• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: حافظ عبدالاعلیٰ درانی، بریڈفورڈ
برصغیر میں اسلام اور مسلمانوں کی دینی و سیاسی رہنمائی کے لیے جن لوگوں کانام سر فہرست آتا ہے ان میں غزنوی خاندان کا نام بہت نمایاں ہے۔ میری مراد قافلہ حریت کے سالار مولانا سید محمد داؤد غزنوی ہیں ، مولانا سید داؤد غزنوی امرتسر کے مشہور علمی خاندان کے فرد تھے، ان کے دادا عارف باللہ مولاناسید عبداللہ غزنوی رحمہ اللہ 1397ھ ، 1879ء میں غزنی(افغانستان) سے ہجرت کر کے امرتسر میں آباد ہوئے تھے اور وہ مولانا حبیب اللہ قندھاری تلمیذ مولانا شاہ اسمٰعیل شہید دہلوی (1241ھ) اور شیخ الکل فی الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی( م 1320ھ) کے فیض یافتہ تھے، سید عبداللہ غزنوی کے ایک فرزند مولانا سید عبدالجبار غزنوی بڑے ذہین اور صاحبِ فہم و فراست و بصیرت تھے، بہت زیادہ عابد، زاہد و ذکر اذکار کرنےوالے عالم تھے ، مولانا سید محمد داؤد غزنوی حضرت الامام, حضرت انہی کے بیٹے تھے ۔مولانا سید محمد داؤد غزنوی 1895ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ علوم اسلامیہ کی تحصیل اپنے والد امام مولانا سید عبدالجبار غزنوی اور اپنے تایا زاد بھائی مولانا سید عبدالاوّل غزنوی( م1331) سے حاصل کی۔ بعد ازاں دہلی جا کر مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری( م 1337ھ) سے اکتساب فیض کیا، فراغت کے بعد اپنے آبائی مدرسہ غزنویہ میں قرآن و حدیث کی تدریس پرمامور ہوئے اور ایک عرصہ تک کتاب و سنت کی تعلیم سے طلباء کو مستفید فرماتے رہے۔ 1919ء میں سید محمدداؤدغزنوی نے برصغیر (پاک و ہند) کی سیاست میں قدم رکھا۔ ان کا برصغیر کی تقریباًتمام دینی وعلمی قومی و ملی اور سیاسی تحریکات سے تعلق رہا، کانگریس، مجلس خلافت ،مجلس احرار،مسلم لیگ اور جمعیۃ العلماء ہند کے سینئر رہنماؤں میں شمار کئے جاتے تھے،آپ پنجاب کانگرس کے صدر بھی رہے۔جمعیۃالعلماء ہند کے رکن اور مدتوں نائب صدر رہے،مجلس احرار کے جنرل سیکرٹری کا عہدہ بھی ان کے پاس رہا۔آغا شورش کاشمیری لکھتے ہیں’’اس حقیقت سے شاید کم لوگ واقف ہوں گے کہ پنجاب کے علماء میں سے وہ پہلے عالم دین تھے جنہوں نے تحریک خلافت کے زمانہ میں انگریزی حکومت کےخلاف وعظ و ارشاد کا سلسلہ شروع کیا اور یہ شرف تاریخ نے ان کے سپرد کیا کہ مولانا سید عطاءاللہ شاہ بخاری کو سیاسی میدان میں مولانا سیدداؤد غزنوی نے ہی اتارا تھا جب کہ وہ امرتسر محلے کے عام خطیب کی حیثیت سے زندگی گزار رہے تھے اور شاہ جی نے خود اس کا اقرار کیا ہےکہ مجھے برصغیر کی سیاست میں لانے والے مولانا سید داؤد غزنوی تھے۔ 1919ء کا سال برصغیر کے لوگوں کے لیے قہر و استبداد تھا، ملک میں مارشل لاء نافذ تھا۔برطانوی سامراج نے جلیانوالا باغ امرتسر میں لوگوں پر گولیاں برسا کر 400سے زیادہ لوگوں کو موت کی نیند سلادیا۔ مرنےوالوں میں ہندو، سکھ اور مسلمان شامل تھے۔پروفیسر سید ابوبکر غزنوی لکھتے ہیں جب مولانا سیدمحمد داؤدغزنوی نے سیاست میں قدم رکھا۔ وہ دور انگریز کے جبر واستبداد کا دور تھا۔ انہوں نے انگریزکےخلاف بھر پور آواز اٹھائی۔ وہ حق گوئی اور بیباکی کا پیکر بن گئے جن لوگوں کو اس دور میں ان کی تقریریں سننے کا موقع ملا ان کا کہنا ہے کہ جب وہ انگریز کے خلاف تقریر کرتے تو یوں محسوس ہوتا تھاکہ وہ آگ برسا رہے ہیں اور ان کے لفظوں پر شعلوں کا گمان ہوتا تھا۔ ان کی اور ان کے رفقاء کی بےباکانہ تقریروں کا یہ اثر ہوا کہ عوام کے دلوں سے مارشل لاء کی ہیبت اٹھ گئی ان کی شعلہ نوائی نے جمودکی برف توڑ ڈالی اور عوام۔ کے دلوں میں انگریز کے خلاف نفرت کی چنگاریاں سلگنے لگیں اور حصول آزادی کا جذبہ ابھرنے لگا۔ انگریز کے خلاف نفرت کی آگ بھڑک اٹھی اور وہ پوری گرم جوشی کےساتھ اسے اپنے دامن سے ہوادینے لگے۔ 1921ء میں برصغیر کے مسلمان رہنماؤں نے برطانوی سامراج کے خلاف گرجدار آواز بلند کی۔ چنانچہ مولانا ظفر علی خان، شیخ حسام الدین، مولانا سید عطاءاللہ شاہ بخاری، ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور مولاناسیدمحمد داؤد غزنوی کو ایک ہی وقت میں گرفتار کر کے ایک ہی جیل میں بند کر دیا۔ چند دنوں بعد ان کومختلف جیلوں میں بھیج دیا گیا۔مولانا سیدمحمد داؤد غزنوی کی جیل کی زندگی تقریباً 15 سال بنتی ہے ۔مولانا کی سیاسی زندگی بےداغ ہے۔ ڈاکٹر سیدعبداللہ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ حضرت مولانا سید محمد داؤد غزنوی نےتحریک خلافت اور اس کے بعد آزادی وطن اور قیام پاکستان تک تمام تحریکوں میں اس روایت کو سر سبزرکھا، بارہا قید ہوئے،مصائب برداشت کئے، مگر جس راستے کو اسلام اور مسلمانوں کے لیے مفید خیال کیا اس پر قائم رہے۔موجودہ ملک کے طول و عرض میں پھیلا مرکزی جمعیت اھل حدیث پاکستان کاپلیٹ فارم بھی بطل حریت مولانا سید داؤد غزنوی کی جدوجہد ہی کا نتیجہ ہے، آپ اس تحریک تنظیم کےبانی اور امیر اوّل بنے اور تاحیات رہے۔ حضرت مولانا سید محمد داؤد غزنوی اخلاق و عادات کے لحاظ سے بہت اعلیٰ و ارفع تھے، علوم اسلامیہ کے متجر عالم ، خاص طور پر تفسیر، حدیث اور فقہ میں یگانہ روزگار تھے۔ ٹھوس اور قیمتی مطالعہ ان کا سرمایہ تھا۔ قیام پاکستان کے بعد آپ کو لاہور شیش محل روڑ پر سابقہ ہندی پنجاب اسمبلی کی بلڈنگ الاٹ ہوئئ جس میں آپ نےامرتسر کا اپنا مدرسہ تقویٰ ۃالاسلام دوبارہ جاری کیا ۔ جواب تک جاری ہے ۔کئی بار آپ پنجاب اسمبلی کے ممبر بھی منتخب ہوئے ۔ سید صاحب نے اپنے لیے کوئی مکان یا جائیداد نہیں بنائئ ، آپ کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی تھا کہ آپ نےاہل توحید کو اکٹھا کرکے تنظیم بنائی جس کا نام مرکزی جمعیت اہل حدیث مغربی پاکستان رکھا اور تاحیات اس کے صدر رہے ۔مولانا سید داؤد غزنوی نے اپنے پیچھے انمٹ نقوش چھوڑے۔ آپ نے 16 دسمبر 1963ء کووفات پائی۔ لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں دفن ہوئے۔
یورپ سے سے مزید