• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ پون صدی کے ادب میں ہمارے یہاں جن لوگوں نے بہت فعال اور اہم کردار ادا کیا اُن میں ایک نام انتظار حسین بھی ہے۔ بنیادی شناخت کا حوالہ اُن کے لیے بے شک فکشن ہے، اور ہونا بھی چاہیے۔ سادہ اسلوب کی سماجی حقیقت نگاری سے علامت پھر علامت و تجرید کا امتزاج، جاتک کہانیوں سے صوفیا کی حکایات اور اس کے بعد کہانی کی قدیم روایات اور برصغیر کے تہذیبی و تاریخی شعور سے استفادے تک، ان کے فکشن میں تخلیقی، فنی اور اسلوبیاتی سطح پر جتنے تجربات ہمیں ملتے ہیں، ان کے کسی دوسرے معاصر کے فن میں تو کجا، جملہ معاصرین کے یہاں بھی مشکل ہی سے نظر آئیں گے۔

انتظار حسین کی تجربہ پسند اور ہنر آزما طبیعت کا اظہار صرف اُن کے افسانوں میں نہیں ہوتا، بلکہ اُن کے ناول اور ناولٹ بھی اُن کے اس رویے کی پوری طرح عکاسی کرتے ہیں۔ اُن کا پہلا ناول ’’بستی‘‘ شائع ہوا تو اس نے کئی بحثوں کو جنم دیا۔ اس ناول کی فارم اور اسٹرکچر کے حوالے سے سوالات اٹھائے گئے۔ اس میں بنائے گئے زمانی اور ثقافتی دائرے بھی معرضِ بحث میں آئے۔ یہی نہیں، بلکہ ناول کے بیانیہ میں زیریں سطح پر، جس سیاسی نکتۂ نظر کا اظہار کیا گیا تھا، اُس پر بھی گفتگو ہوئی۔ سب سے زیادہ بحث ناول کی فارم اور اس کے اسٹرکچر کے حوالے سے رہی۔ 

بعض ناقدین نے تو یہاں تک کہا کہ اردو ناول کی روایت کے تناظر میں دیکھا جائے تو ’’بستی‘‘ ناول ہی نہیں ہے۔اسی طرح جب ان کا آخری ناول ’’آگے سمندر ہے‘‘ شائع ہوا تو اس پر بھی خاصی گفتگو اور بحثیں سامنے آئیں۔ اس ناول کے مرکزی مسئلے کے تحت قیامِ پاکستان کے بعد ہندوستان سے یہاں منتقل ہونے والی آبادی جس کا ایک معتدبہ حصہ کراچی میں آبسا اور مہاجر کہلایا جو پھر گزشتہ صدی کی اسّی کی دہائی میں ایک سیاسی قوت کی صورت میں ابھری، اُس کی سماجی، تہذیبی اور سیاسی صورتِ حال کو بھی خصوصیت کے ساتھ اس ناول میں فوکس کیا گیا ہے۔ 

ناول میں اس سلسلے کو اگرچہ سیاسی زاویے سے بھی دیکھا گیا ہے، لیکن انتظار حسین کی بنیادی دل چسپی انسانی احوال سے رہی ہے۔ وہ احوال جو ایک سماج کی پولارائزیشن کی صورت میں پیدا ہوتا ہے۔ جس کے تحت بعدازاں سماجی رویے اور تہذیبی اقدار کا پور اایک منظرنامہ تشکیل پاتا ہے، جس میں پھر ایک کے بعد دوسری نسل اپنی خاص ذہنی ساخت کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ انتظار حسین نے اس مسئلے کو ایک بڑے سیاق میں رکھا اور مسلمانوں کی تاریخ کے ایک بڑے حوالے سے جوڑ کر دیکھا ہے۔

اس میں طلیطیلہ اور اشبیلیہ کے حوالے بھی ملتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ہندو مائتھالوجی کے حوالے بھی ہیں جو یوں بھی انتظار حسین کے فکشن کے خاص عناصر میں شمار ہوتی ہے۔ اس ناول نے بھی ہمارے ناقدوں کو چکرایا۔ کسی نے اسے تاریخ کے زیرِ اثر لکھا گیا ناول کہا تو کسی نے صاف تاریخی ناول ہی گردانا، اور کسی نے تو اس کی تاریخ اور تہذیب کیا، ناول والی حیثیت پر ہی اعتراض جڑ دیا۔

اعتراضات افسانوں پر ہوئے یا ناول یا پھر ان کی لکھی ہوئی تنقید یا کالم پر واقعہ یہ ہے کہ انتظار حسین نے اپنے معترضین اور ناقدین کے سامنے کبھی ہتھیار نہیں ڈالے۔ ان کے ناول کی فارم پر اعتراض ہوا تو انھوں نے اطمینان سے کہا کہ بھئی یہ ناول نہ سہی روایتی فارم پر، اس سے اردو ناول میں ایک نئی فارم کا آغاز کیوں نہ سمجھا جائے۔ اُن کے ناول کے تاریخی ہونے یا نہ ہونے کی بحث میں بھی انھیں کوئی الجھن نہ تھی۔ 

وہ تو خود کو نرا ادیب قرار دیتے تھے۔ ان کے بقول، تاریخ دان ہونے کا انھوں نے کبھی کوئی دعویٰ نہیں کیا۔ نہ ہی انھوں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ ’’آگے سمندر ہے‘‘ تاریخی یا کوئی دستاویزی ناول ہے۔ اُن کے یہاں گئے زمانوں، بچھڑے لوگوں اور تہذیبی یادداشت کو موضوعِ بحث بنا کر ناسٹلجیا کا شکار ہونے کی بات کی گئی تو بھی انھیں مطلق تردد نہ تھا۔ ان کے نزدیک تو ادب کے لیے کھوئے ہوئوں کی جستجو ایک خاص کام تھا۔ غرضے کہ ان کی بابت جو بھی سوالات و اعتراضات سامنے آئے، وہ کبھی ان کے لیے کسی دبائو کا ذریعہ نہیں بنے۔ انھوں نے اپنے ناقدین کی آزادیِ رائے کے حق کو کبھی چیلنج نہیں کیا، لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ کبھی اپنے اس حق سے خود بھی دست بردار نہیں ہوئے۔

ایک طویل عرصے تک انتظار حسین نے اردو اور انگریزی میں کالم بھی لکھے۔ ہمارے یہاں جن لوگوں کے ادبی کالم بہت پڑھے گئے اور ان کے حوالے سے سنجیدہ ادیبوں کی طرف سے ادبی حلقوں میں گفتگوئیں بھی ہوئیں انتظار حسین ان میں اپنی ایک اہمیت رکھتے ہیں۔ وہ جو کالم لکھتے تھے، وہ اپنی زبان اور اُن کے خاص اسلوب ہی کی وجہ سے توجہ کا مرکز نہیں بنتے تھے، لیکن ان کے موضوعات بھی بالخصوص ایسے ہوتے تھے کہ ان سے صرفِ نظر ممکن نہ تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور سبب بھی تھا اور وہ چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد والا معاملہ تھا۔ 

اگر ایک طرف ان کی بحث و تخصیص کا قصہ دیکھا جائے تو اس میں سلیم احمد، انور سجاد اور حمید نسیم جیسے لوگ نظر آتے ہیں جو اپنے عہد کے بڑے اور نمائندہ لوگ تھے اور ادب کو بڑے تہذیبی، فکری اور انسانی سیاق میں دیکھنے کا رجحان رکھتے تھے۔ ان لوگوں سے انتظار حسین کی ادبی بحثیں کالم میں سلسلہ وار چلیں۔ یہی نہیں، بلکہ اُن کے کالموں میں چھیڑ چھاڑ تو محمد حسن عسکری، کرار حسین، مظفر علی سیّد، اشفاق احمد، صفدر میر، زاہد ڈار، شمس الرحمن فاروقی، عبداﷲ حسین اور انیس ناگی جیسے سینئرز اور ہم عمر معاصرین کے علاوہ ہماری نسل کے جونیئرز سے بھی ہوتی رہی ہیں۔

اپنے عہد کے ادبی منظرنامے میں انتظار حسین کے سرگرم اور فعال کردار کو پیشِ نظر رکھا جائے تو اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ وہ اپنے انفرادی تخلیقی جوہر کے اعتبار سے جو اہمیت رکھتے تھے، وہ تو اپنی جگہ مسلمہ ہے ہی، لیکن اس کے ساتھ اپنے عہد کے اجتماعی ادبی تناظر میں بھی اُن کا کردار ایک خاص نوعیت کا تھا۔ انھوں نے اپنے زمانے کی مجموعی فضا میں بھی ایک ادیب کی حیثیت سے تحرک کو قائم رکھنے میں پوری ذمہ داری اور شعور کا مظاہرہ کیا۔ 

واقعہ یہ ہے کہ انتظار حسین ادب کو کسی شخص کے ذاتی افکار و خیالات اور تجربات و احساسات کے اظہار تک محدود نہیں جانتے تھے۔ اُن کے تئیں ادب اور ادیب کو انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اُن کا خیال تھا کہ ادیب کے فکر و نظر اور تخلیقی عمل کی اصل اہمیت کا دائرہ صرف اُس کے اظہار تک نہیں ہونا چاہیے۔ اُن کا اصرار تھا کہ اپنے اظہار کے بعد ادیب کو اگلی منزل سے بھی گزرنا چاہیے۔ اسے اپنے دور کے ادیبوں کے بیچ میں رہنا اور اُن سے اپنے فکر و خیال کو ٹکرا کر دیکھنا چاہیے۔ اگر ادیب ایسا نہیں کرتا تو اس کا معاملہ بھی جنگل کے مور جیسا ہے کہ وہ ناچا بھی تو کس نے دیکھا۔

انتظار حسین اس کے حق میں نہ تھے کہ فکشن نگار اپنی یادیں یا سوانح لکھے۔ اُن کے قریبی دوستوں اور ہم جیسے خوردوں میں کبھی کوئی اس کی فرمائش کرتا تو وہ اسے سمجھانے کی کوشش کرتے کہ یہ فکشن نگار کے لیے اچھا نہیں ہوسکتا۔ وہ ایسا کوئی کام کرے گا تو اپنی کہانیوں اور اپنے کرداروں کو نقصان پہنچائے گا۔ اس لیے کہ یادنگاری کا عمل اُس کے فکشن اور کرداروں کی قلعی کھول کر رہ دے گا۔ ایک عرصے تک وہ اپنی رائے پر مضبوطی سے قائم رہے، لیکن پھر یادوں کی فرمائش کا دبائو بڑھتا چلا گیا۔ ان کے ہم عمر احباب ہی میں نہیں، جونیئرز میں بھی خاصے لوگ اس کا تقاضا کرنے لگے۔ بعد میں ان کا پبلشر بھی اس فرمائش میں شامل ہوگیا۔ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔ انتظار صاحب کی عذر خواہی غیر مؤثر ہونے لگی۔ 

اب انھوں نے اس پر سوچنا شروع کیا اور اپنی ایک راہ نکالی۔ پہلے ’’چراغوں کا دھواں‘‘ اور پھر ’’جستجو کیا ہے‘‘ منظرِعام پر آئیں۔ کہنے کو یہ دونوں کتابیں انتظار حسین کی یادوں پر مشتمل ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں مصنف کی ذاتی یا شخصی زندگی کا احوال مشکل سے ایک چوتھائی حصے پر مشتمل ہے، باقی تین چوتھائی سے زیادہ حصہ انتظار حسین کی اجتماعی زندگی کے مختلف ادوار کی روداد سناتا ہے۔ یہ دونوں کتابیں ایک شخص سے کہیں زیادہ ایک زمانے کا احوال سناتی ہیں۔ ادیب کی اجتماعی زندگی کا وسیع لینڈ اسکیپ ہمارے سامنے لاتی ہیں۔

انتظار حسین کی بابت ایک اعتراض کی بڑی گونج ہمارے ادبی حلقوں میں رہی ہے، یہ کہ اُن کے یہاں ماضی پرستی کا رجحان بہت نمایاں ہے۔ ناسٹلجیا ان کے تخلیقی عمل میں سب سے بڑے عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔ خدا جانے یہ اعتراض کرنے والوں نے کبھی انتظار حسین کے کام کو اس کی کلیت میں بھی دیکھنے کی کوشش کی تھی کہ نہیں۔ لگتا تو یہی ہے کہ نہیں کی ہوگی۔ اگر اُن کے کام کو ایک بار بھی اطمینان سے اُس کے پورے حجم میں دیکھ لیا جائے تو یہ ماننا پڑتا ہے کہ اپنے عہد کے سماجی، سیاسی، تہذیبی اور انسانی رجحانات اور تجربات سے جتنا سروکار انتظار حسین کو رہا ہے، ہمارے ادب کے کم کم لوگوں کو رہا ہوگا۔ وہ اپنے عہد کی حسیت سے جس درجہ ہم آہنگ تھے اور اُس کے مسائل کا جیسا گہرا شعور رکھتے تھے، وہ بجائے خود دوسروں کے لیے مثال کے درجے کی چیز تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ انتظار حسین کا ذہن ادب اور سماج کے رشتے کی حرکیات کو بہت غور سے دیکھتا اور بہت اہمیت بھی دیتا تھا، اور آخری وقت تک ان کے سوچنے کی نہج یہی تھی۔ ایک زندہ، سنجیدہ اور سرگرم ادیب کی اس نہج سے وہ کبھی غافل نہیں ہوئے۔