• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیان حلفی کیس، رانا شمیم پر فرد جرم عائد، صحافیوں کا معاملہ موخر


اسلام آباد (عاصم جاوید) پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سیکرٹری جنرل ناصر زیدی نے رانا شمیم بیان حلفی سے متعلق توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا کہ صحافتی تنظیموں نے متفقہ طور پر عدالتوں میں زیر التواءمقدمات کے حوالے سے گائیڈ لائنز مرتب کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ آئندہ محتاط رپورٹنگ کو ممکن بنایا جا سکے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بظاہر اخبار کے مالک ، ایڈیٹر اور رپورٹر کی جانب سے خبر کی اشاعت کے سلسلے میں کسی بدنیتی کا ثبوت نہیں ملا بلکہ یہ محض لاپرواہی کے زمرے میں آتا ہے اس لئے فی الحال میر شکیل الرحمن ، عامر غوری اور انصار عباسی پر فرد جرم کا معاملہ موخر کرتے ہیں ، اگر آئندہ عدالتی کارروائی کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ انہوں نے جان بوجھ کر ایسا کیا تھا تو ان کے خلاف بھی کارروائی ہو گی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سپریم ایپلٹ کورٹ گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا محمد شمیم پر توہین عدالت کیس میں فرد جرم عائد کر دی جبکہ رانا شمیم نے صحت جرم سے انکار کر دیا ہے۔

رانا محمد شمیم نے چیف جسٹس اطہر من اللہ سے کہا کہ ان کے وکیل بھی موجود نہیں ، انہیں سنگل آو¿ٹ کیوں کیا جا رہا ہے؟ اگر آپ نے یہی سوچ لیا ہے تو پھر مجھے لٹکا دیں ، مجھے آج ہی سزا سنا دیں۔

عدالت نے رانا شمیم سے بیان حلفی طلب کرتے ہوئے مزید کارروائی 15 فروری تک ملتوی کر دی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے رانا محمد شمیم کی جانب سے مقدمے میں اٹارنی جنرل کو بطور پراسیکیوٹر ہٹانے اور فرد جرم سے قبل حقائق کی انکوائری سے متعلق دونوں متفرق درخواستیں مسترد کر دیں۔

جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے رانا محمد شمیم کے بیان حلفی سے متعلق توہین عدالت کیس کی سماعت کی تو سابق چیف جج گلگت بلتستان ایپلٹ ٹربیونل رانا محمد شمیم ، جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمن ، ایڈیٹر انوسٹی گیشن دی نیوز انصار عباسی ، اٹارنی جنرل خالد جاوید خان ، ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود ، ڈپٹی اٹارنی جنرل سید محمد طیب ، اسسٹنٹ اٹارنی جنرل عمران فاروق ، عدالتی معاونین فیصل صدیقی ، ریما عمر ، پی ایف یو جے کی جانب سے ناصر زیدی ، افضل بٹ ، فریقین کی جانب سے وکلاءعامر عبداللہ عباسی ، محمد آفتاب عالم ، محمد عثمان وڑائچ ، حامد خان ، مریم راشد ، کلثوم خالق ، وقار احمد رانا ، احمد حسن رانا ، شیریں عمران پیش ہوئیں۔

جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے سماعت شروع کی تو رانا محمد شمیم کے وکیل عبداللطیف آفریدی موجود نہیں تھے۔ عدالتی استفسار پر رانا شمیم نے بتایا کہ وہ راستے میں ہیں ، ایک گھنٹے تک عدالت پہنچ جائیں گے۔

اس پر عدالت نے کیس میں ایک گھنٹے کا وقفہ کر دیا۔ دن 11 بجے دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو رانا شمیم نے بتایا کہ ان کے وکیل لطیف آفریدی عدالت نہیں پہنچے۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اس عدالت کی بہت بے توقیری ہو گئی ہے ، اس عدالت کے کسی حکم سے کسی کو کوئی مسئلہ ہے تو بتائیں ، یہ آئینی عدالت ہے ، بہت مذاق ہو گیا۔

اس موقع پر رانا شمیم نے بولنے کی کوشش کی تو چیف جسٹس نے انہیں خاموش کراتے ہوئے کہا کہ یہ کون سا بیانیہ ہے کہ جج کمپرومائز ڈہیں؟ اسلام آباد ہائی کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے صدر ثاقب بشیر روسٹرم پر آئے اور استدعا کی کہ اٹارنی جنرل اور عدالتی معاونین کی رائے کے مطابق صحافیوں کی حد تک فرد جرم کی کارروائی موخر کی جائے۔ آپ نے جو محتاط روئیے کی بات کی تھی اس کو بھی مستقبل میں دیکھا جائے گا۔

اس موقع پر سینئر صحافی افضل بٹ نے کہا کہ اس بات پر فوکس کرنا چاہئے کہ زیر سماعت کیس کے حوالے سے کیا کرنا چاہئے ، اگر موقع دیں تو ہمیشہ کیلئے زیر سماعت مقدمات کے حوالے سے طے کر لیں گے تاکہ آئندہ کسی زیر التواءکیس کے معاملے میں ایسا نہ ہو۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ رانا شمیم کے بیان حلفی میں جو کچھ لکھا گیا وہ عوام تک ایک اخبار نے پہنچایا ، ہم نے سمجھایا مگر انہوں نے کہا کہ ٹھیک کیا ،زیر التواءمعاملے پر ہم کسی کو یہ لائسنس نہیں دے سکتے کہ کوئی تیسرا فریق آ جائے تو اسے استعمال کریں ، ایک بیانیہ بنا دیا گیا جس کا فوکس اسلام آباد ہائی کورٹ کو بنایا گیا ۔ میں نے یا عدالت نے کچھ نہیں چھپایا ، کھلے عام اپنا احتساب کر رہے ہیں ، بتا دیں جولائی 2018 سے آج تک کون سا آرڈر آیا جس پر یہ بیانیہ فٹ بیٹھتا ہو؟ ایک اخبار کے ایک آرٹیکل کا تعلق ثاقب نثار سے نہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ساتھ ہے.

لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ اس کورٹ کے ججز کمپرومائزڈ ہیں ، عدالت نےہمیشہ لوگوں کا اعتماد بحال کرنے کی کوشش کی ، خبر کی اشاعت کے دو روز بعد زیر التواءاپیل کی سماعت ہونا تھی ، کیا میں خاموش بیٹھ کر لوگوں کا اعتماد ختم ہونے دیتا۔

صحافی افضل بٹ نے کہا کہ پوری صحافتی برادری اور عوام اسلام آباد ہائی کورٹ پر بھرپور اعتماد کرتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ہماری ڈیوٹی ہے اور ہمیں اسی لئے بٹھایا گیا ہے ، ہم نے لوگوں کے اعتماد کی حفاظت کرنی ہے ، ہمارا قصور ہے ہم نے زیر التواءرولز کی پرواہ نہیں کی۔

اس موقع پر پی ایف یو جے کے سیکرٹری جنرل ناصر زیدی نے کہا کہ میڈیا کو پہلے ہی چیلنجز کا سامنا ہے ، اس عدالتی کارروائی سے ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے ، کورٹ رپورٹنگ میں زیر التواءمعاملات پر آزادی نہیں لینی چاہئے ، ہم نے مارشل لاءمیں بھی عدالتوں کا سامنا کیا اور آج آزاد عدلیہ کے سامنے کھڑے ہیں ، ماضی میں کوڑے بھی کھائے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مسکراتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا کوڑا سخت لگتا ہے؟ اس پر کمرہ عدالت قہقہوں سے گونج اٹھا۔ ناصر زیدی نے کہا کہ آپ یہ سمجھیں کہ ہم سب ”کچھ“ سیکھ رہے ہیں ، اگر صحافیوں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی گئی تو اظہار رائے کی آزادی جس کا آپ بھی تحفظ کرتے ہیں زد میں آ جائے گی ، پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی کے حالات پہلے ہی اچھے نہیں ، اس اقدام سے دنیا بھر میں غلط تاثر جائے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آزاد پریس اور میڈیا ہی آزاد عدلیہ کے محافظ ہیں، جب عدلیہ کی آزادی پر حرف آیا تو میڈیا نے تحفظ کیا لیکن سائلین کے بھی حقوق ہوتے ہیں ، یہاں ایک عدالت اور جج کو فوکس کر کے بیانیہ بنا دیا گیا ، پوچھتے ہیں کون سا آرڈر ہے تو بتاتے نہیں ، اس سے لوگوں کا اعتماد مجروح ہو رہا ہے ، کل کو کوئی بھی تھرڈ پارٹی ایک کاغذ دے گی اور اس کو آپ چھاپ دیں گے تو کیا ہو گا؟ اتنا بڑا اخبار کہے کہ انہوں نے اس حوالے سے کوئی قانونی رائے نہیں لی تو پھر یہ زیادتی ہو گی۔ اس پر ناصر زیدی نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے دیگر سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے عدالتوں میں زیر التواءمعاملات کے حوالے سے متفقہ طور پر کوڈ آف کنڈکٹ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میرا تعلق کسی اور سے نہیں اس عدالت سے ہے ، یہ تاثر دیا گیا کہ یہی ایک عدالت ہے جو اثر انداز ہو سکتی تھی۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ اس معاملے میں میڈیا کا کردار ثانوی ہے ، آج پہلی بار میڈیا کی طرف سے دبے لفظوں اظہار ندامت آیا ہے ، ہم ایک نئے تجربے سے گزر رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے بھی اس پہلو کو اجاگر کیا جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ رانا شمیم نے بیان حلفی کو تسلیم کیا ہے اور انہیں دفاع کا پورا حق حاصل ہے ، جہاں تک میڈیا کا معاملہ ہے درخواست ہے کہ صحافیوں کے خلاف فرد جرم کی کارروائی اگر ختم نہیں تو کم از کم موخر کر دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ انصار عباسی انتہائی سینئر اور قابل احترام صحافی ہیں۔ ناصر زیدی صاحب نے بھی بتایا ہے کہ کوڈ آف کنڈکٹ بنا رہے ہیں ، یہ اچھی بات ہے۔ چیف جسٹس نے دوبارہ مسکراتے ہوئے ناصر زیدی کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ نے بتایا نہیں کوڑا لگتا کیسے ہے؟ ایک بار پھر کمرہ عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرے والد اور والدہ نے بھی جیل کاٹی تھی۔

عدالتی معاون فیصل صدیقی نے کہا کہ صحافیوں کی حد تک توہین عدالت نہیں بنتی بلکہ اسے لاپرواہی کہہ سکتے ہیں ، ضروری نہیں کوئی معافی ہی مانگے ، اظہار ندامت بھی قابل قبول ہے ، صحافی رہنماؤں نے آئندہ محتاط رہنے کی بات کی ہے۔

اس پر تجویز ہے کہ توہین عدالت آرڈیننس 2003 کی دفعہ 18(2) کے تحت کوئی آرڈر سنایا جائے۔ جہاں تک رانا شمیم کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کا معاملہ ہے یہ نہیں ہو سکتا کہ تین کے خلاف کچھ نہ ہو اور ایک پر فرد جرم لگا دی جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا چارج فریم نہ کر کے آئندہ کیلئے لائسنس دیدیں۔ فیصل صدیقی ”فردوس عاشق اعوان کیس“ کا حوالہ دیتے ہوئے کچھ کہنے لگے تو چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت فکر مند بھی زیادہ ناصر زیدی صاحب کیلئے ہے۔ فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ صحافتی تنظیموں نے جو کہا و ہ کافی ہے ، فرد جرم موخر کر دیں یا سب پر لگائیں۔

میڈیا میں طرح طرح کی باتیں ہو رہی ہیں کہ فلاں فلاں کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے ، اگر فرد جرم لگاتے ہیں تو قدغن لگانا پڑے گی کہ کس طرح رپورٹنگ کرنی ہے ، میڈیا کو ریگولیٹ کرنا بھی ضروری ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کے بارے میں تو کسی نے کچھ نہیں کہا؟ جس پر فیصل صدیقی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ جی میرے بارے میں بھی کہا گیا اور ریما عمر کے بارے میں بھی کہا گیا۔ اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ریما عمر نے ہماری اچھی معاونت کی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں پبلک آفس ہولڈر ہوں اور مجھ پر تنقید ہو سکتی ہے، میڈیا نے عدالتی کارروائی رپورٹ نہیں کی بلکہ زیر التواءکا معاملہ ہے، صحافیوں سے پوچھ لیں ناصر زیدی صاحب نے جو کہا کیا وہ اسے تسلیم کرتے ہیں ، اس کے بعد صرف رانا شمیم پر ہی فرد جرم عائد کی جائے۔

اس موقع پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے رانا شمیم سے استفسار کیا کہ آپ نے دو متفرق درخواستیں دائر کی ہیں ، وہ کیا ہیں۔ رانا شمیم نے دونوں درخواستیں پڑھ کر سناتے ہوئے عدالت سے استدعا کی کہ اٹارنی جنرل متعصب ہیں اس لئے ان کی جگہ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو پراسیکیوٹر مقرر کیا جائے اور بیان حلفی میں درج حقائق کی انکوائری کے بعد ہی فرد جرم عائد کی جائے۔

اس پر چیف جسٹس نے رانا شمیم کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ جج رہ چکے ہیں ، کیا ایسا ہی ہوتا ہے؟ رانا شمیم نے کہا کہ میں نے کبھی توہین عدالت کیس کی سماعت نہیں کی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ چارج فریم ہونا فیصلہ نہیں ہے ، فرد جرم کے بعد ہی دفاع کا موقع دیا جاتا ہے ، ہم کس چیز کی انکوائری کریں؟ آپ کا فوکس یہ عدالت ہے۔ رانا شمیم نے کہا کہ میرا کوئی ایسا ارادہ نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل اچھی شہرت کے حامل اور غیر جانبدار ہیں۔

رانا شمیم نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے میرے خلاف ریمارکس دئیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انہوں نے کوئی ریمارکس نہیں دئیے بلکہ آپ سے صرف پوچھا تھا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے کہا تھا کہ بیان حلفی نوٹری پبلک سے لیک ہوا ، کیا آپ نے نوٹری پبلک کے خلاف کوئی کارروائی کی ہے؟ رانا شمیم نے کہا کہ میں نوٹری پبلک کے خلاف کارروائی کروں گا۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے رانا شمیم پر فرد جرم عائد کرنا شروع کی تو رانا شمیم نے کہا کہ میں اکیلا ہوں ، وکیل بھی نہیں ہے لہٰذا فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی موخر کی جائے۔

چیف جسٹس نے ان کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے کہا کہ فرد جرم آپ پر لگنی ہے اور آپ موجود ہیں۔ چیف جسٹس نے فرد جرم سناتے ہوئے کہا کہ آپ رانا محمد شمیم نے 10 نومبر 2021 کو لندن میں بیان حلفی دیا کہ ”جولائی 2018 میں جب آپ گلگت بلتستان اپیلٹ کورٹ کے چیف جج تھے تو اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے چھٹیوں میں فیملی کے 27 افراد کے ساتھ گلگت کا دورہ کیا اور کورٹ کے گیسٹ ہاؤس میں قیام کیا ، شام کو آپ ، آپ کی مرحومہ اہلیہ ، چیف جسٹس ثاقب نثار اور ان کی اہلیہ لان میں چائے پی رہے تھے تو آپ نے چیف جسٹس کو مضطرب پایا اور وہ مسلسل فون پر اپنے رجسٹرار سے گفتگو کر رہے تھے اور ہدایت دے رہے تھے کہ وہ جسٹس میاں عامر فاروق کے گھر جائیں اور انہیں درخواست کریں کہ وہ فوراً مجھے کال کریں اور اگر کال نہ ملے تو انہیں میری طرف سے یہ بتا دیں کہ محمد نواز شریف اور مریم نواز شریف کو کسی بھی صورت میں انتخابات سے پہلے ضمانت پر رہا نہیں کرنا۔ تھوڑی ہی دیر بعد جسٹس عامر فاروق سے ان کی براہ راست بات ہو گئی اور ثاقب نثار نے انہیں کہا کہ میاں نواز شریف اور مریم نواز کو الیکشن مکمل ہونے تک جیل میں رہنا چاہئے۔

دوسری جانب سے یقین دہانی پر وہ (جسٹس ثاقب نثار) مطمئن ہو گئے اور خوشی سے چائے کا ایک اور کپ طلب کیا۔ میں (رانا شمیم) نے بطور میزبان جسٹس ثاقب نثار سے درخواست کی کہ وہ اپنی چھٹیاں فیملی کے ساتھ گلگت بلتستان میں ہی گزاریں اور ان سے پوچھا کہ آپ نے یہ پیغام جسٹس عامر فاروق کو کیوں پہنچایا۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ’رانا صاحب رانا نہیں سمجھیں گے ، آپ یوں سمجھیں کہ آپ نے کچھ نہیں سنا‘۔ میں (رانا شمیم) نے اپنی مرحومہ اہلیہ اور مسز ثاقب نثار کی موجودگی میں کہا کہ میاں نواز شریف کو بے بنیاد طور پر ملوث کیا گیا ہے اور نواز شریف اور مریم نواز کو سزا دلوائی گئی جو کہ فون کالز سے واضح ہو گیا تھا۔

یہ سن کر پہلے تو وہ (ثاقب نثار) تھوڑا پریشان ہوئے اور پھر کہا کہ رانا صاحب پنجاب کی کیمسٹری گلگت بلتستان سے مختلف ہے۔ اور یہ کہ جو کچھ بیان حلفی میں رضاکارانہ طور پر کہا وہ مکمل طور پر درست ہے۔“ چیف جسٹس نے فرد جرم عائد کرتے ہوئے کہا کہ 10 نومبر 2021 کا مذکورہ دستاویز آپ ہی نے نوٹرائز کرایا جو لیک ہونے کے بعد سرکولیٹ اور شائع بھی ہوا جس میں عدالت کو سکینڈلائز کیا گیا اور اس سے اسلام آباد ہائی کورٹ سمیت عدلیہ پر سنگین شبہات پیدا ہوئے ۔

اس بیان حلفی کے مندرجات 15 نومبر 2021 کو دی نیوز انٹرنیشنل اور جنگ میں شائع ہوئے۔ یہ کہ آپ کا بیان حلفی جو چارلس ڈی گرتھی نے آپ کی موجودگی میں نوٹرائز کیا وہ نہ صرف سرکولیٹ ہوا بلکہ میڈیا انصار عباسی تک پہنچا۔ اور یہ کہ آپ ہی کی وجہ سے بیان حلفی میڈیا تک پہنچا۔ یہ کہ آپ (رانا شمیم) نے شوکاز نوٹس کے جواب میں کہا کہ یہ بیان حلفی لندن میں قلمبند اور نوٹرائز ہوا اور آپ نے سربمہر کر کے لندن میں ہی اپنے نواسے کے حوالے کیا اور یہ بھی ہدایت کی کہ وہ اسے کھول سکتا ہے اور نہ ہی کسی کو دے سکتا ہے۔ جب یہ بیان حلفی عدالت پہنچا تو یہ کورئیر سروس (ڈی ایچ ایل) کے لفافے میں بند تھا جو آپ کے اس موقف کی نفی کرتا ہے کہ آپ نے اپنا بیان سربمہر کیا تھا۔

اہم خبریں سے مزید