وہ کتاب
زہرا نگاہ
مری زندگی کی لکھی ہوئی
مرے طاق دل پہ سجی ہوئی
وہ کتاب اب بھی ہے منتظر
جسے میں کبھی نہیں پڑھ سکی
وہ تمام باب سبھی ورق
ہیں ابھی تلک بھی جڑے ہوئے
مرا عہد دید بھی آج تک
انہیں وہ جدائی نہ دے سکا
جو ہر اک کتاب کی روح ہے
مجھے خوف ہے کہ کتاب میں
مرے روز و شب کی اذیتیں
وہ ندامتیں وہ ملامتیں
کسی حاشیے پہ رقم نہ ہوں
میں فریب خوردۂ برتری
میں اسیر حلقۂ بزدلی
وہ کتاب کیسے پڑھوں گی میں؟
***********
کب تک رہوں میں خوف زدہ اپنے آپ سے
حمایت علی شاعر
کب تک رہوں میں خوف زدہ اپنے آپ سے
اک دن نکل نہ جاؤں ذرا اپنے آپ سے
جس کی مجھے تلاش تھی وہ تو مجھی میں تھا
کیوں آج تک میں دور رہا اپنے آپ سے
دنیا نے تجھ کو میرا مخاطب سمجھ لیا
محو سخن تھا میں تو سدا اپنے آپ سے
تجھ سے وفا نہ کی تو کسی سے وفا نہ کی
کس طرح انتقام لیا اپنے آپ سے
لوٹ آ درون دل سے پکارے کوئی مجھے
دنیا کی آرزو میں نہ جا اپنے آپ سے