محمد اسلام
وہ بہت خوبصورت طوطا تھا۔ صبح سویرے جب وہ اپنے گھونسلے سے نکلا تواس کا دل چاہا کہ آج وہ لمبی پرواز پر نکل جائے۔ بس پھر کیا تھا اس نے فضا میں اڑان بھری اور یہ جا وہ جا۔
طوطا اڑتا ہوا آبادی سے دور ، بہت دور نکل گیا اس نے فضا سے نیچے دیکھا تو ہر طرف ویرانہ ہی ویرانہ تھا طویل اڑان بھرنے کے باعث اب طوطا تھک چکا تھا اور اسے شدید پیاس محسوس ہورہی تھی۔ لیکن اس ویرانےمیں اسے کہیں بھی پینے کے لیے پانی دستیاب نہیں تھا۔ اس نے مزید پرواز کا فیصلہ کیا اور آدھے گھنٹے کی مسافت کے بعد وہ ایک ایسی جگہ پہنچا جہاں پانی تو نہیں تھا البتہ دور سے ہی اسے کچھ درخت دکھائی دئیے۔ پہلے کچھ نیم کے درخت نظر آئے پھر پیپل کے اور اس کے بعد اسے کچھ ناریل کے درخت دکھائی دئیے۔
پیارے بچو!یہ رنگ برنگی پروں والا خوبصورت طوطا سمجھ دار بھی تھا اور ذہین بھی۔اس کی ماں نے اسے ایک بار پیاسے کوے کی کہانی سنائی تھی جس میں کوا برتن میں کنکر ڈال کر پانی کو اوپر لاتا ہے اور جب پانی اوپر آجاتا ہے تو وہ پانی پی کر اپنی پیاس بجھا لیتا ہے بچوں ممکن ہے کہ آپ نے بھی یہ کہانی سنی ہو۔ بس پھر کیا تھا طوطے نے بھی اپنی ذہانت دکھانے کافیصلہ کرلیا۔ وہ اڑ کرتیزی سے ناریل کے ایک درخت پر جاپہنچا جہاں کچے پکے درجنوں ناریل لگے ہوئے تھے بچو! یہ تو آپ اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ ناریل میں اچھا خاصا میٹھا میٹھا پانی ہوتا ہے۔
اور آپ ہی کیا طوطا کے علم میں بھی یہ بات تھی بس پھر کیا ہوا کہ طوطے نے ناریل کی شاخ کو اپنے مضبوط پنجے میں پکڑا اور اپنی تیز چونچ کی مددسے ناریل کو شاخ سے الگ کرنے لگا۔ اس نے اچھی خاصی تگ وو کے بعد ناریل کو شاخ سے جدا کرلیا۔ لیکن ابھی اس کا مشن نامکمل تھا۔ لہذا اس نے مزید کوشش کی اور ناریل کو پنجے میں پکڑ کرناریل کے درمیان کی نرم جگہ پر اپنی چونچ سے سوراخ کرنے لگا اس کی محنت جلد ہی رنگ لے آئی۔ اور وہ ناریل میں اتنا بڑا سوراخ کرنے میں کامیاب ہوگیا کہ جس سے پانی باہر آسکے۔ ایسا کرکے بہت خوش تھا۔
پیارےبچو!! اب وقت آپہنچا تھا کہ طوطا اپنی پیاس بجھا سکے۔ بس پھر کیا تھا طوطے نے ناریل کو اپنے پنجے سے اوپر اٹھایا اور اس کے سوراخ کواپنی چونچ کے اندر لے گیا اس نےخوب مزے سے ناریل کا میٹھا اور ڈھیر سارا پانی پیاجس کے بعد وہ خود کو ہشاش بشاش محسوس کرنے لگنے لگا۔
اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کے میسر آنے پر طوطے نے اپنے رب کا شکر ادا کیا اور وہ اپنے گھونسلے کی طرف روانہ ہوگیا۔