اسلام آباد(نیوز ایجنسیاں) اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فیصل واوڈا کی جانب سے انکی تاحیات نااہلی کیخلاف دائر درخواست ناقابل سماعت قرار دیکر مسترد کردی۔
عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ فیصل واڈا نے کاغذات نامزدگی کیساتھ جھوٹا جعلی بیان حلفی جمع کرایا، بہانوں سے التوا لیتے رہے، دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے فیصل واوڈا کے وکیل سے استفسار کیا کہ جھوٹے حلف نامے پر کیا کارروائی ہوسکتی ہے؟ جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ فوجداری کارروائی ہوسکتی ہے.
الیکشن کمیشن نا اہلی کا فیصلہ نہیں کرسکتا، ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے واضح لکھا ہے غلط بیان حلفی پر توہین عدالت کی کارروائی شروع ہوگی، سپریم کورٹ کا فیصلہ قانون ہے جسکے نتیجے میں کچھ قانون سازوں کو بھی نااہل کیا گیا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست گزار کے ابتدائی دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا اور اب 12 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔فیصلے میں کہا گیا کہ فیصل واوڈا کی نااہلی برقرار رہے گی اور واضح کیا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے میں مداخلت کی کوئی وجہ موجود نہیں ہے۔فیصلے میں مزید بتایا گیا کہ فیصل واوڈا کا اپنا کنڈکٹ ہی موجودہ نتائج کا باعث بنا ہے۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے فیصلے میں کہا کہ فیصل واوڈا کی دہری شہریت کے حوالے سے الیکشن کمیشن تحقیقات مکمل کرے اور عدالت امید کرتی ہے کہ کمیشن درخواست گزار کے التوا کے بجائے جلد از جلد اپنی تحقیقات مکمل کریگا۔
قبل ازیں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے فیصل واوڈا کی اپیل پر سماعت کی، اس دوران فیصل واڈا کے وکیل وسیم سجاد کا دلائل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے فیصل واوڈا کو تاحیات نااہل کیا ہے، فیصل واوڈا نے قومی اسمبلی کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے تاہم فیصل واوڈا قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دیکر سینیٹر بن گئے تھے۔
وکیل وسیم سجاد کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن اس نتیجے پر پہنچا کہ بیان حلفی جھوٹا ہے، الیکشن کمیشن کے پاس نااہل کرنے کا کوئی قانونی اختیار نہیں، الیکشن کمیشن کورٹ آف لا نہیں ہے اور وہ 62 (ون) (ایف) کا فیصلہ نہیں دے سکتا۔جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ فیصل واوڈا کا بیان حلفی جمع کرانے کی آخری تاریخ کیا تھی؟ جسکے جواب میں فیصل واوڈ کے وکیل نے بتایا کہ 11 جون 2018 کو بیان حلفی جمع کرایا۔
اس موقع پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 3 سال سے فیصل واوڈا کیس چل رہا ہے، حقائق بتائیں، آپ تکنیکی دلائل دے رہے ہیں لیکن ہمیں حقائق بتائیں، الیکشن کمیشن نے کیا غلطی کی؟
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے بیان حلفی سے متعلق کہا ہے کہ اگر جھوٹا ہوا تو نتائج بھگتنا ہوں گے، جواب میں فیصل واوڈا کے وکیل کا کہنا تھا کہ فیصل واڈا نے جان بوجھ کر جھوٹا بیان حلفی نہیں دیا۔چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ اسکے طے شدہ حلف نامے کی خلاف ورزی کے قانونی نتائج ہونگے، شہریت چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ کیوں نہیں دیا؟ عدالت کو بتائیں کہ الیکشن کمیشن نے نہیں تو انکوائری کس نے کرنی تھی۔
فیصل واوڈا کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن انکوائری کر سکتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن انکوائری کر کے سپریم کورٹ کو بھیج دیتا، سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ اپنے فیصلے میں کہہ چکا کہ غلط بیان حلفی جمع کرانے پر توہین عدالت کی کارروائی ہوگی۔فیصل واوڈ کے وکیل کا ان کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ چار دن کیلئے کوئی کیوں جھوٹ بولے گا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں سپریم کورٹ میں جھوٹے حلف نامے کیخلاف کیا کارروائی ہو سکتی ہے؟ جس پر وسیم سجاد نے جواب دیا کہ اس کے خلاف فوجداری کارروائی ہو سکتی ہے۔
وسیم سجاد کا کہنا تھا کہ فیصل واوڈا وکیل نہیں ہیں انہوں نے قانون کے مطابق اپنی ذمہ داری پوری کی، فیصل واوڈا نے اپنا دوسرا پاسپورٹ منسوخ کروا دیا تھا، انہوں نے نادرا سے سرٹیفکیٹ بھی لیا کہ وہ اب صرف پاکستانی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت، قانونی طور پر درست کہہ رہی ہے کہ بیان حلفی جھوٹا نکلے تو نااہلی ہوتی ہے.
فیصل واوڈا نے اپنی دانست کے مطابق کوئی جھوٹ نہیں بولا، سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق غلط بیان حلفی جمع کرانے پر صرف اُس الیکشن کے لیے نااہل کیا جاسکتا تھا، غلط بیان حلفی جمع کرانے پر فیصل واوڈا کو تاحیات نااہل نہیں کیا جاسکتا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے واضح لکھا ہے کہ توہین عدالت کی کارروائی شروع ہوگی، سپریم کورٹ کا فیصلہ قانون ہے جسکے نتیجے میں کچھ قانون سازوں کو نااہل کیا بھی گیا۔