• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہی ٹریفک جام وہی گاڑیوں کی لمبی قطاریں وہی بھنڈ برادری کے مظاہرین، جو مناظر دو ماہ قبل اسی جگہ پر تھے، وہی دوبارہ دیکھے گئے، تاہم فرق یہ تھا کہ پانچ افراد جو 21 دسمبر 2021 کو ہونے والے بھنڈ برادری کے اپنی زمینوں پر قبضے پر سراپا اختجاج اور نعرے بلند کرہے تھے، وہ آج گولیوں سے چھلنی لاشیں حکومت سندھ، پولیس اور عدالتی نظام کا نوحہ بنی ہوئیں تھیں۔ 

بھنڈ برادری اور زرداری برادری کا زمینوں پر تنازع دو ماہ قبل بھی شدت اختیار کر گیا تھااور مبینہ طور پر برادری نے قومی شاہراہ پر آکر احتجاج کیا اور گھنٹوں قومی شاہراہ کو بلاک کیے رکھا ۔سیول سوسائٹی انتظامیہ اور پولیس حکام کی مداخلت اور زمینوں پر قبضہ خالی کرانے پر مظاہرہ ختم کر دیا گیا تھا انتظامیہ حرکت میں آئی کچھ زمینوں سے قبضہ ختم بھی کرایا لیکن یہ سب کچھ عارضی ثابت ہوا اور ان اقدامات میں سنجیدگی نظر نہ آئی پھر وہی کچھ ہوا جس کا ڈر تھا ذرداری برادری کے افراد نے زرعی اراضی پر دوبارہ قبضے کی کوشش کی اور فائرنگ میں بنڈھ برادری کے 5 افراد سمیت ایک پولیس اہلکار بھی شہید ہوگیا۔ 

مظاہرین کا کہنا تھا کہ 390 ایکڑ زرعی زمین کا تنازعہ حل کرنے کے لئے انتظامیہ اور پولیس حکام پہلے ہی سنجیدہ ہو جاتے تو یہ قیمتی جان بچائی جا سکتی تھی دوسری جانب 42 گھنٹے کے قومی شاہراہ پر دھرنے کے باعث گاڑیوں کی میلوں لمبی قطاریں لگ گئیں اور سندھ اور پنجاب کو ملانے والی اہم قومی شاہراہ پر ٹریفک بلاک ہوا یہ وقوعہ کس طرح ظہور پذیر ہوا اور اس کے پیچھے بنیادی اسباب کیا تھے۔ 

اس کی کہانی سابق کونسلر خمیسو خان بھنڈ نے یوں سنائی ان کا کہنا تھا کہ، ہم باپ دادا کے زمانے سے مرزا پور کے علاقے میں رہائش پذیر ہیں اور یہاں پر سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کے زمانے میں جو زرعی اصلاحات ہوئی تھی، ان کے تحت ان کے آباء و اجداد کو زمین الاٹ کی گئی تھی اور وہاں کاشت کاری کر رہے تھے انہوں نے الزام لگایا کہ کچھ عرصہ قبل زرداری برادری کے محسن زرداری نے آ کر دعوی کیا کہ 390 ایکڑ زمین ان کی ملکیت ہے،اس کے کاغذات ان کے پاس موجود ہیں۔ 

اس سلسلے میں خمیسو خان بھنڈ کا کہنا تھا کہ تھا کہ ہم نے حملے سے قبل ذرداری سے رابطہ کیا اور اس سلسلے میں کچھ لوگوں کے ذریعے اپنی بات ان تک پہنچائیں لیکن محسن زرداری کا اصرار تھا کہ یہ زمین ان کی ہے اور بھنڈ برادری کو یہاں سے جانا ہے بعد ازاں خمیسوخان کا یہ کہنا تھا کہ مسلح افراد کی مدد سےانہیں زمین اور گھروں سے نکالا گیا، جبکہ پولیس کا یہ کہنا تھا کہ ان کے سامنے محسن زرداری نے اپنی زمین کے کاغذات پیش کیے اور پولیس کو درخواست دی کہ ان کی زمین پر قبضہ ہے جو کہ خالی کرایا جائے ۔ 

پولیس کی بھاری نفری نے ان کے گھروں اور کھیتوں سے انہیں نکال دیا، جس کے بعد ان برادری نے 21 دسمبر کو قومی شاہراہ پر نواب ولی محمد بس اسٹاپ پر شامیانے لگاکر دھرنا دیا اور سندھ پنجاب ٹریفک بلاک کر دیا یہ دھرنا 40 گھنٹے تک جاری رہا اس کے بعد پولیس حرکت میں آئی اور علاقے کے معززین نے مل کر دونوں کو راضی کیا اور اس کے بعد فیصلہ میر منظور پہنور کے پاس رکھا گیا تاکہ اس زمین کے تنازعے کو حل کیا جاسکے۔ 

میر منظور پاور نے نواب شاہ سرکٹ ہاوس آکر دونوں فریقوں کو بلاکر بات کی جبکہ بھنڈ برادری کی جانب سے سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے صدر سید زین شاہ اور محسن زرداری کی طرف سے وہ خود پیش ہوئے اور اس کے بعد یہ طے ہوا کہ دونوں فریقین جوزرعی زمین پر کسی قسم کا کام نہیں کریں گے جہاں پر سرسوں اور دیگر قسم کی فصل اگی ہوئی تھی اور ایک گھر جو غلام حیدر کا تھا اس کو پولیس خالی کراکر اس ھکے حوالے کرے گی۔ 

اس طرح یہ طے ہوا کہ بیس دن کے بعد منظور پہنور اپنا فیصلہ دیں گے اور جس کے پاس زمین کے کاغذات پائے گئے اسے مالک قرار دے کر اس کے قبضے میں زمین دے دی جائے گی،اس طرح یہ طے ہوا کہ بیس دن کے بعد منظور پہنور اپنا فیصلہ دیں گے اور جس کے پاس زمین کے کاغذات پائے گئے اسے مالک قرار دے کر اس کے قبضے میں زمین دے دی جائے گی اس طرح یہ بخیر و خوبی یہ سارا معاملہ ہوا لیکن پھر کیا ہوا۔

اس سلسلے میں بھنڈ برادری کے سابق کونسلر خمیسو خان نے جنگ کو بتایا کہ میر منظور پہنور کا فیصلہ آنے سے قبل ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ محسن زرداری کے پاس جا کر درخواست کریں کہ جو فصل ہم نے لگائی ہے اس کی کٹائی ہم کریں اور جو فصل انہوں نے لگائی ہے وہ ان کے قبضے میں رہے اس سلسلے میں خمیسو بھنڈ کا کہنا تھا کہ جب ہمارے لوگ محسن زرداری کی طرف گئے تو اس کے بعد مبینہ طور پر وہاں سے اچانک فائرنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا اور لوگوں کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے ہمارے لوگ کھیتوں میں کھڑے تھے اور وہاں مورچہ بند ان پر فائر کر رہے تھے۔ 

خمیسو خان کا کہنا تھا کہ اس فائرنگ کے نتیجے میں معشوق ایاز صابن تروھ اور اکمل بھنڈ شدید زخمی ہوئے اور اسپتال میں یکے بعد دیگر موت کے منہ میں چلے گئے جب کہ اس موقع پر فائرنگ کی زد میں آکر پولیس پیکٹ انچارج عبدالحمید کھوسو بھی شہید ہوگیا اس طرح 6افراد جاں بحق اور 8 زخمی جن میں ایک خاتون اور بچہ بھی شامل ہے اس سانحہ کے بعد پورے علاقے میں کہرام مچ گیا اور سینکڑوں افراد دوبارہ قومی شاہراہ پر بیٹھ گئے لیکن وہ اکیلے نہیں تھے بلکہ ان کے ساتھ اپنے پیاروں کی لاشیں بھی تھیں جو کہ تابوتوں میں رکھی ہوئی تھیں ۔ مسلم لیگ نون کی نازو دھاریجو جو کہ قریبی گاؤں میں رہتی ہیں ،وہ بھی دھرنے میں شریک ہوئیں۔

42 گھنٹے تک سڑک پر ایمبولینسوں میں لاشیں رکھی رہیں ، دوسری جانب کا ٹریفک کا نظام مفلوج ہو گیا،ہزاروں گاڑیاں جن میں کھانے پینے کی اشیاء پرندے اور مویشی بھی شامل تھے بہت سے مر گئے۔ تاجروں کا اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ حکومتی اداروں کو اور اس کے علاوہ سول سوسائٹی کو یہ سوچنا ہوگا کہ ظلم و زیادتی پر احتجاج سب کا حق ہے لیکن اس احتجاج کا بھی ایک دائرہ مقرر کرنا ہوگا کیونکہ آئے دن اس طرح سے قومی شاہراہ پر دھرنا دے کر بیٹھ جانے سے پورے ملک کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے اور اس کے علاوہ یہ کہ وہ مسافر جن میں خواتین بچے بزرگ بیمار تمام شامل ہیں۔

اپنے منزل مقصود پر پہنچنے کے بجائے کئی کئی روز تک اس طرح سڑک پر بے یارو مددگار پڑے رہتے ہیں جہاں پر نہ کھانے پینے کی سہولت ہوتی ہے نہ واش روم استعمال کرنے کی اس سلسلے میں ڈرائیوروں اور مسافروں کا یہ کہنا تھا کہ ہم کسی بھی ظلم اور زیادتی کے ساتھ نہیں ہیں لیکن ہمارے ساتھ یہ ظلم اور زیادتی کیوں کی جاتی ہے کہ جب بھی کسی کے ساتھ کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو وہ آکر نیشنل ہائی وے پر بیٹھ جاتے ہیں اور اس کے بعد جو کچھ ہوتا ہے وہ سب کے سامنے ہے اور اس سلسلے میں یہ قانون سازی بھی ضرور ہونی چاہیے کہ جو لوگ زیادتی ظلم و ستم کرتے ہیں ان کے خلاف تو پرچہ درج ہو جاتا ہے لیکن ان لوگوں کے خلاف بھی مقدمہ درج ہونا چاہیے۔ 

جو قومی شاہراہ پر دھرنا دے کر قومی معیشت پر شب خون مارتے ہیں اور اپنے نقصان کے لئے پوری قوم کا نقصان کرتے ہیں۔ لوگوں کو عجیب اذیت اور ذہنی پریشانی کا شکار کرتے ہیں جب کہ ملکی معیشت کے اربوں روپے کا بھی نقصان کرتے ہیں اب بھنڈ برادری کی جو ڈیمانڈ تھی اس پر فیصلہ ہوا ہے اور بقول ایس ایس پی امیر سعود مگسی برادری کی جو زمین جس پر ان کا دعویٰ ہے کہ انہیں واپس دلا دی گئی ہے۔ 

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اصل جو معاملہ ہے وہ ریونیو ڈیپارٹمنٹ کا ہے اور جو بھی فریق اس میں اپنی زمینوں کی ملکیت ثابت کرے گا وہ زمین ان کی ہوگی لیکن زرداری برادری کی جانب سے بھنڈ برادری کو ان کی زمینوں کا قبضہ واپس دے دیا گیا ہے اور محسن زرداری کی پارٹی علاقے کو خالی کر گئی ہے جب کہ محسن زرداری کا نام ایف آئی آر میں شامل کیا گیا ہے لیکن وہ اب تک گرفتار نہیں ہوا ہے دوسری جانب اس سلسلے میں مختلف سیاسی و سماجی جماعتوں کے رہنماؤں کے جو بیانات سامنے آئے اس میں ایازلطیف پلیجو کا کہنا تھا کی سندھ کو ریگستان بنا دیا گیا ہے۔ قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ 

دن دھاڑے لوگ قتل ہو رہے ہیں اور کبھی بچیوں کی ہاسٹلوں میں لٹکی لاشیں مل رہی ہیں ۔جمعیت علماء اسلام فضل الرحمان گروپ کے صوبائی رہنما تاج محمد ناہیوں کا کہنا تھا کہ سندھ کے عوام میں احساس محرومی جنم لے رہا ہے آخر سندھ اور عوام کا کیا ہوگا میں کیا سندھ جلتا رہے گا۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید