اسلام آباد(رپورٹ:،رانا مسعود حسین) سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظر ثانی کیس کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔ عدالت نے 9 ماہ دو دن بعد نظر ثانی درخواستوں کا تحریری فیصلہ جاری کیا ہے،تحریری فیصلہ جسٹس مقبول باقر جسٹس مظہر عالم ،جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس امین الدین نے تحریر کیا ، جسٹس یحییٰ آفریدی نے اضافی نوٹ تحریری کیا ۔
ہفتہ کو فیصلہ کے مطابق اہلیہ سرینا عیسیٰ کی نظر ثانی درخواستیں اکثریت سے منظور کیا،دس رکنی لارجر بینچ نے چھ چار کے تناسب سے سرین عیسی ٰکے حق میں فیصلہ سنایا۔
فیصلے میں کہا گیا ہےکہ جج کی اہلیہ کو آئینی حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا،انہیں سماعت کا پورا حق نہیں دیا گیا، جسٹس فائز عیسی فیملی کیخلاف ایف بی آر کو تحقیقات کا حکم دینا غلط تھا، انکے اہل خانہ کا ٹیکس ریکارڈ غیر قانونی طریقے سے اکٹھا کیا گیا۔
آئین کے تحت سرکاری افسر ججز کیخلاف شکایت درج نہیں کراسکتے، فیصلے میں سرینا عیسیٰ کے ٹیکس معاملے میں شہزاد اکبر اور فروغ نسیم کی ہدایات کو غیر قانونی قراردیا گیا۔
عدالت عظمیٰ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف دائر صدارتی ریفرنس سے متعلق مقدمہ میں دائر کی گئی نظر ثانی کی درخواستوں کاتفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے قرار دیاہے کہ یہ عدالت (سپریم کورٹ )، سپریم جوڈیشل کونسل کو ہدایات جاری نہیں کرسکتی ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کا دائرہ اختیار صرف ججوں کے مس کنڈکٹ کے معاملات تک محدود ہے۔
سپریم کورٹ کے جج سمیت کوئی بھی شخص قانون سے بالاتر نہیں ہے تاہم کسی بھی شخص کو چاہے وہ اس عدالت کا جج ہی کیوں نہ ہو اس کے آئینی و قانونی حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا ہے،قطع نظر کسی عہدہ یا پوزیشن کے ؟ہر پاکستانی قانون کے مطابق سلوک کا ہی حقدار ہے،کمرہ عدالت شیشے کے گھر جیسا ہوتا ہے۔
ججز شیشے کے گھر نما کمرہ عدالت میں بیٹھ کر بلا خوف فیصلے کرتے ہیں،ان کے بے خوف فیصلوں کے سبب بعض اوقات ان پر انگلیاں بھی اٹھائی جاتی ہیں، بعض اوقات ججوں کی ساکھ متاثر کرنے کیلئے کوششیں کی جاتی ہیں، ججوں کے پاس اپنی صفائی پیش کرنے کیلئے عوامی فورم بھی نہیں ہوتاہے ، ایسی صورتحال میں عدلیہ کی بطور آئینی ادارہ عوام کی نظر میں ساکھ متاثر ہوتی ہے۔
عدالت نے جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کو مکمل دفاع کا موقع دیے بغیر ہی ٹیکس کامعاملہ ایف بی آر بھیج دیا تھا ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور انکے بچے بھی عام شہری ہیں ، انکے ٹیکس معاملات پرمفاد عامہ سے متعلق آئین کے آرٹیکل 184 کی شق 3کا اختیار استعمال نہیں کیا جا سکتاہے ۔
تفصیلات کے مطابق دس رکنی فل کورٹ لاجر بینچ نے چار / چھ ججوں کی اکثریت سے جاری کئے گئے فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کے ٹیکس کا معاملہ انکوائری کے لیے ایف بی آر کو بھیجنے کے فیصلے کے خلاف دائر نظر ثانی اپیلیں منظور کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے اکثریتی فیصلے میں 2004اور 2013کا ٹیکس معاملہ ایف بی آر کو انکوائری کے لیے بھیجا تھاجبکہ قانون کے تحت پانچ سال سے پرانا ٹیکس معاملہ ری اوپن ہی نہیں کیا جاسکتا ہے۔
اکثریتی ججوں نے ایف بی آر کی رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل میں پیش کرنے اور سپریم جوڈیشل کونسل کو رپورٹ کا جائزہ لینے کی ہدایت کو بھی غیر قانونی قرار دیا ہے،فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ، سپریم جوڈیشل کونسل کو از خود نوٹس لینے کا نہیں کہہ سکتی ہے، فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ مالی طور پر خود مختار اہلیہ اور بچوں کے ٹیکس معاملات کے لیے ایک جج جواب دہ نہیں ہوسکتا ہے۔
نظر ثانی پر 45صفحات پر مشتمل اکثریتی فیصلہ جسٹس مقبول باقر، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس امین الدین خان نے مشترکہ طور پر تحریر کیا ہے،جسٹس منظور احمد ملک نے فیصلے سے اتفاق کیا ہے جبکہ جسٹس یحیی آفریدی نے اپنا الگ نوٹ تحریر کیا ہے،فاضل عدالت نے قرار دیا ہے کہ یہ فیصلہ واضح الفاظ کے ساتھ سنایا جاتا ہے کہ اس عدالت کے جج سمیت کوئی بھی شہری قانون سے بالاتر نہیں ہے تاہم کسی بھی شخص کو چاہے وہ اس عدالت کا جج ہی کیوں نہ ہو؟ اس کے قانونی حق سے محروم نہیں کیا جاسکتاہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہر شہری اپنی زندگی، آزادی، ساکھ، جائیداد سے متعلق قانون کے مطابق سلوک کا حق رکھتا ہے،یاد رہے کہ نظر ثانی کی درخواستوں پر سماعت مکمل ہونے کے بعد26 اپریل 2021 کو اس پر مختصر فیصلہ سنایا گیا تھا اور 9 ماہ 2 دن کے بعد یہ تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیاہے ۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ کا احتساب عدلیہ کی آزادی کی بنیاد ہے لیکن کسی جج کے احتساب کے نام پر اسے اس کے آئینی و قانونی حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا ہے،آئین کے آرٹیکل4 کا تحفظ ججوں کو بھی حاصل ہے، جج کو بطور شہری تمام آئینی حقوق حاصل ہیں اور آئین کے آرٹیکل ہائے9 تا28 ہر شہری کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتے ہیں۔
عدالت نے قرار دیاہے کہ عدلیہ کا احتساب ضروری ہے لیکن احتساب کا یہ عمل قانون کے مطابق ہونا چاہیے، کھلی عدالت شیشے کے گھر کی مانند ہوتی ہے، جج بعض اوقات بڑے بڑوں کیخلاف کھل کر فیصلے دیتے ہیں اور اس وجہ سے بعض اوقات کچھ لوگ ان کے خلاف ہوجاتے ہیں اور ان کی ساکھ کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کردیتے ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سرینا عیسیٰ سے عدالت میں بیان لیتے وقت معاملہ ایف بی آر بھیجنے کا نہیں پوچھا گیا تھا، انہیں اس ہم ترین معاملے پر سماعت کا پوراحق نہیں ہی دیاگیاتھا،عدالت نے قرار دیاہے کہ آئین کے تحت شفاف ٹرائل ہرخاص وعام کابنیادی حق ہے لہذا صرف ایک جج کی اہلیہ ہونے کی بنیاد پرسرینا عیسیٰ کو ان کے آئینی حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتاہے۔
قانون کے مطابق فیصلوں سے ہی عوام کا عدلیہ پر اعتماد بڑھے گا،عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید کہا ہے کہ جسٹس فائز عیسی ٰنے کہاہے کہ ان کی اہلیہ کے ٹیکس کے معاملات میں انہیں مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے، سرینا عیسی اور ان کے بچے عام شہری ہیں، ان کے ٹیکس کے معاملات کا مفاد عامہ سے متعلق آئین کے آرٹیکل 184/3 سے کوئی تعلق نہیں بنتا ہے۔
اس لئے سرینا عیسیٰ کے ٹیکس کا معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کونہیں بھیجا جاسکتا ہے ،عدالت نے واضح کیا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کا دائرہ اختیار صرف ججوں کے مس کنڈکٹ کے معاملات تک محدود ہے،فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی پرایف بی آرکے خلاف اپیل اثر انداز نہیں ہوگی، ایسابھی ممکن تھا۔
چیئرمین ایف بی آرکی رپورٹ پر جسٹس فائز عیسی برطرف ہوجاتے، جج کی برطرفی کے بعدایف بی آرکیخلاف اپیل سرینا عیسی ٰکے حق میں بھی آسکتی تھی، برطرفی کے بعد اپیل میں کامیابی کا فیصلہ ہونے تک جسٹس فائز عیسی ریٹائر ہوچکے ہوتے جبکہ ایسا بھی ممکن تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل ایف بی آر کی رپورٹ کو تسلیم ہی نہ کرتی۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے ازخودنوٹس لینے کی ہدایت دینا سپریم جوڈیشل کونسل کی آزادی کے خلاف ہے،جبکہ آئین کے تحت سرکاری افسران ججوں کیخلاف شکایت درج نہیں کرا سکتے ہیں، چیئرمین ایف بی آرکی رپورٹ دراصل جسٹس فائز عیسیٰ کیخلاف شکایت ہی تھی، سپریم کورٹ کی جانب سے ایف بی آر کو تحقیقات کا حکم دینا غلط تھا۔
ججوں کیخلاف کارروائی صرف صدرمملکت کی سفارش پر ہی سپریم جوڈیشل کونسل کرسکتی ہے،فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے اہلخانہ کاٹیکس ریکارڈ غیر قانونی طریقے سے اکٹھا کیا گیاتھا، مرکزی کیس میں بھی جسٹس قاضی فائز اور ان کی اہلیہ کا مکمل موقف نہیں سنا گیاتھا۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ کسی ایک جج کیخلاف کارروائی سے پوری عدلیہ کی آزادی پر سوال اٹھتا ہے،جسٹس یحیٰ آفریدی نے اپنے الگ نوٹ میں قرار دیا ہے کہ انکم ٹیکس آرڈیننس کے تحت پانچ سال پرانے ٹیکس کے معاملات کو ایف بی آر ری اوپن نہیں کرسکتا تھا، عدالت کی جانب سے ٹیکس کے پانچ سال سے پرانے معاملے کو انکوائری کے لیے ایف بی آر کو بھیجنا ایک متوازی ٹیکس سسٹم قائم کرنے کے مترادف ہے۔
اپنے نوٹ میں فاضل جج نے قرار دیا ہے کہ عدلیہ کے احتساب کے بغیر قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہوسکتی ہے،قانون کی حکمرانی احتساب سے ہی قائم ہوتی ہے لیکن یہ چیز بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ ججوںکا احتساب مصنوعی طریقوں سے نہیں کیاجاسکتا ہے۔
احتساب قانونی طریقہ کار کے مطابق ہی ہونا چاہیئے ،فاضل جج نے اپنے نوٹ کہاہے کہ عدالت کا یہ آرڈر کسی بھی جج بشمول جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدر ،سپریم جوڈیشل کونسل اور ٹیکس حکام کی کارروائی کا قانونی ا ختیار کم نہیں کرتا ہے لیکن اختیار کے استعمال کے وقت خصوصی طور پر ٹیکس حکام کو اپنی قانونی ذمہ داریوں سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا ہے کہ انکم ٹیکس آرڈیننس کی سیکشن 216کے تحت ٹیکس دہندہ کی معلومات کو خفیہ رکھنالازمی ہے لیکن زیر غور کیس میں سرینا عیسیٰ کے معاملے میں ایسٹ ریکوری یونٹ کے چیئرمین شہزاد اکبر اور وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کے کہنے پر ایف بی آر نے سرینا عیسیٰ کے ذاتی ٹیکس ریٹرنز کو خفیہ رکھنے کے اصول کی خلاف ورزی کی ہے۔
سرینا عیسیٰ کے ٹیکس کے معاملات میں شہزاد اکبر اور فروغ نسیم کی جانب سے جاری کی گئی ہدایات غیر قانونی ہیں، اور ان غیر قانونی ہدایات کی وزیراعظم عمران خان نے بھی توثیق کی ہے جس کے سنگین نتائج ہوسکتے ہیں۔
نوٹ میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم کی جانب سے ان دونوں کو اتنے اہم اختیاراتی عہدوں پر کام جاری رکھنے کی اجازت دینا اور وہ بھی اس حال میں کہ عدالت نے متفقہ طور پر قرار دیا ہے کہ آئین وقانون اور خصوصی طور پر انکم ٹیکس آرڈیننس کی سیکشن 216کی خلاف ورزی ہوئی ہے کے بھی، اپنے فوجداری نتائج ہوں گے، اس سے قانون کی خلاف ورزی کے ا رتکاب میں غیر قانونی ہدایات سے گڈ گورننس اور وزیراعظم کی ملی بھگت کھل کر سامنے آتی ہے۔
نوٹ میں قراردیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ سمیت کوئی بھی عدالت سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی ہے، سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل کو ایف بی آر سے کمشنر کی دی گئی معلومات پر جج کے خلاف کارروائی کا حکم نہیں دے سکتی۔
اضافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے عبوری فیصلے میں ٹیکس حکام کو تحقیقات کا حکم دے کر قانون ساز کا کردار ادا کیا، ایف بی آر تحقیقات کی رو میں ٹیکس کنندگان کی ذاتی معلومات پبلک نہیں کر سکتی۔
اضافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ مرکزی کیس یہ تھا کہ جج نے اپنے اثاثوں میں اہلیہ اور بچوں کے اثاثے ظاہر نہیں کیے ہیں، سپریم کورٹ کا اہل خانہ کے اثاثوں کی تحقیقات کا جج کے مبینہ مس کنڈکٹ کے کیس میں حکم دینا غلط تھا، سرینا عیسی، انکے بیٹے اور بیٹی کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ واپس لیا جاتا ہے۔