاکستان کے بازاروں میں منافع منتظر ہے اور ہمارے لئے بھارت کی مارکیٹوں میں خسارہ، یہ خسارے کا کاروبار تو ہم پہلے بھی عالمی بینک کے کہے بغیر کر کے دیکھ چکے ہیں۔ بہرحال مسئلہ کشمیر، آبی ڈنڈی ماری، اور اب کنٹرول لائن پر خوامخواہ کا نیا رومانس اور پھر بھی انتہائی پسندیدہ ملک قرار دینے کا مطالبہ بات میں کچھ کالا ضرور ہے، مگر ہمارے وزیر خارجہ سوچ رہے ہوں گے کہ ایک خسارہ اور سہی کہ ان پر عالمی بینک تو مہربان ہو گا اور ہماری کایا پلٹ جائے یا الٹ جائے گی۔
ہماری حکومت شاید سزائے موت کو ختم کرنے کی طرف رواں دواں ہے اور کئی یورپی یونین نے تو وزیراعظم پاکستان کے 468 قیدیوں کی سزائے موت پر عملدرآمد روک دینے کے احکامات کا خیر مقدم بھی کر دیا ہے،
ہم اپنی طرف سے تو نہیں لیکن اللہ کے اس قول کو نوٹ کرتے ہیں کہ ”تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے،“ اگر کوئی شخص دوسرے شخص کی جان لے لیتا ہے، اور ہم اُسے سزائے موت نہیں دیتے تو ممکن ہے وہ تو آئندہ کے لئے کسی کی جان لینے سے توبہ کرے لیکن جیل سے باہر کے قاتل شیر ہو جائیں گے کہ پھڑکا دو سزائے موت تو ہونی نہیں قید کاٹیں گے مریں گے تو نہیں اور اس طرح قتل کرنے کا سلسلہ بڑھے گا گھٹے گا نہیں، اگر آج ہمارے حالات اچھے نہیں تو ہم اپنے برے حالات کو اچھا بنانے کے لئے اور مال دینے والے اداروں کو خوش کرنے کے لئے اُن لوگوں کی جانیں ہی غیر محفوظ کر دیں جن کے لئے ہم یہ قرضے پر قرضے اس شرط پر پا رہے ہیں کہ ہم نے عالمی مالیاتی اداروں کو خوش کر دیا جو اُن کے گماشتے ہیں جن کی نظر میں ہمارے خون کی کوئی وقعت نہیں، اگر ان کو ہمارے ہاں سزائے موت کی اتنی فکر ہوتی تو آج پوری مسلم امہ کا خون پانی کی طر ح نہ بہاتے، ہمارے ملک میں کیا نہیں صرف ناقص منصوبہ بندی اور قومی مفاد کو سیاست کی بھینٹ چڑھانے کے باعث خود کو خود ہی سزائے موت دے رہے ہیں، اور غیرت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے کا سانحہ تو بہت پہلے سے گزر چکا ہے، اگر جزاء و سزا دنیا سے اٹھ جائے تو یہ دنیا باقی نہ رہے اور اگر یہ قیامت سے اٹھ جائے تو قیامت، قیامت نہ رہے، بہرحال مرضی ہے سرکار کی، اگر سزائے موت نہ رہی تو بے گناہوں کے قتل اور اجتماعی زیادتیوں کی ایسی سرخ آندھی چلے گی کہ ہماری داستاں تک بھی نہیں رہے گی، جہاں جہاں بھی سزائے موت نہیں وہاں کیا موت نہیں رہی، بلکہ بڑھ گئی ہے، ہم روشن خیال ہی نہیں روشن دماغ بننے کا مظاہرہ بھی کریں اور یوں کسی کو خوش کرنے کے لئے زندگی کو اتنا ناراض نہ کریں کہ وہ ہم سے روٹھ جائے۔
ہمارے ہاں کلاسیکی موسیقی کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے، یہ اسی کا نتیجہ کہ ایک برائلر موسیقی جنم لے رہی ہے، جس میں سر تال، ریاض اور موسیقی کے بنیادی مقصد کی جھلک دکھائی ہی نہیں دیتی، اچھی اچھی آوازیں گٹار اور پرانی جینز کی نذر ہو رہی ہیں، ان نئے بے سرے کن ٹٹے گانے والوں میں کئی بڑی کام کی آوازیں ضائع ہو رہی ہیں، بلکہ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ پرانے استاد گھرانوں کے نئے سپوت بھی اس نئی موسیقی کش لہر کو تھوڑا سا سرگم کا تڑکا لگا کر پیش کرنے لگے ہیں، راتوں رات امیر بننے اور شہرت پانے کے چکر میں موسیقی بھٹک گئی ہے، چربہ تو اتنا عام کہ اتنی تو قصابوں کے پاس چربی نہیں ملتی، اور پھر اس پر بھی طرح یہ کہ گانے کے بولوں میں کتنے ہی جانور اپنی اپنی بولیاں بول کر اتنا مال بنا لیتے ہیں کہ ہسپتال کھول لیتے ہیں اور مفت علاج کے بڑے بڑے اشتہارات چھپوا کر اتنے ڈونیشنز جمع کر لیتے کہ گانا نہ بھی گائیں تو ان کی زندگی میں نقرئی گھنٹیاں بج اٹھتی ہیں کبھی وزارت صحت نے ان خیراتی ہسپتالوں کا آڈٹ کرایا ہے یا کوئی تحقیقات کی ہے کہ مفت علاج کتنے میں بیچا جاتا ہے، ضروری نہیں کہ سب یہی کچھ کرتے ہوں مگر زمانہ بہرطور خراب ہے تفتیش کرنے میں کیا حرج ہے، جو لوگ بڑے بڑے سماجی خدمت کے اور مذہب کی خدمت کے ادارے کھولتے ہیں ان کے کھولنے والوں کے تو گویا نصیب کھل گئے ہیں وہ کسی بڑے حکمران، جاگیردار سیاستدان سے کم عیش و نشاط کی زندگی نہیں گزراتے ان کی گاڑیاں ہی دیکھیں تو غریب لوگ سڑکیں خالی کر دیتے ہیں، بات ہو رہی تھی موسیقی کی اور وہ بھی کلاسیکی سنگیت کی، جو پرانے اساتذہ تھے اور رنگ دنگ کے سب رنگ ڈھنگ جانتے تھے وہ تو گزر گئے اب ان خاندانوں کے نام رہ گئے ہیں شام چوراسی گھرانہ اب بھی ہے مگر کوئی روشن آراء بیگم نہیں، پٹیالہ گھرانہ بھی ہے مگر امانت علی خان نہیں، ثقافتی حلقے اور وزارت اس جانب توجہ دے کہ جتنے بھی ہٹ سدا بہار گیت آج بھی فضاء میں گونج رہے ہیں ان کی اٹھان کسی راگ موسیقی کا فلسفہ ہے اس کے بغیر کوئی لفظ گیت نہیں بن سکتا۔