• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کا قیام جن حالات کے تحت عمل میں آیا، ان کے بابت پاکستان کے چلنے کے امکانات بہت زیادہ نہیں تھے لیکن قائد اور ان کے ساتھیوں کی مخلصانہ کوششوں نے ہندوئوں کے اس پلان اور خواہش دونوں کو ملیا میٹ کر دیا۔ قیام کے وقت ہی ہمیں روس یا امریکہ میں سے کسی ایک کا ساتھ دینے کے چیلنج کا سامنا تھا،اس وقت کے تقاضوں نے ہمیں امریکی بلاک میں دھکیل دیا۔ امریکہ ہمیشہ سے پاکستان کو اپنا محتاج اور مرہونِ منت رکھنا چاہتا تھا تا کہ پاکستان کو اپنے مقاصد کے مطابق استعمال کر سکے۔

قیامِ پاکستان کے بعد سے ہی پاکستان کو عالمی سازشوں کا سامنا رہا۔ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جسے پاکستان جیسے چیلنجز کا سامنا رہا ہو اس کے باوجود پاکستان آگے بڑھتا رہا اور اپنی جغرافیائی اہمیت و افادیت کو دنیا بھر سے منوایا۔ ایک عرصہ تک امریکی اتحادی رہنے کے باعث پاکستان کو امریکی اثر و رسوخ کے تحت بہت سے ناپسندیدہ اقدامات کرنا پڑے، اس نے ہمیشہ پاکستان کو روس اور دیگر مخالفین کے مقابلے میں اقتصادی قوت بنانے سے زیادہ توجہ فوجی قوت بنانے پر دی تا کہ وہ اس قوت کو بوقتِ ضرورت استعمال کر سکے۔ امریکہ نے پاکستان سے معاملات چلانے کے لیے غیر جمہو ری قوتوں کی پشت پناہی کی تا کہ اپنے فیصلوں پر مِن و عن عمل کرواسکے۔ عالمی قوت نے ہمیشہ ڈکٹیٹرز کومضبوط کیا۔ سیاسی جماعتیں بنتی اور ٹوٹتی رہیں، اس سیاسی انجینئرنگ نے سیاست دانوں میں طاقت کے غلام پیدا کیے جو نظریاتی طورپر کورچشم ثابت ہوئے یوں مفاداتی سیاست پنپتی رہی۔ پاکستان کو ہمیشہ ہمسایہ ملک سے سلامتی کے شدید خطرات لا حق رہے سر پر منڈلاتے سلامتی کے اس خطرے نے بھی پاکستان کو معاشی محاذ پر توجہ نہ دینے دی۔ افغان جہاد، تنازع کشمیر، سعودی اور ایرانی اثر و رسوخ نے ملک میں فرقہ واریت کو ہوا دے کر پاکستان کو اقتصادی و معاشی ترقی کی ڈگر سے ہمیشہ دور رکھا۔ سیاسی عمل کو کنٹرولڈ رکھنے کے لیے سیاست دانوں کے سروں پر ’’دستِ شفقت ‘‘رکھنے کا مطلب اشیر باد ہوتی جسے کرپشن کی بھی کھلی چھٹی تصور کیا جاتا جس کے نتیجے میں اس بہتی گنگا میں بڑے بڑے نیک ناموں نے ہاتھ دھونا باعثِ نجات سمجھا۔ عام پاکستانی کو ہمیشہ سے بنیادی ضروریاتِ زندگی کے جال میں جکڑ کے رکھا گیا، آج تک روٹی، کپڑا اور مکان اس کے لیے سہانا خواب ہے۔ادارے سیاسی مداخلتوں اور اقربا پروری کی بھینٹ چڑھتے رہے۔محدود آمدنی اور بجلی کی رفتار سے بڑھتی مہنگائی نے نچلی سطح تک کرپشن کو فروغ دیا۔ جدید ذرائع اور ٹیکنالوجی سے عدم واقفیت نے تعلیمی و تکنیکی ترقی کو معکوس کیے رکھا لیکن اس کے باوجود آج تعلیم کی شرح ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ آج ہر طبقہ ناصرف باخبر ہے بلکہ با شعور بھی ہے۔ وہ مگر یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ بنگلہ دیش یا ملائیشیا کو ان حالات کا سامنا کبھی نہیں کرنا پڑا جن سے پاکستان دوچار رہا ہے۔ ملائیشیا یا بنگلہ دیش کے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ اس طرح کے ازلی تنازعات نہیں ہیں جیسے پاکستان کے بھارت سے ہیں۔ بنگلہ دیش یا ملائیشیا سے سپر پاور کے مفادات اس طرح نہیں جڑے جیسے پاکستان سے وابستہ ہیں۔

لوگ کرپشن کو جواز بنا کر پاکستان کو برا بھلا کہتے ہیں جب کہ کرپشن پوری دنیا کا مسئلہ ہے، کم یا زیادہ یہ ایک الگ بحث ہے۔ کرپشن سے زیادہ بڑی برائی نا اہلی ہے، عالمی قوتوں کے مفادات نے پاکستان میں میرٹ کو پنپنے ہی نہیں دیا۔ بد قسمتی سے پاکستان کو بوجوہ گزشتہ ستر سال جس بلاک میں گزارنا پڑے اس کا سرخیل امریکہ کبھی پاکستان کو خود مختار، خود انحصار اور ترقی یافتہ ملک نہیں دیکھنا چاہتا تھا کیونکہ جو ملک معاشی طور پر مستحکم ہو وہ کسی کی دھونس میں آتا ہے نہ امداد کا محتاج رہتاہے۔ تاریخ میں پہلی بار ابھرتی ہوئی معاشی سپر پاور چین پاکستان کا ہاتھ پکڑ کر اسے معاشی دلدل سے نکالنے کے لیے کوشاں ہے حالانکہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کوئی عالمی قوت کسی ترقی پذیر ملک کی ترقی میںاتنی دلچسپی لے اور خطیر سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ اس کا معیارِ زندگی بلند کرنے میںبھی سنجیدہ ہو۔ عام طور پر سوال کیا جاتا ہے کہ چین، ایسٹ انڈیا کمپنی تو ثابت نہیں ہوگا؟یہ سوال انتہائی احمقانہ اور بچگانہ ہے کیوں کہ برطانیہ اور چین میں واضح فرق مفادات کا ہے چین کے اپنے ہمسایہ ممالک میں صرف دو ممالک سے تعلقات خوشگوار ہیں جن میں پاکستان سے اس کے تجارتی و معاشی مفادات وابستہ ہیں۔وہ عالمی منڈیوں تک رسائی کے لیے پاکستان سے زیادہ بہتر اور محفوظ راستہ نہیں رکھتا سو وہ پاکستان سے تعلقات بگاڑ کر اپنی معاشی بڑھوتری کو کبھی خطرے میں نہیں ڈال سکتا۔ یہ محض خوش خیالی نہیں، پاکستان اپنے انتہائی برے ادوار دیکھنے کے بعد ایک نئی صبح کا سورج دیکھنے جا رہا ہے جب عام آدمی کی معاشی حالت میں بہتری آئے گی تو ہر طرح کی اخلاقی و معاشرتی برائیاں ازخود بتدریج دم توڑ جائیں گی۔ چین صرف معاشی میدان میں ہی پاکستان کا معاون نہیں ہو گا، وہ تعلیم، ٹیکنالوجی اور تکنیکی ترقی میں بھی پاکستان کو دنیا کے سامنے ایک رول ماڈل بنا کر دوسروں ملکوں کو اپنے ساتھ ملنے کی ترغیب دے گا۔ بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹ دنیا بھر کو خود میں مدغم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، ارجنٹائن، افریقہ اور روس کا اس میں شامل ہونا اس امر کی دلیل ہے۔ بہت سی معاشرتی، سماجی اور اخلاقی بد اعتدالیوں کے باوجود ہمیشہ کی طرح پاکستان کے مستقبل سے بہت سی توقعات جڑی ہوئی ہیں ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہمیں پاکستانیوں کو یہ یقین دلانا ہو گا کہ پاکستان انہیں مایوس نہیں کرے گا۔

(مصنف جناح رفیع فائونڈیشن کے چیئرمین ہیں)

تازہ ترین