اُسے زینب خالہ کے تیور دیکھ کر ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ غلط وقت پر آئی ہے۔ چائے، سموسوں سے انصاف کرتی تینوں اجنبی عورتوں نے اسے سرتا پا اشتیاق سے دیکھتے ہوئے پوچھا ’’یہ لڑکی کون ہے ؟‘‘’’یہ …یہ ہمارے محلّے کے مشہور ومعروف نشئی ،جواری شبّیرے کی بیٹی ہے۔‘‘زینب خالہ نے جلے بُھنے انداز میں جواب دیا۔ بیٹی کے رشتے کے لیے آئی عورتوں کے سامنے اس کا من موہنی صُورت لانا انہیں سخت ناگوار گزرا تھا۔
عورتوں نے زینب خالہ کا جواب سُن کر یوں منہ بنایا، جیسے چائے میں یک دَم تلخی سی گُھل گئی ہواورحوّا نے وہاں سے جانے ہی میں عافیت جانی، مگر گھر واپس آکربھی کتنی ہی دیر ’’ نشئی، جواری،شبّیرے کی بیٹی… ‘‘ کی گونج اس کا پیچھا کرتی رہی۔ اچھا بھلا شبّیر احمد، محض اپنے کرتوتوں کے باعث کبھی شبیرا، تو کبھی شبّیرے کہلانے لگا تھا۔ یوں اس کے بچّے بھی باپ کے نام کی جگہ، اُس کے کام سے پہچانے جانے لگے۔ حتیٰ کہ خوش شکل ، سلیقہ شعار حوّا کی ماں بھی اب بس ’’جواری کی بیوی‘‘ ہی کہلاتی تھی۔’’کیا ہی اچھا ہوتا کہ ابّا اچھا انسان ہوتا اور لوگوں کے لہجے میں اس کے لیے حقارت کی بجائے عزّت ہوتی۔‘‘ حوّا نے بےبسی کے عالم میں سوچا۔
کئی دن بعد رقیہ اس سے ملنے آئی، تو چہرے پہ گلاب کِھل رہے تھے۔ خوشی سے نہال ہو کر بتانے لگی کہ اس کی بات طے ہو گئی ہے اور دو ماہ کے اندر شادی ہے، پھر حوّا سے شکوہ کرنے لگی کہ’’ اتنے دن سے گھر کیوں نہیں آئی؟‘‘، اس نے رقیّہ کو گلے لگا کر مبارک باد دی، مگر زینب خالہ کےتحقیر آمیز الفاظ والی بات نہ بتائی۔ ’’میری سوہنی سکَھی! اللہ کرے تُو بھی جلد پیا دیس سدھار جائے۔‘‘
رقیہ نے پیار سے کہااور کون جانتا تھا کہ رقیہ کی دُعااتنی جلدی رنگ لے آئےگی کہ اگلے پندرہ روز میں حوّا کے لیے سرکاری دفتر کے ایک کلرک ، اسلم کا رشتہ آیا اور وہ ایک مہینے میں اپنے گھر کی ہو گئی۔ گوکہ اسلم ، حوّا سے عُمر میں دس، بارہ برس بڑا تھا، لیکن سرکاری نوکری کی وجہ سے حوّا کی ماں کو تسلّی تھی کہ کم از کم بیٹی بھوکی تو نہیں مرے گی اورشوہر ملازمت کرتا ہے، توحوّا کی عزّت بھی بنی رہے گی۔ مگر اس نے یہ نہیں سوچا کہ بھوک محض روٹی کی نہیں ہوتی ،عزت، محبّت، سراہے جانے، دُکھ تکلیف میں دلاسے کی بھی ہوتی ہے، جو حوّا کو نصیب نہ ہوئی۔
آج وہ اسلم کے ساتھ اسپتال آئی تھی کہ اس کی طبیعت ٹھیک نہیںتھی۔حمل ٹھہرے چند ماہ ہو چُکے تھے، مگرسُسرال میں ڈاکٹر سے رجوع کرنے کا رواج نہ ہونے کے سبب وہ اب تک ڈاکٹر کے پاس نہیں گئی تھی۔لیکن جب اسلم نے دیکھا کہ حوّا کی طبیعت بگڑتی جا رہی ہے، تو دل پہ پتّھر رکھ کر اسے اسپتال لے گیا۔’’مریضہ کا نام؟‘‘استقبالیے پہ بیٹھی نرس نے پوچھا۔ اس سے پہلے کہ حوّا کچھ کہتی ’’زوجہ اسلم۔‘‘ اسلم نے جواب دے دیا۔’’تھوڑی دیر انتظار کریں، جب ڈاکٹر آئیں گی، تو بلا لیا جائے گا۔‘‘ ڈاکٹر نے حوّا کا معائنہ کیا تو سر پکڑ کے بیٹھ گئیں۔ ’’تمہاری بیوی بے حد کم زور ہے، اس میں خون کی بہت کمی ہے۔
اس سے پہلے کس ڈاکٹر کو دکھا رہے تھے؟مجھے دوائیں دکھاؤ۔‘‘ ڈاکٹر نے ایک ہی سانس میں کئی باتیں کہہ ڈالیں۔ ’’ جی، وہ … ڈاکٹرنی صاحبہ!ابھی تک کسی ڈاکٹر کونہیں دکھایا۔‘‘ حوّا نے اٹک اٹک کر جواب دیا، جب کہ ڈاکٹر کے سامنے اسلم کی بولتی بند تھی۔ ’’کیا… تمہارا دماغ ٹھیک ہے، اتنے ماہ ہوگئے اور تم لوگ کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں گئے۔ اسی کم علمی کی وجہ سےہر سال جانے کتنی عورتیں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔‘‘ ڈاکٹر سارا ماجرہ سمجھتے ہوئے بولیں۔ ’’بات سُنو! تمہاری بیوی بہت کم زور ہے، اسے مکمل بیڈ ریسٹ کرواؤ ، اچھی غذا دو اور خوش رکھو۔‘‘ ڈاکٹر نے اسلم کو مخاطب کرتے ہوئے سختی سے کہا۔ ڈاکٹر کے سامنے تو اسلم کچھ نہ بول سکا، لیکن باہر آتے ہی اس کے تیور بگڑگئے ۔
’’سارے پیسا بنانے کے ڈھکوسلے ہیں ان لیڈی ڈاکٹروں کے۔بچّہ پیدا کرنا کون سا انوکھا کام ہے، ازل سے عورت یہی کرتی آرہی ہے۔ اپنی علمیت جھاڑنے کے لیے نسخے پہ نسخے لکھے جاتی ہیں یہ ڈاکٹرنیاں ۔اور تُو… جب وہ ڈاکٹرنی میری اتنی بے عزّتی کر رہی تھی، تو تُجھے شرم نہیں آئی کہ دو بول میری حمایت میں بول دیتی۔ تیرے تو دل میں لڈّو پھوٹ رہے ہوں گے کہ اب کام سے نجات مل جائے گی۔ اس ڈاکٹرنی کو کون بتائے کہ میرے ساتھ کتنے ٹھاٹ باٹ سے رہ رہی ہے، ورنہ ایک نشئی کی بیٹی سے کون شادی کرتا۔‘‘
وہ پورا رستہ حوّا کو باتیں سُناتا آیا۔ وقت گزرتا گیا اور حوّا پہلے ایک ،پھر اوپر تلے چار بچّوں کی ماں بن گئی۔ چوتھی بیٹی کی ولادت کے وقت تو ڈاکٹر نے اسے جواب ہی دے دیا تھا، لیکن وہ بچ گئی ۔حوّا نے خود کو سمجھا لیا تھا کہ یہی عورت کی قسمت ہے۔ اس کی چھوٹی بہن جب پانچویں بچّے کی پیدائش کے دوران مر گئی، تو سب نے کہا’’بدنصیب عُمر ہی کم لکھوا کر لائی تھی۔‘‘ حوّا نے سوچا ،’’سچ ہی تو ہے ، ورنہ وہ بھی تو عورتیں ہیں، جو دس دس بچّے پیدا کرکےبھی ہٹّی کٹّی رہتی ہیں۔ ہم بہنیں ہیں ہی بدنصیب، میکے میں سُکھ ملا، نہ سُسرال میں۔ ‘‘
اسلم کو تینوں بیٹیوں سے زیادہ اپنا بیٹا شعیب پیارا تھا۔وہ اس کی ہر جائز، ناجائز خواہش پوری کرتا۔ بیٹیاں کچھ مانگ لیتیں، تو انہیں ڈانٹ دیتا۔ اور بیٹیاں حسرت سے یہ سب دیکھتی رہتیں۔ ماں ہونے کے ناتے حوّا کا دل اُن کے لیے دُکھتاتھا، مگر وہ خود کو سمجھا لیتی کہ ہم عورتوں/لڑکیوں کی یہی قسمت ہوتی ہے۔ پھر یہ بھی سوچتی کہ آخربیٹا ہی تو اُس کے اور اسلم کے بڑھاپے کا سہارا بنے گا۔ وقت تیزی سے گزرتا گیا ، بچّے جوان ہوگئے۔دو بیٹیوں کی شادی کرکے حوّا نے کچھ اطمینان کا سانس لیا تھا، مگر پھر ایک روز اچانک اسلم نے دوسری شادی کر لی۔
حوّا پر یہ خبر پہاڑ بن کر گری۔’’یہ بھی کوئی عُمر تھی، دوسری شادی رچانے کی، نانا، دادا بننے کی عُمر میں دولھا بن گیا۔‘‘ حوّا سوچتی رہ گئی ، مگر کچھ کہہ نہ پائی۔ اسلم نے پہلے گھر آنا جانا کم کیا، پھر آہستہ آہستہ ہر ذمّے داری سے آزاد ہو گیا، یہاں تک کہ گھر میں خرچہ دینا بھی بند کردیا۔ مجبوراً بیٹے نے پڑھائی چھوڑ کر نوکری کر لی ۔ حوّا نے بھی جیسے تیسے چھوٹی کی بھی شادی کردی ۔ ایک روز وہ گھر پہ اکیلی تھی کہ اچانک فرش پر پھسل گئی۔ بیٹے کو پتا چلا تو فوراً اسپتال لے کر بھاگا۔’’بی بی !آپ کانام کیا ہے؟‘‘’’زوجہ اسل…‘‘وہ بولتے بولتے رُک گئی ۔ آواز رندھ گئی۔
’’ماں ہمّت کرو،کیا زیادہ درد ہورہا ہے؟‘‘شعیب نے پوچھا، تو وہ نم آنکھوں سے مُسکرائی۔ ’’ہاں،نن…نہیں بیٹا!درد تو زیادہ نہیں ہے۔‘‘پھر بولی ’’پرچی پر والدہ شعیب لکھ دیں۔‘‘ خوش قسمتی سے ہڈّی نہیں ٹوٹی تھی۔ وہ چند ہی روز میںدواداروسے ٹھیک ہوگئی۔ لیکن اُسے رہ رہ کےخیال آتا کہ پتا نہیں، زندگی کے کتنے دن بچے ہیں، تو جلد ہی شعیب کی بھی شادی کردی کہ بیٹے کی خوشیاں دیکھ سکے۔’’ چلو، اُس فریبی، اسلم نے سُکھ نہیں دیا، تو کیا ہوا اب میرابیٹا مجھے خوشیوں بھری زندگی دے گا۔ بڑھاپا تو چین سے کٹ ہی جائے گا۔ ‘‘ حوّا اکثر سوچتی۔
دن اچھے گزر رہے تھے، خوشیوں میں مزید اضافہ تب ہوا ، جب اللہ نےدادی بنادیا، پوتے میں تو جیسے جان تھی اُس کی۔ دن رات اس کی خدمت میں لگی رہتی اوربہو کے ساتھ گھر کے کاموں میں بھی ہاتھ بٹاتی۔چند سال گزرے،تو بہو کی گود میں دو بچّے اور آگئے۔ پھر عالمی وبا نے زندگی کا رُخ بدل دیا۔ منہگائی میں ہوش رُبا اضافہ ہوا، تو بہو اور بیٹے پر ماں کا وجود بھاری پڑنے لگا۔ بیٹا تو کچھ نہ کہتا، مگر بہو آئے دن طعنے دیتی رہتی ۔گھر میں جھگڑے ہونے لگے، حوّا کے آگے روکھی سوکھی روٹی رکھی جاتی۔ اُسے لگتا ، واقعی وہ اپنے ننّھے منّے پوتوں کا حصّہ ہڑپ رہی ہے اور پوتے تو اُسے جان سے پیارے تھے، تو وہ بھلا اُن کا حصّہ کیسے کھا سکتی تھی۔ کبھی کبھار اس کا جی چاہتا کہ خود کُشی کرلے، پھر خیال آتا کہ ایسا کرکے تو وہ اپنی آخرت برباد کرلے گی۔
ایک دن گھر میں خرچے کو لے کر بہو، بیٹے میں خُوب جھگڑا ہوا اور بہو یہ کہہ کر اپنے دونوں بچّے میکے لے گئی کہ ’’جب تک امّاں کو دارلامان نہیں بھیجو گے، واپس نہیں لَوٹوں گی۔‘‘ شعیب بیوی کونہ روک سکا، تو ماں پر برس پڑا کہ ’’تمہاری وجہ سے میری بیوی گھر چھوڑ کر چلی گئی۔‘‘ وہ رات حوّا پر بہت بھاری گزری، اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔ اگلے دن وہ محلّے کی رشیداں کے ساتھ اُس کے کارخانے جاپہنچی جہاں وہ پیکنگ کا کام کرتی تھی۔
کارخانے کا مالک اچھا آدمی تھا، وہ بزرگ خواتین کا احترام بھی کرتا اور انہیں کام بھی دیتا تھا، حوّا کی مجبوری سمجھتے ہوئے اس نے حوّا کو کام پر رکھ لیا۔ مینیجر نے رجسٹر کھولا اور پوچھا ’’بی بی! اپنا نام بتاؤ۔ ‘‘’’میرا نام حوّا ہے۔‘‘ اس نے بلا توقف، انتہائی خود اعتمادی سے جواب دیا۔اُس کی آواز صاف اور انداز دو ٹوک تھا۔