کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے اسلام آباد سے کراچی جانے والی پرواز پر جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن محو سفر تھے۔ ان کے دائیں اوربائیں جانب پیپلزپارٹی کے سابق چیئرمین سینٹ رضا ربانی اور اسی جماعت کے کراچی سے رکن قومی اسمبلی آغا رفیع بیٹھے تھے۔ یہ محض اتفاق تھا کہ تینوں ایک پرواز میں اکٹھے تھے۔
فضل الرحمٰن نے کراچی میں کسی شادی میں شرکت کرنا تھی اور باقی دونوں رہنما پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کے بعد کراچی اپنے گھروں کو جارہے تھے۔ تینوں رہنما آپس میں ہلکی پھلکی باتیں کرتے سنجیدہ موضوعات میں داخل ہوئے تو ایک موقع پر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ملک میں " اسٹیبلشمنٹ کی طاقت مستقل رہے گی البتہ اقتدار کے لیے لبرل اور مذہبی جماعتوں میں کھینچا تانی یوں ہی رہے گی"۔
ایک معزز رکن پارلیمنٹ کی طرف سے سنایا جانے والا یہ واقعہ میرے لیےحیران کن نہیں تھا کیونکہ مولانا فضل الرحمٰن کے ایسے ہی نظریات ان سے براہ راست ملاقات میں بھی سن چکا تھا۔
مولانا فضل الرحمٰن عام آدمی نہیں بلکہ غیر معمولی شخصیت ہیں وہ ملک میں پارلیمانی نمائندگی کے حوالے سے سب سے بڑی مذہبی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں ، ان کی جماعت کم وبیش 4 دہائیوں سے ملک میں اکثریتی مذہبی سیاست کررہی ہے۔ پاکستان میں تیزی سے بڑھتی آبادی اس آبادی کو انکی معاشی ضروریات کے لیے عصری تقاضوں کی حامل تعلیم کی عدم فراہمی ، روزگارکے وسائل کی کمی اور مستحکم بلدیاتی نظام سے جڑی مضبوط جمہوریت کی عدم موجودگی میں گھٹن کا یہ ماحول شدت پسند مذہبی جذبات کی آبیاری ضرورکررہا ہے۔
ایسے میں اسٹیبلشمنٹ کے مستقل کنٹرول کے بارے میں حقائق مستقبل کے چند ممکنہ منظر نامے ضرور تشکیل دیتے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے 1947 میں جو پاکستان قائم کیا تھا وہ1971 میں ختم ہوگیا۔ ملک ٹوٹنے کے بعد جو بکھرا ہوا پاکستان بچا تھا اسے بچانے کے لیے فوج یا اسٹیبلشمنٹ نے اقتدار ایک مقبول سیاستدان بھٹو کو سونپا۔
بدقسمتی سے بھٹّو دورمیں ہمارے خفیہ ادارے آئی ایس آئی میں سیاسی سیل کا قیام، پارلیمنٹ کی مذہبی اجارہ داروں کے ہاتھوں یرغمالی اورافغانستان کے امورمیں مداخلت جیسے واقعات رونما ہوئے جنہوں نے ریاست کی ایک نئی سمت متعین کی جو تھوڑی بہت تبدیلیوں کےساتھ آج تک نہیں بدلی۔ بھارت سے مخاصمت اس کا ایک مستقل حصہ ہے ظاہرہے اس میں بھارت کا بھی ایک کردارہے۔
بھٹو کو گھر بھیجنے کے بعد ضیاالحق نے مذہب کے ریاست میں کردار کو نئی بلندیوں پرپہنچایا۔ اس وقت سے اب تک ملک میں اسٹیبلشمنٹ کا اقتدار مستقل اور خارجہ و دفاع کے امور پر فیصلہ سازی میں کردار حتمی نوعیت کا ہے۔ حالیہ سالوں میں اسٹیبلشمنٹ داخلی سیکورٹی اور معیشت جیسی اضافی ذمہ داریاں بھی شوق سے اٹھارہی ہے۔
ضیا الحق کے بعد لبرل جماعت پیپلز پارٹی اوردائیں بازو کی معتدل جماعت ن لیگ کو جزوی اقتدار دیا جاتا رہا۔ مشرف دور میں دونوں جماعتوں کو اقتدارسے دوررکھنے کی ضرورت پڑی تو دونوں کے بطن سے ق لیگ تخلیق کی گئی بعدازاں ق لیگ کے اکثراجزا تحریک انصاف کی تعمیر میں استعمال کیے گئے ۔ مشرف کے بعد پیپلزپارٹی اور ن لیگ اپنے ادوار میں ریاست کی سمت تبدیل کرنے اور ایک مضبوط جمہوری معاشرہ قائم کرنے میں ناکام رہے۔ان کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار میں آنے والے عمران خان ایک مضبوط وزیراعظم کے طورپرسامنے آئے مگرریاستی سمت پھربھی نہ بدلی۔عالمی نوعیت کی کچھ پابندیوں کے باعث اب شدت پسندوں کو خارجہ پالیسی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا عمل تو محدود ہو گیا ہے لیکن شدت پسند مذہبی جماعتوں کو ملک کا داخلی منظرنامہ تشکیل دینے کے لیے تخلیق کرکے فروغ ضروردیا جارہا ہے۔ سال 2021 میں پنجاب میں ایک شدت پسند مذہبی رجحان کی جماعت کو کالعدم قراردے کردوبارہ بحال کرنا اسی کی ایک مثال ہے۔صورتحال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نےان جماعتوں کو خارجہ پالیسی اور پھر سیاسی منظرنامے کی تشکیل کے لیے استعمال تو کیا ہے تاہم ابھی تک انہیں براہ راست اقتدار نہیں دیا لیکن کیا یہ باہمی تعلق یونہی قائم رہے گا؟میرے ایک افغان دوست کا خیال ہے کہ مذہبی جماعتیں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کےکنٹرول میں بدستورکام کرتی رہیںگی البتہ یہ بات میری سمجھ سے بالا ہے۔ آبادی کے تباہ کن سیلاب،انحطاط پذیر تعلیمی نظام اور دن بدن مشکل ہوتی معاشی صورتحال کے ساتھ شدت پسند نظریات کا فروغ ایک فطری عمل ہے۔آج نہیں تو کل مذہبی جماعتیں اقتدارحاصل کرہی لیں گی ۔ فرض کریں ایسا نہ بھی ہوا تو کمزور سیاسی جماعتوں کے وزرائےاعظم ان جماعتوں کے بدستوریرغمال رہیں گے۔ اقتدارمعتدل مزاج سیاسی جماعتوں کا ہوگا مگر اہم امور پر اختیار مذہبی اجارہ داروں کا ہی ہوگا۔ سوال مگریہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ مذہبی رجحانات کے فروغ کا کیا خود اسٹیبلشمنٹ پر اثر نہیں پڑے گا؟ کیا یہ عناصرخود اسٹیبلشمنٹ کو کنٹرول کرنے کی کوشش نہیں کریں گے؟اسٹیبلشمنٹ یقینی طور پر طاقتور ہے اور مذہبی عناصرکو کنٹرول کیے ہوئے ہے مگر یہ توازن ہمیشہ قائم رکھنا شاید مشکل ہوگا۔اگرشدت پسند وں نے بالواسطہ یا بلاواسطہ پاکستان پر قبضہ کرلیا تویہ پورے پاکستان ہی کیلئے نہیں بلکہ خود اسٹیبلشمنٹ کے لیےبھی خطرناک ہوگا۔یہ ایسا بھیانک منظرنامہ ہوگا کہ جس میں عالمی دنیا بھی پاکستان سے منہ پھیرلے گی، پاکستان کوکنٹرول کرنے کے لیے پابندیاں عائد کی جائیں گی جس سے ملک کے اندرمعاشی حالات مزید ابتر ہونگے ملک کے اندرخانہ جنگی کا خطرہ بھی پیدا ہوجائے گا۔ ایسے میں عالمی و علاقائی قوتیں بھی حالات کنٹرول کرنے کے نام پر مداخلت کرسکتی ہیں یہ 71 جیسی صورتحال ہوسکتی ہے۔ ظاہر ہے یہ سب کچھ موجودہ پاکستان کے لیے ٹھیک نہیں ہوگا لیکن کیا اس وقت پھرنیا پاکستان بنے گا؟
اس صورتحال میں کیاپاکستان بنگلہ دیش کی طرح ازسرنو نیا تصورقوم تشکیل دے گا یا افغانستان کی طرح مستقل عدم استحکام کی ایک نئی صورت اختیارکرلے گا، کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ پاکستان کے مستقبل کے بارے میں سب سے زیادہ بھیانک تصوریہ ہے کہ یہ ملک ایسے ہی چلتا رہےجیسے آج یا پچھلی چند دہائیوں سے چل رہا ہے۔