ملکی منظر نامہ ایک بار پھر تلاطم کا شکار ہے ، امریکی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے جتنا کچھ پاکستان نے اپنے طور پر کیا ہے اس کا بظاہر کوئی بھی فائدہ نظر نہیں آرہا ہے کیونکہ ایک طرف امریکی صدر نے مسلسل پاکستان کو نظر انداز کیا ہوا ہے تو دوسری طرف چین بھی ہم سے ناراض ہو چکا ہے،ایران اور افغانستان بھی ہمارے پلڑے میں نہیں رہے ہیں،ان حالات میں وفاقی وزیر اطلاعات کی جانب سے امریکہ چین تعلقات کی بہتری کیلئے پل کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کھوکھلی سی لگتی ہے۔
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی قیادت کی اچانک ملاقاتکے بعد چہ مگوئیاں شروع ہوگئی ہیں کہ اگر یہ اتنی ہی اہم ملاقات تھی تو مولانا فضل الرحمان کی موجودگی کیوں یقینی نہ بنائی گئی؟ سیاسی حلقے برملا کہہ رہے ہیں کہ فی الحال یہ ملاقات سیاسی منظر نامے پر کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا پائے گی، اگر اپوزیشن کی دو بڑی پارٹیاں اتنی ہی سنجیدہ ہیں تو سینیٹ میں قانون سازی کے وقت اسے شکست کیوں ہوئی ؟
گزشتہ ڈیڑھ مہینے میں حکومت کے گرنے کی جتنی خبریں چار سو پھیلیں اتنی ہی خبریں اب حکومت کے نہ جانے اور مدت پوری کرنے کی پھیل رہی ہیں،اسکی وجہ یہ ہے کہ عدم اعتماد سے محض ان ہائوس تبدیلی کیلئے نہ تو میاں نواز شریف راضی ہیں اور نہ ہی پیپلز پارٹی کسی طرح خوش ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف کسی عبوری، کمزور یا مشروط سیٹ اپ کا حصہ بننے کیلئے ہرگز تیار نہیں ہیں، وہ جھوٹے مقدمات کے اخراج، فوری نئے آزادانہ اور شفاف انتخابات سے کم پر راضی نہیں ہیں۔
ان کا ماننا ہے کہ شفاف انتخابات کے بعد بننے والی نمائندہ حکومت ہی ملک کی قسمت بدل سکتی ہے، وہ اس بات پر بھی سنجیدہ ہیں کہ موجودہ حکومت کو شہید بننے کا نہ موقع دیا جائیگا اور نہ ہی اسکا جنازہ اٹھانے کیلئے کندھا فراہم کیا جائیگا۔ سچ تو یہ بھی ہے کہ معاشی پالیسیوں، ہوش اڑا دینے والی مہنگائی، کوہ ہمالیہ کی چوٹی کو چھوتی پٹرول کی قیمت اور بجلی کے بلوں میں فیول ایڈجسمنٹ نامی عوام کش میزائل نے حکومت کی بچی کھچی ساکھ کو مکمل طور پر ملیا میٹ کر دیا ہے،شدید مہنگائی نے نا صرف حکومتی دعوئوں کو ہوا میں اڑا دیا بلکہ عوام سفید پوش آدمی بھی دو وقت کی روٹی کو ترسنے پر مجبور ہوگیا ہے ۔
عوام کھلے عام خون کے آنسو رو رہے ہیں کہ ترقی کی راہ پر گامزن اچھے بھلے ملک کو دیوالیہ کرنے والے بضد ہیں کہ ملک صحیح سمت پر جارہا ہے، ترقی کے حکومتی دعوں پر عوام کا کہنا ہے کہ یہ کیسی ترقی ہے کہ غریب فاقوں اور خودکشیوں پر مجبور ہیں،13فیصد افراط زر نے پاکستان کو مہنگے ترین ممالک کی فہرست میں کھڑا کردیا ہے جس پر عوام سخت سیخ پا ہیں۔معاشرتی سائنسدانوں سے لیکر انتظامی ماہرین تک سب کا کہنا ہے کہ میاں نوازشریف عوامی نظریہ ضرورت بن چکے ہیں ، کہا جارہا ہے کہ انتخابات میں ووٹ نواز شریف کے نام پر ہی ڈالے جائیں گے، انکی واپسی ہو یا نہ ہو لیکن عوامی حلقوں میں میاں نواز شریف کی واپسی کا مطالبہ شدت پکڑتا نظر آرہا ہے ۔