ملک میں اسمگلنگ کی روک تھام حکومت اور محکمہ فیڈرل بورڈ آف روینیو اور اس کے محکموں کسٹم انٹیلیجنس کسٹم اور دیگر متعلقہ محکموں کی ذمے داری ہے۔ ہر سال کسٹم ڈے کے موقع پر گزشتہ ایک سال کے دوران پکڑی جانے والی ممنوعہ اور نشہ آور مصنوعات و دیگر اشیاء کو نذر آتش کیا جاتا ہے۔ اس سال بھی محمکہ کسٹم انٹیلیجنس سکھر کی جانب سے 6 کڑور روپے سے زائد رقم کا سامان نذر آتش کیا گیا۔
تاہم اس سال موقع پر موجود مجسٹریٹ نے نذر آتش کئے جانے والے سامان کی تعداد مقدار ظاہر کرنے اور نذرآتش کئے جانے کے طریقہ کار پر سوالات اٹھادیے۔ سکھر چیمبر آف کامرس کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے چئیرمین برائے کسٹم نے بھی ظاہر کئے جانے والے اور نذر آتش کئے جانے والے سامان پر عدم اطمینان کا اظہار کردیا، کسٹم انٹیلیجنس سکھر کی جانب سے کسٹم کلکٹریٹ کے میدان میں جو 6 کڑور روپے سے زائد مالیت کا سامان نذر آتش کیا گیا۔
یہ تمام سامان ایک جگہ ڈھیر لگا کر نذر آتش کیا گیا، سامان کی فہرست اور مقدار و تعداد اور تلف کئے جانے کے حوالے سے اس وقت چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں، جب وہاں موجود جوڈیشل مجسٹریٹ سکھر عبدالطیف ڈاہانی نے کسٹم افسران کی جانب سے نذر آتش کیے جانے والے سامان پر مختلف اعتراضات اٹھائے ، جوڈیشل مجسٹریٹ نے پوچھا کہ یہ وہی سامان ہے جو کہ کاغذات میں ظاہر کیا گیا ہے؟ اگر وہی ہے تو پھر اس کی مقدار اتنی کم کیوں دکھائی دے رہی ہے، تمام سامان ایک ہی جگہ کیوں جمع کیا گیا ہے؟
سگریٹ، اجینو موتو، چھالیہ ودیگر سامان کو الگ الگ کرکے تلف کرنا چاہیے، ہمیں کس طرح تصدیق ہو کہ کاغذات میں جو سامان دکھایا گیا، اتنی ہی مقدار میں وہ نذر آتش کیا گیا ہے؟ جوڈیشل مجسٹریٹ کی جانب سے اعتراض کے بعد وہاں موجود دیگر لوگوں نے بھی سامان تلف کرنے کے طریقہ کار پر مختلف سوالات اٹھائے، ایوان صنعت و تجارت سکھر کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے کسٹم کے چئیرمین عامر فاروقی نے کہا کہ کسٹم افسران یہ دعوی کرتے ہیں کہ 27 ٹن چھالیہ نذر آتش کی جارہی ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ 27ہزار کلو گرام چھالیہ تلف کی گئی، اتنی مقدار میں چھالیہ کے لیے ایک پورا کنٹینر ہونا چاہیے، مگر یہاں اتنی مقدار دکھائی نہیں دی، جوڈیشل مجسٹریٹ نے جو اعتراضات اٹھائے وہی ہمارا موقف اور وہ وہاں موجود مختلف محکموں کے افسران و دیگر لوگوں کے دل کی آواز تھی، کیوں کہ سب لوگ یہ بات محسوس کررہے تھے کہ جتنی مالیت ظاہر کی گئی ہے، اتنی مقدار میں سامان موجود نہیں ہے، اگر واقعی سامان اتنا ہی ہے تو پھر اسے الگ الگ کرکے تلف کیوں نہیں کیا جارہا، جب کہ کسٹم کلکٹریٹ کے پاس اتنا بڑا خالی میدان ہے، جس میں سامان کو الگ الگ کیا جاسکتا تھا، تاکہ تمام افسران اور دیگر شعبوں کے سامنے صورت حال واضح ہوجاتی، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
دوسری جانب ایڈیشنل ڈائریکٹر کسٹم جمشید علی تالپور نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ کا اعتراض یہ تھا کہ سامان کو الگ الگ کرکے تلف کیوں نہیں کیا جارہا، سارا سامان ایک ہی جگہ پر جمع کرکے نذر آتش کرنا درست نہیں، ہم نے سامان جلانے سے پہلے انہیں مطمئن کیا کہ یہ وہی مال ہے، جو کاغذات میں ظاہر کیا گیا ہے اور اس میں کوئی کمی نہیں ہے، وہ مطمئن ہوئے، ان کی مشاورت کے بعد اسے تلف کیا گیا. تقریب سے پہلے ہم نے یہ باتیں انہیں تحریری طور پر دی ہیں، علاوہ ازیں ہر سال کسٹم اور کسٹم انٹیلی جنس کی جانب سے ضبط شدہ تلف کی گئی اشیاء کی مقدار کے حوالے سے باتیں سامنے آتی ہیں کہ کم مالیت کا سامان جلایا جاتا ہے۔
تاہم اس بار جوڈیشل مجسٹریٹ اور چیمبر آف کامرس کے نمائندے نے بھی اس پر اعتراض اٹھادیے ہیں جو کہ محکمہ ایف بی آر اور کسٹم انٹیلیجنس افسران کی کارکردگی پر سوالیہ نشانات ہیں، موجودہ صورت حال میں کسٹم انٹیلی جنس کے بعض افسران بھی پریشان دکھائی دے رہے تھے. تجارتی ، شہری و عوامی حلقوں نے بھی جوڈیشل مجسٹریٹ کے اعتراض کو سوفی صد درست قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس بات کا باریک بینی سے جائزہ لینا چاہیے کہ کسٹم اور کسٹم انٹیلی جنس کی جانب سے جو سامان ہر سال نذر آتش کیا جاتا ہے، وہ کتنی مقدار میں ہوتا ہے اور اگر کسی بھی قسم کی ہیرا پھیرا سامنے آتی ہے تو ملوث افسران و اہلکاروں کے خلاف کارروائی عمل میں لانی چاہیے۔
عامر فاروقی نے کہا کہ کسٹم اور کسٹم انٹیلیجنس کے افسران کو ضبط شدہ ممنوعہ اشیاء نذرآتش کرنے کے لئے ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہیے جو کہ مکمل صاف و شفاف ہو اتنا بڑا میدان ہے اس میں اگر کسٹم انٹیلیجنس کے افسران 6 یا 7 آئیٹم الگ الگ کرکے رکھ دیں گے تو سب کچھ سامنے ہوگا، کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا، لیکن ان کا ایک جگہ ڈھیر لگا کر تلف کرنے کا طریقہ درست نہیں ہے۔ اسے تبدیل ہونا چاہیے، کسٹم انٹیلیجنس نے اس مرتبہ نذر آتش کرتے وقت جتنا سامان ظاہر کیا اتنا دکھائی نہیں دیا، اس لیے ہم نے بھی اعتراض کیا، کیوں کہ حکومت ایف بی آر اور کسٹم انٹیلیجنس سے اگر ہم صرف چھالیہ کی بات کریں تو 27 ہزار کلو گرام چھالیہ کا مقصد ایک کنٹینر کا مال ہوتا ہے، وہ ہمیں اتنی بڑی مقدار میں دکھائی نہیں دیا، دیگر اشیاء پر بھی اعتراضات تھے ۔
سکھر کے اہم تجارتی مراکز ، نشتر روڈ، ریشم گلی، چمٹا گلی، لیاقت چوک، بیراج روڈ، گھنٹہ گھر چوک، الیکٹرونک مارکیٹ، ڈھک روڈ، پان منڈی، بیراج روڈ سمیت دیگر علاقوں میں غیر ملکی مصنوعات کی بھرمار ہے۔ غیر ممالک سے لائی جانے والی اسمگل شدہ مصنوعات اور منشیات کی بکنگ دیگر اشیاء کے نام سے کرائی جاتی ہے، لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ بکنگ کرانے والے کے ساتھ ٹرانسپورٹرز کو بھی اس کا علم ہوتا ہے ۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اسمگلنگ کی روک تھام میں کسٹم اور دیگر ادارے سنجیدہ دکھائی نہیں دیتے۔ اسمگل شدہ اشیاء کسٹم پیڈ اشیاء سے کم قیمت پر فروخت ہوتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ اسمگل شدہ مصنوعات کا کاروبار کرنے والوں نے سکھر کو اپنی آماج گاہ بنالیا ہے اور بلوچستان اور ملک کے مختلف کے مختلف شہروں سے اسمگل ہونےوالی کروڑوں روپے مالیت کی اشیاء براستہ جیکب آباد، سکھر کی مارکیٹوں میں پہنچائی جاتی ہیں ،جس سے حکومت کو ٹیکس کی مد میں خطیر رقم کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ اسمگل شدہ اشیاء جن کی وارنٹی نہیں ہوتی۔
وہ وارنٹی والی اشیاء سے کم قیمت پر دستیاب ہوتی ہیں، اس طرح کی متعدد مارکیٹوں میں اسمگل شدہ سامان بغیر کسٹم ڈیوٹی کے کُھلے عام فروخت ہورہا ہے۔ نان کسٹم پیڈ اشیاء کا کاروبار کرنے والے متعدد تاجر ایسے ہیں، جو متعلقہ محکموں کی مبینہ ملی بھگت سے نان کسٹم پیڈ اشیاء ایک بار کسٹم کی نیلامی سے خرید لیتے ہیں اور ان کاغذات کی بنیاد پر کئی ماہ یا سال تک اسمگل شدہ سامان لاتے ہیں۔
اتنی بڑی حدود والے علاقے سکھر میں تو پورا کسٹم کلکٹریٹ ہونا چاہیے، کیوں کہ کسٹم کلکٹریٹ حیدرآباد میں ہے، جہاں صرف ڈرائی پورٹ ہے، جب کہ اگر سکھر جیسے سندھ کے اہم ترین شہر میں کسٹم کا کلکٹریٹ ہونا چاہیے، اور جب تک یہ ممکن نہیں تو اس وقت تک ایسے افسران کو تعینات کیاجائے، جو مثالی کارکردگی کی شہرت رکھتے ہوں۔
محکمہ کسٹم میں متعدد ایسے افسر بھی موجود ہیں، جو سالوں میں نہیں مہینوں میں ادارے کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے ساتھ اسمگلنگ کی روک تھام کو یقینی بنا کر قومی خزانے کو ٹیکس کی مد میں نقصان سے بچا کر فائدہ پہنچا سکتے ہیں، جس کی مثال سکھر میں ہی موجود ہے کہ محکمہ کسٹم میں دو سال قبل 6 ماہ تعینات رہنے کے بعد تبدیل کردئیے جانے والے ڈپٹی کلکٹر کسٹم ڈاکٹر عمران رسول کی ہے، جس نے اپنی 6 ماہ کی تعیناتی کے دوران اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے جو اقدامات کیے اور کام یاب کارروائیاں کرتے ہوئے ایک ارب روپے سے زائد کے کیسسز بنائے اور 20 کڑور روپے کی ممنوعہ اشیاء کو نذر آتش کیا گیا اور اس مختصر عرصے میں جو کام یاب کارروائیاں سامنے آئیں، وہ کئی دہائیوں میں دیکھنے میں نہیں آئیں، لیکن ان کو 6 ماہ میں ہی تبدیل کردیا گیا۔
ایف بی آر کو اس جانب بھی سوچنا ہوگا کہ اگر حکومت اور ایف بی آر اسمگلنگ کی روک تھام میں سنجیدہ ہے، تو انہیں ٹھوس بنیادوں پر اقدامات بھی کرنا ہوں گے۔ اس وقت سکھر کی مارکیٹوں میں اسمگل شدہ مصنوعات کھلے عام فروخت ہورہی ہیں، لیکن متعلقہ محکمے کوئی کارروائی کرتے دکھائی نہیں دیتے، محکمہ کسٹم اور کسٹم انٹیلی جنس کی مسلسل خاموشی کے باعث اسمگلنگ کی روک تھام کے بہ جائے اس کے رجحان میں اضافہ ہورہا ہے۔