یوکرین کے مسئلے پر یورپی ممالک میں دو گروپ اُبھر کر سامنے آئے ہیں۔ ایک گروپ کا خیال ہے کہ روس ان کاپڑوسی ملک اس کی وار مشین بہت بڑی ہے۔ ہم اپنے پڑوسی بدل نہیں سکتے تو اس معاملے میں ہمیں سوچ سمجھ کے پھونک پھونک کے قدم بڑھانا چاہئے، بے شک امریکا ہمارا دوست ہے۔ حلیف ہےمگر ہمارے اور امریکا کے بیچ بحراوقیانوس حائل ہے۔
اگر یہ خطّہ دو بڑی طاقتوں کا میدانِ کارزار بن گیا تو پھر کیا کچھ ہو سکتا ہے، اس لئے ہمیں تمام ممکنہ خطرات اور مسائل کا اچھی طرح احاطہ کرنا چاہئے جبکہ یورپی ممالک کا دُوسرا گروپ کہتا ہے کہ اس کی کیا ضمانت ہے کہ وہ یوکرین کے ساتھ جو کرنا چاہتا ہے وہ دُوسرے ممالک کے ساتھ یہی رویہ نہیں اپنائے گا۔
روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ وہ روس کو ماضی کے سوویت یونین جیسا دیکھنا چاہتے ہیں روس کو اس کا مقام دلانا چاہتے ہیں ہمیں روس کو یوکرین کے مسئلے ہی میں سبق سکھانے کے لئے امریکا کا ساتھ دینا ہوگا۔
اب یورپی یونین یوکرین کے مسئلے پر قرارداد پیش کرنے جا رہی ہے ایسے میں یہ تفریق سامنے آ رہی ہے۔ بعض یورپی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس مسئلے پر روسی صدر پیوٹن کو خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، مگر اس سے زیادہ مشکلات امریکی صدر کو جھیلنی ہوں گی۔ وہ یورپی ممالک جو امریکا کی بھرپور حمایت کرنے کے مسئلے پر تذبذب کا شکار دکھائی دیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یورپ اور نیٹو کو واضح الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ امریکا نیٹو کا مزید بوجھ برداشت نہیں کرے گا۔ یورپی ممالک اپنا اپنا حصہ ڈال کر نیٹو چلائیں۔
اس پر یورپ کو خاصی مایوسی ہوئی تھی۔ سابق صدر ٹرمپ ایک غیرسیاسی شخصیت تھے۔ نیٹو کی سرزنش کے بعد انہوں نے پیرس کی عالمی سربراہ کانفرنس میں ماحولیات کے حوالے سے طے پانے والے معاہدہ سے امریکا کو الگ کر لیا تھا اور ماحولیات کے ماہرین کی بھی سرزنش کی تھی کہ محض فنڈ جمع کرنے کے لئے ڈرامہ رچایا جا رہا ہے، موسمی حالات ہر دور میں تبدیل ہوتے رہے سو اب بھی ہو رہے ہیں۔
یورپی دھڑا ٹرمپ کے معاملے پر بھی تشویش ظاہر کر رہا ہے، اس کا مؤقف ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی دفاعی پالیسی وضع کریں اور اپنے دفاع کے لئے امریکا کی طرف دیکھنا چھوڑ دیں، البتہ مخالف یہ بات بھی کہہ رہا ہے کہ اگر امریکا کو یورپ کے علاوہ کسی اور جگہ ہماری ضرورت پیش آئے تو اس معاملہ پر ہمدردانہ طور پر غور کیا جا سکتا ہے۔
یہاں ایک نکتہ بیش تر یورپی ممالک نے اُٹھایا کہ امریکا اس وقت چین کو زیادہ اہمیت دے رہا ہے اور چین بھی امریکا کو آنکھیں دکھا رہا ہے اگر ان دونوں بڑی طاقتوں کے مابین تعلقات مزید خراب ہوگئے تو یہ بھی ہمارے لئے بڑا مسئلہ ہوگا، کیونکہ بیش تر یورپی ممالک کے چین کے ساتھ بہت اچھے تعلقات اور بڑے بڑے طویل المدت تجارتی معاہدے ہیں، تب ان کا کیا ہوگا۔
اس سے بھی بڑا مسئلہ یورپی ممالک کے سامنے یہ ہے کہ وہ تیل اور قدرتی گیس کی ساٹھ فیصد ضروریات روسی تیل گیس کی فراہمی سے پوری کرتے ہیں اگر روس ان ممالک کو تیل اور گیس فراہمی روک دے تو ان کی معیشت بیٹھ جائے گی۔ علاوہ ازیں جس طرح روس کی نئی پالیسی سامنے آئی ہے لگتا ہے امریکا اور روس ایک دوسرے سے سنگین لڑائی لڑاتے رہیں گے اور پراکسی وار بھی جاری رکھیں گے۔
جاری صورت حال میں اب جبکہ یورپی ممالک دو رائے میں تقسیم ہو رہے ہیں ایسے میں یورپ کے دو بڑے اہم ممالک برطانیہ اور فرانس اپنے اپنے طور پر اُلجھے ہوئے ہیں۔ برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن اپنی رہائش گاہ ٹین ڈائوننگ اسٹریٹ میں دوستوں کو پارٹیاں دینے میں جبکہ فرانس کے صدر ایمانول میکرون اپریل میں ہونے والے انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔
روس نے حال ہی میں مزید برّی فوج یوکرین کی سرحد پر لگا دی ہے، کہا جاتا ہے کہ یہاں ایک لاکھ سے زائد روسی فوجیوں کا اجتماع ہے۔ یورپی ممالک کے بیش تر مبصرین کی رائے ہے کہ جو یورپی ممالک تذبذب کا شکار ہیں امریکا ان پر خوب تنقید کرے گا پھر اپنی سفارت کاری کے ذریعے انہیں منانے کی کوشش کرے گا۔ گویا یہ بھی چھڑی اور گاجر کی سفارت کاری ہوگی۔
جرمنی کی رہنما انجیلا مرکل کے روس سے اچھے تعلقات رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت انجیلا مرکل کی اپنی تین جماعتوں کی مشترکہ حکومت میں دراڑ آ گئی ہے ایسی سیاسی کمزور حالت میں وہ مؤثر سفارت کاری نہیں کر سکتی ہیں۔ حال ہی میں امریکی صدر بائیڈن نے یوکرین کے مسئلے پر 80 منٹ کی ویڈیو جاری کی ہے جس میں انہوں نے روسی صدر پیوٹن کو زور دے کر کہا کہ وہ یوکرین کے خلاف کوئی قدم اُٹھانے سے باز رہے بصورت دیگر روس کو شدید مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑے گا۔
واضح رہے کہ روس پر پہلے سے اقتصادی پابندیاں عائد ہیں، اس کی معیشت زیادہ بہتر نہیں ہے اب امریکا نے دھمکی دی ہے کہ مزید سخت پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔ امریکا کے تمام بیانات اور وارنگز کے باوجود روسی صدر نے اپنا کام کر دیا ہے۔ روسی برّی اور بحری فوج یوکرین کا مکمل محاصرہ کر چکی ہیں۔ واشنگٹن میں ترجمان نے کہا کہ پینٹاگون بھی پوری تیاری کر چکا ہے ہمیں پل پل کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔
یہ روس کی بلیک میلنگ ہے وہ یہ ڈراما رچا کر اپنے پر عائد اقتصادی، تجاری اور ثقافتی پابندیاں ہٹوانا چاہتا ہے یا نرم کروانا چاہتا ہے مگر اس پر مزید پابندیاں عائد کرنے پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے۔روس کے ممکنہ مسئلے کے حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ آرٹلری سے حملہ کرے گا، سائبر اسپیس حملہ کرے گا یا میزائلوں، ڈرون سے حملہ کرے گا۔ کچھ سفارت کاروں کا خیال ہے کہ روس یوکرین کی موجودہ حکومت کو برطرف کرکے اپنے حامیوں کی حکومت بنا سکتا ہے۔ اس معاملے میں یورپی رہنمائوں کو بھی اندازہ نہیں ہے کہ روس کس طرح جنگ لڑے گا۔ امریکی صدر بائیڈن اشارہ دے چکے ہیں کہ روس فروری کے مہینے میں یوکرین پر حملہ کرے گا۔
مگر یوکرین کے صدر نے ایک بیان میں کہا کہ اس مسئلے میں جتنا امریکا مداخلت کرے گا مسئلہ خطرناک ہوتا جائے گا۔ ہر چندکہ روس ہم پر حملہ کرنا چاہتا ہے مگر ہم دونوں پڑوسی ممالک ہیں اس مسئلے کو سفارت کاری کے ذریعہ پُرامن طور پر حل کر سکتے ہیں، حالانکہ یہ کھلا راز ہے کہ یوکرین نے ہی امریکا اور نیٹو سے روس کے خلاف مدد مانگی تھی۔ تاہم نیٹو یوکرین کو ہتھیار فراہم کررہا ہے اور یوکرین کے فوجیوں کو تربیت بھی دے رہا ہے۔ نیٹو کے نزدیک یوکرین کی اہمیت واضح ہے۔ نیٹو کا کہنا ہے کہ روس ہتھیاروں کی فراہمی میں رُکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے۔ روس کی تمام تر توجہ اس پر ہے کہ مشرقی یورپی ممالک کو امریکا اور یورپی یونین کے دائرۂ اَثر میں جانے سے روکے۔
کہا جا رہا ہے کہ عنقریب فرانس اور جرمنی کے سربراہان ماسکو جا رہے ہیں جہاں وہ تیل اور قدرتی گیس کی فراہمی کے لئے اور علاقہ میں کشیدگی کم کرنے کے لئے روسی صدر پیوٹن سے بات چیت کریں گے۔ فرانس کے صدر میکرون نوجوان زیرک اور فعال رہنما ہیں ان کی کوشش ہے کہ یورپ کو عالمی معاملات میں اہم کردار ادا کرنے کے مواقع میسر آئیں۔ اکثر رہنما امریکا کے اَثر سے نکلنے کے بھی خواہاں ہیں۔
اس وقت یورپی یونین کی صدارت فرانس کے صدر میکرون کے پاس ہے۔ فی الفور وہ اپریل میں ہونے والے انتخابات کی تیاری میں مصروف ہیں۔ فرانس اور برطانیہ دونوں ایٹمی طاقت ہیں۔ لڑاکا طیارے، بیلیسٹک میزائل اور دیگر جدید ہتھیار اپنے ملکوں میں تیار کرتے اور انہیں عالمی مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں۔ برطانیہ کی طرف سے اس پر مذمت کی گئی تھی، مزید کوئی سرگرمی نظر نہیں آئی البتہ فرانس اور جرمنی یوکرین کے مسئلے کو جلد از جلد ٹھنڈا کرنا چاہتے ہیں تا کہ اس خطّے میں پھیلی ہوئی کشیدگی کم ہو جائے اور جنگ کا خطرہ ٹل جائے، تاہم روسی صدر کے رویئے میں کوئی لچک دکھائی نہیں دے رہی ہے۔
آج کی تیز رفتار دُنیا میں ہر ملک کےقومی مفادات الگ الگ ، مسائل الگ الگ ہیں۔ ایسے میں ریاستوں کی دوستی تعاون اور تنازعات بھی مفادات کے تابع ہوتے ہیں۔ گزشتہ چند ماہ سے تیل کی عالمی منڈی میں دوبارہ قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس حوالے سے عالمی معیشت پر اس کے مہیب اَثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس معاملے میں روس کا پلّہ بھاری ہے۔ روس رقبے کے لحاظ سے دُنیا کا سب سے بڑا ملک ہی نہیں بلکہ دُنیا کے تیل اور قدرتی گیس کے ذخائر بھی سب سے زیادہ ہیں۔
شمالی روس جو قطب شمالی کےقریب ہے اس ساحل پر اور روس کےبرفانی خطّہ سائبیریا میں قیمتی معدنیات کے ذخائر وافر مقدار میں موجود ہیں۔ روسی صدر پیوٹن نے مختلف علاقوں میں معدنیات نکالنے کے لئے کھدائی کا کام شروع کروا دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر روس نے آدھی معدنیات بھی نکال لیں تو وہ نہ صرف دُنیا کا سب سے امیرترین ملک بن جائے گا بلکہ سب سے بڑی سپر پاور بھی بن جائے گا۔
1917ء کے اشتراکی انقلاب کے بعد روسی معیشت بہت بہتر تھی، زرعی پیداوار اطمینان بخش تھی۔ انقلابی حکومت نے تعلیم، تحقیق اور سائنسی علوم پر بھرپور توجہ کی، ساٹھ کے عشرے میں روس نے خلاء میں سیارچے روانہ کئے۔ پہلا خلانورد گگارین خلاء میں گیا۔ اس دور میں امریکا اس دوڑ میں پیچھے تھا پھر جلد ہی روس اور امریکا کی خلائی دوڑ شروع ہوئی اس میں روسی معیشت شدید دبائومیں آ گئی۔
دُوسری طرف روسی رہنما جوزف اسٹالن کی سخت گیر پالیسیوں کی وجہ سے روسی معیشت اور سیاست بحران کا شکار ہوگئی۔ ستّر اور اَسّی کےعشروں میں روس کے عوام میں بڑی بے چینی پھیل گئی۔ اَسّی کی دہائی میں صدر گوربا چوف نے باگ ڈور سنبھالی۔ انہوں نے بند اشتراکی معاشرے میں چند کھڑکیاں کھولیں اور معیشت بحال کرنے کے اقدام کئے مگر عوام میں بے چینی بڑھتی رہی جو انقلاب غربت دُور کرنے، مساوات قائم کرنے کےنام پر برپا ہوا تھا اب وہاں کے عوام اس سے کمیونسٹ پارٹی سے تنگ آ چکے تھے۔
ریڈاسکوائر احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کا مرکز بن گیا مگر گوربا چوف کی حکومت نے کہیں لاٹھی چارج، آنسو گیس تک کا استعمال نہ کیا۔ آخر ان کی جگہ یلسن صدر بن گئے۔ سوویت یونین منتشر ہوگیا پندرہ ریاستیں الگ ہوگئیں جس میں یوکرین بھی شامل تھا۔ 1991ء کا یہ روسی انقلاب عوامی انقلاب تھا۔
اس تمام ہنگامہ خیزی کے دوران ایک گولی نہیں چلی۔ بالآخر واپس روس وجود میں آ گیا۔ پھر بھی دُنیا کا رقبہ کے لحاظ سے بڑا ملک ہے۔ روس کا ایک بڑا کارنامہ کہہ سکتے ہیں اس نے اسٹالن گراڈ کی عظیم اور خوفناک جنگ میں جرمنی کے ہٹلر کی فوجوں کو شکست دی اور فاشزم کو ختم کیا۔ ہٹلر کی وار مشین دُنیا کی سب سے بڑی اور طاقتور تھی۔
جرمن فوجیں لندن فتح کرنے کے لئے نکلی تھیں ایسے میں برطانیہ کی حالت بہت بُری تھی لگتا تھا کہ جرمن فوجیں وہاں کسی کو زندہ نہیں چھوڑیں گی مگر یکایک ہٹلر نے حکم دیا کہ انگلینڈ سے پہلے روس پر ٹوٹ پڑو۔ انگلینڈ لے لیں گے۔ ایسے میں جرمن وار مشین روس کے بڑے تاریخی شہر اسٹالن گراڈ میں داخل ہوگئی، بڑی گھمسان کی جنگ ہوئی گھر گھر لڑائی ہوئی۔ انقلابی دستے بھی جنگ میں شامل ہوگئے یہ بڑی اور تباہ کن جنگوں میں سے ایک تھی۔
جرمن فوج بکھر گئی اور جونہی برف باری شروع ہوئی ٹینک بکتربند گاڑیاں برف میں پھنس گئیں۔ جرمنی کو شکست ہوئی۔ بعدازاں ہٹلر نے خودکشی کر لی۔ ہٹلر اگر برطانیہ فتح کر لیتا پھر روس کی طرف توجہ دیتا تو شاید تاریخ بدل جاتی۔ ایسی ہی غلطی چنگیز خان سے بھی ہوئی تھی مصر فتح کرنے چلا مگر آدھے راستے سے اپنے جرگہ میں چلا گیا کہ واپسی پر مصر فتح کر لوں گا مگر چنگیز خان کو واپس آنا نصیب نہیں ہوا۔
اب یوکرین کا مسئلہ جس طرح اُلجھتا جا رہا ہے بڑی طاقتیں اس میں شریک ہوتی جا رہی ہیں، ایسے میں بڑے خدشات نمایاں ہیں۔ اگر جنگ ہوئی تو بہت تباہی بربادی ہوگی، معلوم نہیں کیا کیا ہو جائے گا۔ اس دوران ایک یہ افواہ بھی گردش کر رہی ہے کہ روس محض دکھاوے کے لئے یوکرین میں مداخلت کرے گا۔ چھوٹی موٹی لڑائی لڑے گا اور یوکرین اپنا کچھ حصہ جو مشرقی سرحد کا میدانی علاقہ ہے روس کو دے دے گا اور ساتھ ہی یوکرین روس کو یہ یقین دلا دے گا کہ وہ نیٹو کا رُکن نہیں بنے گا۔
اس افواہ میں کتنی صداقت ہے یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے۔ روس نے ایک لاکھ سے زائد فوجی اور جدید ہتھیاروں کے سرحد پر ڈھیر لگا دیئے ہیں۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ جرمنی زبانی یوکرین کی حمایت کر رہا ہے مگر ہتھیار یا مالی مدید فراہم نہیں کر رہا ہے۔ اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ روس اور جرمنی کے مشترکہ معاہدہ کے تحت روس نے جرمنی تک ڈبل پائپ لائن بچھائی جو عنقریب جرمنی کو تیل اور گیس کی فراہمی شروع کر دے گی۔
جرمنی اس دبائو میں ہے کہ اگر روس کی ناراضی مول لی تو تیل گیس نہیں ملے گا۔ یورپی یونین کے ایک فوجی کمانڈر نے کہا کہ اگر روس تیل کی دھمکی دیتا رہا تو ہم خود تیل کی پائپ لائن اُڑا دیں گے۔ یوکرین نے جرمنی کو درخواست ارسال کی کہ وہ ایک لاکھ ہیلمٹ، اور سیفٹی جیکٹس امداد میں دے۔ اس کے جواب میں جرمنی کے ایک فوجی افسر نے کیف کے میئر کو خط لکھا کہ جرمنی آپ کو پانچ ہزار ہیلمٹ روانہ کر رہا ہے۔
اس کے جواب میں میئر نے اس افسر کو خط لکھا کہ اس کے ساتھ پانچ ہزار تکئے بھی بھجوا دیں۔ یہ میئر کا غصّہ تھا۔ دُوسری جانب امریکا میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر بائیڈن پر نکتہ چینی کرتے ہوئے بیان دیا ہے کہ یوکرین کا مسئلہ یورپ اور نیٹو کا مسئلہ ہے امریکا کواس میں ٹانگ اَڑانے کی ضرورت نہیں۔ برطانیہ کے وزیراعظم اب مشرقی جرمنی کے دورے پر گئے ہیں وہ خطّہ میں کشیدگی کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اگر یورپی ممالک خواہ وہ مشرقی یورپ ہی کیوں نہ ہو جنگ کی لپیٹ میں آ جاتا ہے تو یورپی یونین سمیت برطانیہ بھی جنگ کی آگ کے شعلوں میں گھر سکتا ہے۔
ایسے میں فرانس، برطانیہ، جرمنی بھاگ رہے ہیں کہ کشیدگی کم کرو مگر تاحال روسی صدر پیوٹن ٹَس سے مَس نہیں ہو رہے ہیں۔ امیر قطر نے حال ہی میں ایک بیان کے ذریعہ یورپی ممالک کو پیش کش کی ہے کہ اگر روس تیل اور گیس کی ترسیل روک دیتا ہے تو قطر تیل اور گیس فراہم کر سکتا ہے اس نازک موقع پر قطر کی یہ پیش کش بڑی اہمیت کی حامل ہے۔
دُوسری اہم خبر یہ آ رہی ہے کہ چین اور بھارت کو سب سے زیادہ قدرتی کوئلہ روس فراہم کرتا ہے اگر جنگ چھڑ گئی تو قدرتی کوئلہ کی دستیابی بند ہو جائے گی۔ چین اپنے قدرتی کوئلہ کے ذخائر ختم کر چکا ہے اب چین کو قدرتی کوئلہ امپورٹ کرنے کی ضرورت ہے۔
یہی کچھ صورت حال بھارت کو درپیش ہے۔ بھارت کی ستّر فیصد سے زائد بجلی قدرتی کوئلہ کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ روس کے بعد کوئلہ کی سب سے زیادہ پیداوار انڈونیشیا میں ہوتی ہے مگر انڈونیشی حکومت نے چین اور بھارت کو کہہ دیا ہے کہ ہم اپنی گھریلو ضروریات کے لئے ڈیڑھ دو ماہ تک کسی کو قدرتی کوئلہ فراہم نہیں کر سکتے۔ ان حالات میں اوپن مارکیٹ میں بھی قدرتی کوئلہ نایاب ہے۔
آخری بات یہ کہ یورپی یونین کے ایک سفارت کار نے ایک بیان دیا ہے مگر اپنا نام پوشیدہ رکھا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ روس نے جو ہتھیار یوکرین کی سرحد پر جمع کئے ہیں ان میں تمام ہتھیار جدید ہیں۔ دُوسری جانب امریکا نے جو ہتھیار یوکرین کو دیئے ہیں وہ جدید ترین ہتھیار ہیں۔ اس طرح دیگر ممالک جو ہتھیار دے رہے ہیں وہ بھی جدید ہتھیار ہیں۔
یوکرین کی جنگ میں ان تمام ہتھیاروں کی ٹیسٹنگ ہوگی۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ شام کی سول وار میں امریکا موجود تھا پھر روس کود پڑا پھر چین نے بھی اپنا ہاتھ دکھایا، یہ سب شام میں اپنے اپنے ہتھیار استعمال کر رہے تھے اور ان کو ٹیسٹ کر رہے تھے۔ منشا یہ ہے کہ بعداَز جنگ ان ہتھیاروں کی مارکیٹنگ کی جائے گی۔
واضح رہے کہ آدھی دُنیا اپنے لئے ہتھیار خریدنے کے لئے دو ٹریلین ڈالرز سے زائد کا بجٹ رکھتی ہے۔ امریکا کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈّی ہتھیاروں کی فروخت ہے۔ اب روس اس کا حریف بن کر میدان میں آ گیا ہے۔ گزشتہ دس بارہ برسوں سے روسی سائنس دانوں اور ماہرین کو صدر پیوٹن نے جدید سے جدید تر ہتھیاروں کی تیاری کے مشن پر لگایا ہوا تھا۔ اب روس اس کا ثمر کھانا چاہتا ہے۔ اس پُراسرار سفارت کار کی بات میں کچھ نہ کچھ سچائی ضرور ہو سکتی ہے۔
مگر یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ روس کا یہ ڈرامہ اپنے پر عائد اقتصادی اور ثقافتی پابندیاں ہٹوانے یا نرم کروانے کے لئے ہے اس کے ساتھ روس نے مشرقی یورپ کو خبردار کر دیا ہے کہ کوئی نیٹو کا رُکن نہ بنے۔ روسی صدر پیوٹن کو یورپی ممالک نہایت چالاک اور تجربہ کا قرار دیتے ہیں۔ ماضی میں کے بی جی کے ڈپٹی ڈائریکٹر رہ چکے ہیں وہاں سے وہ سیاست میں وارد ہوئے تھے۔ صدر پیوٹن کو امریکا سے زیادہ نیٹو اور یورپی یونین سے پرخاش ہے کیوں کہ یورپ ہر لحاظ سے دُنیا کا بہترین خطّہ ہے۔ کہتے ہیں یورپ ،یورپ ہے۔
یورپی یونین 27ممالک کی تنظیم ہے۔ یورپی یونین کا قیام 1999ء میں ہوا۔ بیلجیم کا دارالخلافہ برسلز میں یونین کا مرکزی دفتر ہے۔ یونین میں برطانیہ کے سوا تمام چھوٹے بڑے ممالک یونین کے مستقل رُکن ہیں۔ یونین کے قیام کام مقصد سیاسی اور معاشی اتحاد قائم کرنا ہے۔ یونین کا رقبہ سولہ لاکھ مربع میل کے قریب ہے۔ مجموعی آبادی چار سو اڑتالیس ملین نفوس پر مشتمل ہے۔ یورپی یونین کےاراکین ممالک کے باشندے فری ویزا ایک دُوسرے ممالک میں آسکتے جا سکتے ہیں۔
سامان کی ترسیل آزادانہ طور پر ہوتی ہے۔ یورپی یونین نے تجارت زراعت اور ماہی گیری کو مختلف پابندیوں سے آزاد کر دیا ہے۔ یونین کے علاقے کو شتیزن بھی کہا جاتا ہے۔ یورپی یونین کے قیام اور اس کے پروگرام کو سراہتے ہوئے 2012ء کا امن کا نوبل انعام یونین کو دیا گیا تھا کہ پڑوسی ممالک کے ساتھ ایسے تعلقات استوار کرنے اوربھائی چارہ کی فضا قائم رکھنے پر دیا گیا۔
یورپی یونین کی مجموعی آمدنی 23 ٹریلین ڈالرز ہے جبکہ فی کس سالانہ آمدنی 42 ہزار ڈالر سے زائد ہے۔ یورپی یونین بڑی عالمی طاقت ہے جس کے پاس جوہری ہتھیاروں سمیت دُنیا کے تمام جدید ترین ہتھیار موجود ہیں۔ جدید انفرا اسٹرکچر کا جال بچھا ہے۔ دُنیا کی تمام جدید سہولتیں موجود ہیں۔ بیش تر معاملات میں یونین امریکا سے آگے ہے جبکہ بعض معاملات میں امریکا اس سے آگے ہے۔ دونوں اپنی اپنی جگہ سپر پاور ہیں۔ اتحادی بھی ہیں۔ رس کا فوری مقابلہ یورپی ممالک سے ہی ہوگا۔
روس فروری میں یوکرین پر حملہ کر سکتا ہے
امریکی صدر جوبائیڈن نے خبردار کیا ہے کہ روس فروری کے مہینے میں یوکرین پر حملہ کر سکتا ہے۔ حال ہی میں وائٹ ہائوس کی طرف سے صدر کا بیان جاری کیا گیا ہے۔ صدر جوبائیڈن نے اقوام متحدو کو درخواست دی ہے کہ فوری طورپر یوکرین کے مسئلے پر سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا جائے جبکہ کریملین کی طرف سے بھی ایک بیان جاری ہوا ہے جس میں روسی صدر نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب کوئی اُمید نظر نہیں آتی کہ یوکرین کے مسئلے کا حل نکالا جائے، امریکا نے ہمارے مطالبات رَدّ کر دیئے ہیں۔
نیٹو نے روس کو ایک بار کہا ہے کہ وہ مشرقی یورپ سے اپنی فوجیں ہٹا لے اور یوکرین کا محاصرہ ختم کر دے۔ ماسکو میں اخباری سروے میں بتایا گیا ہے کہ روس کے عوام جنگ نہیں چاہتے اخبار نے ماسکو یونیورسٹی کے طلبہ میں سروے کیا۔ طلبہ کا ایک ہی جواب تھا کہ جنگ صرف تباہی بربادی کا دُوسرا نام ہے۔ امریکی صدر نے ایک اور بیان میں کہا کہ اگر روس نے یوکرین پرحملہ کیا تو جرمنی نئی تیل کی لائن استعمال نہیں کرے گا۔ جرمنی نے بیان میں کہا کہ نئی تیل کی لائن شروع نہیں ہوئی اور اس کا تاحال سروے بھی نہیں کیا گیا۔
روس سے مذاکرات میں چوکس رہیں
یوکرین کے وزیرخارجہ نے برطانیہ سمیت امریکہ، فرانس اور جرمنی کو ایک خط ارسال کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مغربی رہنما روس سے مذاکرات میں چوکس رہیں کیونکہ برطانیہ کے ویراعظم بورس جانسن نے حال ہی میں کہا کہ وہ جلد ماسکو جائیں گے اور روسی صدر پیوٹن سے مذاکرات کریں گے۔ خط میں مزید کہا گیا ہے کہ روسی صدر مذاکرات کی میز کے سپہ سالار ہیں وہ گھما پھرا کر بات کرنے کے عادی ہیں اور بات چیت میں ان الفاظ کا استعمال کرتے ہیں جو ذومعنی ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ چونکہ وہ سوویت یونین کے منتشر ہونے کے وقت روسی خفیہ ادارے کے بی جی کے ڈپٹی ڈائریکٹر تھے وہاں سے استعفیٰ دے کر سیاست میں آ گئے۔ صدر پیوٹن دراصل روس پر سے اقتصادی پابندیاں ختم کرانا یا نرم کرانا چاہتے ہیں جبکہ امریکی صدر نے واضح طور پر کہا ہے کہ اگر روس نے یوکرین کے خلاف کوئی قدم اُٹھایا تو روس پر مزید سخت پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔