• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یُوں تو ہمارے معاشرے میں سیدھے سادھے بھولے بھالے لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے مختلف روپ دھار لیےجاتے ہیں، جن میں سب سے زیادہ جعلی پیروں کا آستانہ مشہور ہے ۔ یہ جعلی پیر اپنے ساتھ ایسے لوگوں کو اپنا خلیفہ بنا کر انہیں معاشرے میں روشناس کراتے ہیں اور اپنی نام نہاد کرامات کا ڈھونگ رچا کر اور خاص طور پر علاقے کے بڑے لوگوں کے ساتھ تعلقات کو استوار کرتے ہیں اور پھر اس کا فائدہ لے کر ایسے افراد کو جو کہ کم پڑھے لکھے یا سادہ لوگ ہوتے ہیں، وہ اپنے جال میں پھنساتے اور پھر اس طرح سے ان کا کاروبار چمک اٹھتا ہے، اس طرح کی داستانیں جگہ جگہ بکھری ہوئی ہیں۔ 

شہید بینظیر آباد میں بھی اسی طرح کے کئی گروہ کام کر رہے ہیں، جن میں سے ایک دوڑ کے قریب گاؤں سارنگ ڈائری میں جعلی پیر کا آستانہ تھا، جہاں پر وہ لوگوں کو من کی مرادیں پُوری کرنے کے آسرے دے کر یا ان کو امید لا کر لوٹنے میں مصروف تھا۔ اس سلسلے میں ایس ایس پی امیر سعود مگسی میں بتایا کہ انہیں درخواست وصول ہوئی کہ ایک ماہ سے میراثی قبیلے کی چار خواتین اور دو بچے اور ان کے ساتھ دو مرد ایک جعلی پیر کے آستانے پر قید ہیں اور پیر نے انہیں ان کے من کی مراد پُوری کرنے کا جھانسہ دے کر اپنی قید میں رکھا ہوا ہے، اس سلسلے میں پولیس پارٹی تشکیل دی گئی اور پولیس نے اس گاؤں پر چھاپہ مارا۔ 

اس سلسلے میں سی آئی اے انچارج مبین پرھیار نے بتایا کہ جب وہ گاؤں میں پہنچے، تو ایک عجیب منظر تھا، اس سے جعلی پیر کے آستانے پر بڑی تعداد میں لوگ اپنے من کی مرادیں پُوری کرنے کے لیے پہنچ رہے تھے، لیکن طرفہ تماشا یہ تھا کہ جب پولیس اس جعلی پیر کے آستانے پر پہنچی، تو جو لوگ ان کے مرید تھے۔ انہوں نے بھرپور مزاحمت کی اور اپنے پیر کا دفاع کرنے کے لیے میدان میں آگئے ، لیکن پولیس نے حکمت عملی کے ساتھ جعلی پیر کو اپنی حراست میں لیا اور ان خواتین اور بچوں کو جنہیں ایک ماہ سے قید میں رکھا گیا تھا، وہاں سے رہا کرایا۔ 

ایس ایس پی امیر سعود مگسی کا کہنا تھا کہ اس جعلی پیر کی اور بھی کئی شکایت موصول ہوئی تھیں اور پولیس نے اس آستانے کی ریکی کی اور وہاں پر آنے جانے والے لوگوں پر نظر رکھی اور اس سلسلے میں یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ نہ صرف ضلع شہید بینظیر آباد بلکہ حیدرآباد اور کراچی سے بھی لوگ اپنے من کی مرادیں پوری کرنے کے لیے اس جعلی پیر کے آستانے پر جوق در جوق آتے ہیں۔ 

اس سلسلے میں دل چسپ بات یہ ہے کہ اس طرح کا یہ ایک آستانہ نہیں، بلکہ ضلع شہید بینظیر آباد میں کئی دیگر آستانے بھی مشہور ہیں، جہاں پر اسی طرح کے جعلی پیر اپنی کرامات کا ڈھونگ رچا کر سیدھے سادے لوگوں کو بے وقوف بنانے میں مصروف ہیں، جب کہ دل چسپ بات یہ کہ نواب شاہ شہر کی ایک سرکاری کالونی میں مبینہ طور پر اسی طرح کا ایک آستانہ بھی موجود ہے، لیکن اس کے چاروں طرف سرکاری محکموں کے بیچ میں یہ آستانہ پوری آب و تاب کے ساتھ جاری ہے اور جب کہ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ یہاں پر آنے والوں کو مختلف بہانوں سے لوٹا جاتا ہے اور جب کہ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس آستانے کی جو زمین ہے، وہ سرکاری ملکیت ہے، لیکن نہ تو اس کو خالی کرانے کی کسی میں ہمت ہے اور نہ ہی اس جعلی پیر کے آستانے پر کسی کو کارروائی کرنے کی ہمت ہے دوسری جانب پولیس نے جو دوڑ کے قریب گاؤں سارنگ ڈائری میں جعلی پیر کے آستانے پر چھاپہ مارا اور وہاں سے چار خواتین اور 2 بچوں سمیت 8 افراد کو بازیاب کرا لیا۔ ان بازیاب ہونے والوں میں چار خواتین جن میں ریشماں، کلثوم، رابعہ اور عائشہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ دو مرد عاشق حسین اور فیاض حسین دو بچے بھی شامل ہیں۔ 

جب کہ ایس ایس پی امیر سعود مگسی کا کہنا ہے کہ لعل بخش شیخ نامی یہ پیر ایک عرصے سے یہاں پر اس طرح کی کارروائیوں میں ملوث تھا اور اس نے اپنے آستانے میں لوگوں کو ان کے من کی مرادیں پوری کرنے کا جھانسہ دے کر ان سے رقم اینٹھنے میں مصروف تھا، اس سلسلے میں اس جعلی پیر کے آستانے سے برآمد ہونے والی خواتین کا کہنا تھا کہ اس جعلی پیر نے ہمیں تعویذ کے بہانے اپنے آستانے پر بلایا اور ایک ماہ سے ہمیں اپنی قید میں رکھا ہوا تھا اور اس سلسلے میں اس نے ہم سے بھاری رقم وصول کی تھی۔ 

ان کا یہ کہنا تھا کہ ہم نے اس کو دھمکی دی تھی کہ ہم پولیس کو ساری حقیقت بتا کر اسے گرفتار کرا دیں گے، تو اس کے ساتھ موجود اس کے مریدوں نے جو کہ دراصل اس جعل سازی میں اس کے ساتھ شریک تھے، ہمیں ڈرا دھمکا کر ایک کمرے میں بند کر دیا اور کسی کو ہم سے ملنے کی اجازت نہیں دی، بلکہ ہمارے موبائل فونز بھی اپنے پاس رکھ لیے ۔ سی آئی اے انچارج مبین پرھیار کا کہنا تھا کہ خواتین اور بچوں کی گمشدگی کے بعد ان کے خاندان کے افراد نے پولیس سے رابطہ کیا اور پولیس نے مکمل تحقیقات کے بعد اسے گاؤں پر چھاپہ مارا اور یہاں سے ان لوگوں کو بازیاب کرا کر عدالت میں پیش کیا، جب کہ ملزم کے خلاف پرچہ درج کرکے کارروائی شروع کردی گئی ہے۔

دوسری جانب ایس ایس پی امیر سعود مگسی کا کہنا تھا کہ نہ صرف جعلی پیروں کے آستانوں پر لوگوں بے وقوف بنا کر ان سے رقم اینٹھنے کا سلسلہ بھی جاری ہے، بلکہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اس طرح کے جعلی پیر خواتین کے ساتھ زیادتی بھی کرتے اور انہیں جنسی تشدد کا بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے سماج دشمن عناصر کے خلاف پولیس بھرپور کارروائی کر رہی ہے، جب کہ انہوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ اگر اپنے اردگرد اسی طرح کے اگر کسی جعلی پیر کا آستانہ دیکھیں تو پولیس کو مطلع کریں، تاکہ اس کے خلاف کارروائی کی جاسکے اور سیدھے سادھے بھولے بھالے لوگوں کو ان کی لوٹ مار سے بچایا جا سکے ۔

پولیس کی جانب سے گٹکا مین پوری اور زیڈ اکیس کی فروخت کے خلاف کارروائی جاری ہے، لیکن اس کے باوجود ذرائع کا کہنا ہے کہ منشیات فروش اپنا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس سلسلے میں پولیس کا دعویٰ ہے کہ ان نشہ آور اشیا کی فروخت روک دی گئی ہے ، لیکن لیکن صورت حال یہ ہے کہ پہلے کے مقابلے میں کمی تو واقع ہوئی ہے، لیکن مکمل طور پر اس مہلک اور انسانی جسم کے لیے زہر ثابت ہونے والی اشیاء کی فروخت کو روکا نہیں جا سکا ہے۔ 

اس سلسلے میں پولیس نے بی سیکشن تھانے کی حدود میں کام یاب کارروائی کی جس میں ایس ایچ او تھانہ بی سیکشن انسپکٹر ثناء اللہ پر مشتمل ٹیموں نے گنجان آباد علاقے میں قائم منشیات گٹکا مین پوری کے سب سے بڑے اڈے کو گھیرے میں لے لیا اور چھاپہ مار کارروائی کے دوران ملزمان اس کے گھر کی دیوار پھلانگ کر بھاگ نکلے پولیس منشیات فروش کے گھر پر چھاپہ مار کر بڑی مقدار میں منشیات برآمد کر کے ملزم ذاکر بلوچ کو گرفتار کرنے میں کام یاب ہوگئی۔ اس سلسلے میں انسپیکٹر ثناء اللہ نے بتایا کہ ملزمان عرصہ سے اس جگہ پر منشیات فروشی کا کام کر رہے تھے، لیکن پولیس نے کئی مرتبہ ان کے اڈے پر چھاپہ مارا، لیکن تنگ گلیوں کی وجہ سے بھرپور مزاحمت کی گئی اور ملزم سامان سمیت فرار ہونے میں کام یاب ہوگئے ۔ 

اسپیکٹر ثناءاللہ کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ پولیس نے پوری حکمت عملی کے ساتھ کارروائی کی اور ان کے اڈے کی سمت جانے والی تمام گلیوں کو گھیر لیا گیا اور اس کے بعد یہ کارروائی کی گئی ان کا کہنا تھا کہ اس کارروائی میں ایک اور ملزم اشفاق راجپوت کو بھی نشہ آور چھالیہ سمیت 27 ملزمان کے خلاف تھانہ بی سیکشن میں دو الگ الگ مقدمات درج کیے گئے ہیں اور ان کے خلاف ضابطے کی کارروائی شروع کی گئی ہے، اس سلسلے میں ایس ایس پی امیر سعود مگسی کا کہنا تھا کہ یہ منشیات فروش کنگ آف منشیات کے نام سے مشہور ہے۔ 

انہوں نے پولیس کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے عوام سے اپیل کی کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں منشیات و دیگر نشہ آور اشیاء کی فروخت کرتے ہیں، پولیس کو بتائیں تاکہ ان کے تعاون سے معاشرے کو گندہ کرنے والے اور نوجوان نسل کو کینسر جیسے مرض میں مبتلا کر کے انہیں تباہی کے دھانے پر پہنچانے والوں کا احتساب کیا جا سکے اور انہیں قانون کی گرفت میں لا کر سزا دلائی جا سکے۔ پولیس کی جانب سے اس کارروائی پر جو عوامی ردعمل سامنے آیا ہے اور اس سلسلے میں لوگوں کا کہنا ہے کہ پولیس نے اس مشہور اڈے پر کارروائی کرکے منشیات فروشوں کو گرفتار کیا ہے، لیکن ان کا یہ کہنا ہے کہ اصل منشیات فروش اب بھی قانون کی دسترس سے باہر ہیں۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید