• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جوش ملیح آبادی

تو گھر سے نکل آئے تو دھرتی کو جگا دے

تو باغ میں جس وقت لچکتی ہوئی آئے

ساون کی طرح جھوم کے پودوں کو جھمائے

جوڑے کی گرہ کھول کے بیلا جو اٹھائے

پربت پہ برستی ہوئی برکھا کو نچا دے

تو گھر سے نکل آئے تو دھرتی کو جگا دے

آنکھوں کو جھکائے ہوئے پلو کو اٹھائے

مکھڑے پہ لیے صبح کے مچلے ہوئے سائے

لیتی ہوئی انگڑائی اگر گھاٹ پہ آئے

گنگا کی ہر اک لہر میں اک دھوم مچا دے

تو گھر سے نکل آئے تو دھرتی کو جگا دے

کرنوں سے گرے اوس جو ہو تیرا اشارا

مٹی کو نچوڑے تو بہے رنگ کا دھارا

ذرے کو جو روندے تو بنے صبح کا تارا

کانٹے پہ جو تو پاؤں دھرے پھول بنا دے

تو گھر سے نکل آئے تو دھرتی کو جگا دے

خاموش زندگی جو بسر کر رہے ہیں ہم 

رئیس امروہوی 

خاموش زندگی جو بسر کر رہے ہیں ہم

گہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہیں ہم

صدیوں تک اہتمام شب ہجر میں رہے

صدیوں سے انتظار سحر کر رہے ہیں ہم

ذرے کے زخم دل پہ توجہ کئے بغیر

درمان درد شمس و قمر کر رہے ہیں ہم

ہر چند ناز حسن پہ غالب نہ آ سکے

کچھ اور معرکے ہیں جو سر کر رہے ہیں ہم

صبح ازل سے شام ابد تک ہے ایک دن

یہ دن تڑپ تڑپ کے بسر کر رہے ہیں ہم

کوئی پکارتا ہے ہر اک حادثے کے ساتھ

تخلیق کائنات دگر کر رہے ہیں ہم

اے عرصۂ طلب کے سبک سیر قافلو

ٹھہرو کہ نظم راہ گزر کر رہے ہیں ہم

لکھ لکھ کے اشک و خوں سے حکایات زندگی

آرائش کتاب بشر کر رہے ہیں ہم

تخمینۂ حوادث طوفاں کے ساتھ ساتھ

بطن صدف میں وزن گہر کر رہے ہیں ہم

ہم اپنی زندگی تو بسر کر چکے رئیسؔ

یہ کس کی زیست ہے جو بسر کر رہے ہیں ہم

گڈومیاں

 محشربدایونی

سنئے یہ ایک قصہ گڈو کی سادگی کا

گڈو کے ماسٹر نے اک دن یہ اس سے پوچھا

گڈو میاں تمہارے پاپا کا کیا ہے پیشہ

پیشہ کا لفظ سن کر گڈو نہ کچھ بھی سمجھا

آسان ڈھنگ سے پھر یوں ماسٹر نے پوچھا

گڈو تمہارے فادر کا کیا ہے کام دھندا

گڈو نے خامشی سےکچھ دیر تک تو سوچا

پھر توتلی زباں میں آہستگی سے بولا

رہتے نہیں ہیں گھر میں دن کو تو میرے پاپا

ممی ہی صرف میری کرتی ہے کام سارا