انسداد دہشت گردی کی عدالت نے بالو جا قبا پولیس اسٹیشن کی حدود میں سال 2020 میں ہونے والے پولیس مقابلے ، پولیس پر حملے اور پولیس موبائل کے شیشے توڑنے اور چھ پولیس اہل کاروں کو زخمی کرنے کے مقدمے میں انیس ملزمان کو باعزت بری کیا، بلکہ مقدمے کو بھی ختم کر دیا۔ اس سلسلے میں استغاثہ کے مطابق بالو جاقبا پولیس اسٹیشن کی حدود میں ایک گاؤں میں پولیس نے چھاپہ مار کر مرغوں کی لڑائی کے دوران جوا کھیلنے کے الزام میں چند لوگوں کو گرفتار کیا، لیکن پولیس نے جوں ہی انہیں پولیس موبائل میں بٹھایا، تو گاؤں کے افراد ڈنڈے لے کر وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے پولیس پارٹی پر حملہ کر دیا۔ اس سلسلے میں درج کرائی گئی ایف آئی آر کے مطابق وہاں پر موجود لوگوں نے پولیس موبائلوں پر ڈنڈے برسائے اور پولیس موبائل کے شیشے توڑ دیے۔
جب کہ پولیس اہل کاروں کو زخمی کیا اور جن افراد کو پولیس نے حراست میں لیا تھا، انہیں اپنے ساتھ لے گئے اس سلسلے میں پولیس کی جو ایف آئی آر تھی ، اس کے مطابق مقدمہ درج کرایا گیا اور پھر پولیس کی بھاری نفری نے ملزمان کے گھروں پر چھاپے مارے اور وہاں 16 ملزمان کو گرفتار کیا، جن میں نو سگے بھائی اور تین ان کے کزن اور باقی دیگر ملزمان شامل تھے، جب کہ ایف آئی آر کے مطابق پولیس نے وہاں پر بھنگ ، کچی شراب کے ڈرم اور مسروقہ موٹر سائیکل اور ایک کار کو بھی برآمد کیا۔ پولیس کی اس رپورٹ کے بعد ملزمان کو گرفتار کیا گیا اور مقدمہ جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں چلا، جب کہ ایک مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات شامل ہونے کے باعث یہ مقدمہ انسداد دہشت گردی کی۔
عدالت کے جج رسول بخش سومرو کی عدالت میں چلا گیا۔ تاہم اس سلسلے میں پولیس کی جو رپورٹ تھی، وہ اس مقدمے میں موثر ثابت نہیں ہوئی، کیوں کہ پولیس کی جانب سے جو شواہد عدالت میں پیش کیے گئے تھے، وہ وکلاء کے دلائل کے بعد ثابت نہیں ہوئے اور اس طرح تمام ملزمان جو کہ اس وقت میں گرفتار تھے، گزشتہ روز عدالت کے حکم کے مطابق انہیں باعزت بری کیا گیا، جب کہ یہ مقدمہ بھی ختم کر دیا گیا۔
مقدمہ کے وکیل نعیم منگی نے جنگ کو بتایا کہ اس مقدمے میں دل چسپ بات یہ ہے کہ پولیس نے جو شواہد عدالت میں پیش کیے، اس میں جُرم ثابت نہیں کر سکے، جس کی وجہ سے یہ مقدمہ خارج ہوا، اس سلسلے میں نعیم منگی ایڈوکیٹ کا یہ کہنا تھا کہ پولیس نے اس مقدمے میں مرغوں کی لڑائی کے سلسلے میں تین مرغوں کا بھی ایف آئی آر میں ذکر کیا تھا، لیکن ان کا کہنا تھا کہ پولیس اس نے عدالت میں یہ تینوں مرغ پیش نہیں کیے، جب کہ پولیس رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ تینوں مرغے ہیٹ اسٹروک میں مر گئے ہیں۔
جبکہ نعیم منگی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ پولیس کی جانب سے جو گواہان پیش کیے گئے وہ یہ ثابت نہیں کر سکے کہ کس ملزم نے کس پولیس والے کو زخمی کیا اور جب کہ اس سلسلے میں ان تمام الزامات کو جو کہ پولیس نے ایف آئی آر میں لگائے تھے، ثابت نہیں کر سکی، جس کی وجہ سے عدالت نے تمام ملزمان کو باعزت بری کردیا، جب کہ اس کیس کے سلسلے میں پولیس رپورٹ یہ تھی کہ 6 پولیس اہلکار زخمی ہوئے پولیس موبائل کو توڑا گیا اور اس کے علاوہ یہ تمام افراد جو کہ زرداری برادری سے تعلق رکھتے تھے، اپنے گھروں میں کچی شراب تیار کرکے فروخت کرنے کادھندہ بھی کرتے تھے، پولیس نے ایف آئی آر میں رپورٹ کیا تھا کہ ملزمان کچی شراب بنا کر مختلف علاقوں میں فروخت کیا کرتے تھے۔
اس سلسلے میں دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ مقدمہ جس میں چھ پولیس اہل کار زخمی ہوئے، موبائل کو نقصان پہنچا توڑ پھوڑ کی گئی اور اس کے علاوہ پولیس پارٹی پر حملہ کیا گیا، یہ ساری دفعات اس مقدمے میں شامل کی گئی تھیں، لیکن اس کے باوجود پولیس اس مقدمے کو عدالت میں گواہان کی گواہی کے ساتھ ثابت نہیں کر سکی اور یہ مقدمہ خارج ہوگیا۔
تاہم اس مقدمہ کے خارج ہونے کے اسباب جو بھی تھے، وہ عدالت کے آرڈر کے ذریعہ سامنے آگئے تاہم بہت سے سوالات ہیں جو کہ اس سلسلے میں اب بھی تشنہ ہیں، اس بارے میں نعیم منگی ایڈوکیٹ کا یہ کہنا ہے کہ اس مقدمے کے خارج ہونے سے پولیس ڈیپارٹمنٹ کے شعبہ تفتیش کے بارے میں کئی سوالات پیدا کر دیے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس کی جانب سے جو کیس بنائے جاتے ہیں، ان میں وہ مواد شامل نہیں کیا جاتا، جس کے ذریعے سے مقدمے کو ثابت کیا جاسکے۔
اس مقدمے میں پولیس کی جانب سے جو کمزوری سامنے آئی، وہ یہ ہے کہ جوا پر جھگڑا ہوااور وہ مرغے جن کے مقابلے کرائے جارہے تھے اور تماش بینوں نے اس میں بڑی بھاری رقم لگائی تھی، لیکن پولیس کی جانب سے جب مقدمہ قائم کیا گیا، تو اس میں ان تینوں مرغوں کا ذکر تھا، لیکن عدالت میں یہ تینوں مرغ پیش نہیں کیے گئے اور اس کے بعد عدالت میں پولیس کی جانب سے یہ بیان داخل کرایا گیا کہ تینوں مرغے ہیٹ اسٹروک کے باعث مر گئے ہیں اور اس طرح پولیس کی جانب سے یہ کیس کی کمزوری کا پہلا باب بنا اور اس کے بعد ان کا کہنا تھا کہ پولیس لے اسی سلسلے میں دوسرا جھول جو اس مقدمے میں ڈالا، وہ لڑائی کے دوران پولیس پارٹی پر حملے کے ملزمان کے بارے میں تھا، جس میں پولیس سے ثابت نہیں کر سکی کہ کس ملزم نے پولیس والے کو زخمی کیا۔
حالاں کہ حقیقت یہ تھی کہ یہ مقدمہ بالکل حقائق پر مبنی تھا، لیکن چوں کہ اس مقدمے کی تیاری کے سلسلے میں پولیس کی جانب سے بہت سی کمزوریاں سامنے آئی، جس کا فائدہ مخالف وکیل نے اٹھایا اور یہ مقدمہ خارج ہوا اور وہ پولیس اہلکار جو کہ ان ملزمان کے ساتھ زخمی ہوئے تھے یا پولیس کی پراپرٹی جو کہ موبائل کی صورت میں تھی، اس کو نقصان پہنچا اور دوسرا یہ کہ ان ملزمان سے جو کچے شراب کے ڈرم اور دیگر منشیات برآمد کی گئی تھی وہ مقدمہ بھی اپنے انجام کو نہیں پہنچا اور یہ تمام ملزمان کو باعزت طور پر بری ہو گئے۔
اس سلسلے میں ایس ایس پی امیر سعود مگسی کا کہنا ہے کہ پولیس ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جو مقدمات تیار کیے جاتے ہیں، اس میں یہ کمزوری سامنے آئی ہے کہ کیس کی تیاری کے دوران باقاعدہ طور پر تربیت یافتہ ٹیم نہ ہونے کی وجہ سے سچے مقدمہ بھی عدالت میں ثابت نہیں ہو پاتے اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ مقدمات خارج ہوجاتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس وقت جو نوجوان نسل کو برباد کرنے والی زیڈ اکیس مین پوری اور گٹے کی وجہ سے نوجوان نسل کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہو کر موت کے منہ میں جارہی ہے۔
اس سلسلے میں ان کا کہنا تھا کہ اکثر ان منشیات کے اسمگلر جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانے کی بجائے باعزت طور پر بری ہو جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بارے میں اس بات کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ پولیس افسران جو کہ مقدمات بناتے ہیں۔ ان کی خاص طریقہ سے موجودہ حالات کے مطابق تربیت کی جائے کہ ان کے تیار کردہ مقدمات کے ملزمان کسی طرح بھی سزا سے نہ بچ سکیں۔
آئی جی پولیس مشتاق احمد مہر کی جانب سے ایس ایس پی شہید بے نظیر آباد امیر سعود مگسی کو ان کی کارکردگی کی بناء پر ایک ماہ کی اضافی تنخواہ سے نوازا گیا، اس سلسلے میں پولیس ترجمان کے مطابق آئی جی پولیس سندھ نے ضلع شہید بینظیر آباد میں ایس ایس پی امیر سعود مگسی کی جانب سے مختلف اقدامات کو جن میں امن و امان کی صورت حال کے علاوہ دیگر معاشرتی مسائل کو حل کرنے کی کوششوں کے سلسلے میں اس انعام سے نوازا گیا ہے۔
اس بارے میں ایس ایس پی امیر سعود مگسی کا کہنا تھا کہ انہوں نے پولیس ہولڈ اپ نافذ کرکے جرائم پیشہ افراد کی سرگرمیوں کو ایک جانب محدود کیا ہے، دوسری جانب اسٹریٹ کرائم کے خاتمے کے لیے بھی یہ کوشش کی ہے، جب کہ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی تعیناتی کے بعد بھرپور طریقے سے پولیس کے مورال کو بلند کرنے کے بھی کوشش کی اور اس کا نتیجہ ہے کہ پولیس کی کارکردگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
تاہم جہاں تک ایس ایس پی کو انعام سے نوازے جانے کا تعلق ہے، تو اس بارے میں عوام کی رائے ہے کہ پولیس کی کارکردگی میں مزید بہتری کی گنجائش ہے۔ اس سلسلے میں عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ ایس ایس پی امیر سعود مگسی کی جانب سے خاص طور پر منشیات جس میں گٹکا مین پوری اور زیڈا کیس شامل ہے کہ خاتمے کے لیے جو کوششیں کی گئیں ، وہ موثر تو ثابت ہوئی ہیں، لیکن صورت حال یہ ہے کہ پھر ایک مرتبہ ان منشیات کے اسمگلر میدان میں آگئے ہیں اور پورے شہر میں جگہ جگہ پھر یہ زہر فروخت ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے ہماری نوجوان نسل کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوکر موت کے منہ میں جا رہی ہے۔
عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس زہر کے خاتمے کے لیے پولیس کو ایک نئے عزم کے ساتھ کارروائی کرنا ہوگی تاکہ معاشرے میں اس زہر کو پھیلنے سے روکا جا سکے اور ہماری نوجوان نسل جس کو اس ملک اور ملت کی تعمیر کرنی ہے کو کینسر زدہ اور مفلوج ہونے کی بہ جائے صحت مندانہ زندگی بسر کرنے کی جانب رواں دواں کیا جاسکے۔