ویڈیو گیمز فائدہ مند ہیں یا نقصان دہ؟یہ سوال کئی برس سے نفسیات، سماج اور سائنس کے ماہرین میں موضوعِ بحث ہے، تاہم، یہ بحث اب تک کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی۔ اِس بحث میں اُس وقت مزید شدّت آ جاتی ہے، جب ویڈیو گیمز سے متاثرہ کسی نوجوان کے ہاتھوں کہیں کوئی پُرتشدّد واقعہ رُونما ہوتا ہے، جیسے 1999ء میں امریکا کے کولمبیا ہائی اسکول میں فائرنگ کا واقعہ پیش آیا، جس میں 12طلبہ ہلاک ہوگئے، تو ویڈیو گیمز کو اس کا ایک اہم سبب قرار دیا گیا۔
پاکستان میں بھی ویڈیو گیمز کی مقبولیت کے بعد یہ موضوع وقتاً فوقتاً زیرِ بحث رہا ہے، لیکن گزشتہ دنوں ایک دل خراش واقعے نے ماہرین کو ایک بار پھر اس کی جانب متوجّہ کیا، جب لاہور کے نواح میں ایک نوجوان نے اپنی ماں اور دو کم سِن بہنوں کو قتل کر دیا۔تفتیش کے دَوران معلوم ہوا کہ یہ قاتل نوجوان ایک ویڈیو گیم، پب جی کا رسیا تھا، جس میں لوگوں کو قتل کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ اس نوجوان نے اعتراف بھی کیا کہ وہ اس کھیل کا نشے کی حد تک عادی ہو چُکا تھا۔نوجوان کا خیال تھا کہ وہ جن لوگوں کو قتل کر رہا ہے، وہ مرنے کے بعد زندہ ہو جائیں گے، جیسا کہ اس کھیل میں ہوتا ہے۔
اِس امر میں کوئی شک نہیں کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ہمہ جہت ترقّی میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے، لیکن اس کے بعض منفی پہلو بھی ہیں، جو ماہرین کے لیے تشویش اور پریشانی کا باعث ہیں، جیسے ویڈیو گیمز۔ 1947ء میں کمپیوٹر کا سائز کسی کمرے کے برابر ہوتا تھا، لاتعداد الیکٹرانک آلات اور پورے کمرے میں پھیلی تاروں کے ذریعے بہت بڑی اسکرین پر تصاویر، اعداد اور نقطے اُبھرتے، جنھیں ہاتھوں میں اُٹھائے آلات سے کنٹرول کیا جاتا۔
سائنسی فارمولوں اور ریاضی کے حساب کتاب کے ساتھ جب ناظرین کی عام دِل چسپی اور تفریح کی چیزیں بنانے کی ضرورت محسوس ہوئی، تو بچّوں اور نوجوانوں کی توجّہ حاصل کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے کمپیوٹر گیمز بنائے گئے، جن میں الفاظ اور تصاویر کے ذریعے سادہ سے کھیل کھیلے جاتے۔ ان گیمز میں بچّوں اور نوجوانوں کی دل چسپی کا ایک بڑا سبب یہ تھا کہ وہ مائوس کے ذریعے کمپیوٹر اسکرین کی تصاویر کو حسبِ منشا حرکت میں لا سکتے تھے۔ خیال ہے کہ 1950ء کی دہائی کے شروع میں کمپیوٹر کا سب سے پہلا کھیل منظرِ عام پر آیا، جس میں کھلاڑی اسکرین پر بنے ایک میزائل کو ایک نقطے سے تباہ کر دیتا ہے۔
پھر جوں جوں کمپیوٹر پروگرامنگ اور ڈیزائننگ میں ترقّی ہونے لگی، ویڈیو گیمز میں بھی جدّت آنے لگی۔ دنیا کا پہلا باقاعدہ ویڈیو گیم ایک امریکی ماہرِ طبیعات، ولیم ہیگن بوتھم نے اکتوبر 1958 ء میں ایجاد کیا۔ یہ ایک سادہ سا ٹیبل ٹینس گیم تھا، جس میں کھلاڑی، اسکرین پر ٹیبل ٹینس کھیلتا۔ اس سے پہلے بوتھم راڈار سسٹم پر تصاویر اجاگر کرنے اور دوسرے الیکٹرانک آلات پر کام کرتا رہا تھا، اِس لیے اُسے یہ کھیل کمپیوٹر اسکرین پر منتقل کرنے میں کسی بڑی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور اس مقصد کے لیے مخصوص آلات بنانے میں محض دو ہفتے لگے۔
اس کھیل کا نام’’ Tennis For Two ‘‘ تھا۔ اس میں پلیئر کے ہاتھ میں گیم کنٹرول کرنے والا ایک بڑا آلہ ہوتا، جس کے ذریعے وہ گیند کی سمت تبدیل کر سکتا تھا۔ پھر وہ ایک بٹن دبا کر بال دوسرے سرے پر موجود کھلاڑی کی طرف پھینکتا۔ اُس زمانے میں کمپیوٹر مخصوص جگہوں پر نصب ہوتے، مگر یہ کھیل اِس قدر مقبول ہوا کہ لوگ اسے کھیلنے کے لیے قطاروں میں لگے رہتے۔ 1964 ء میں امریکا میں پہلی مرتبہ دو ویڈیو گیمز باقاعدہ طور پر رجسٹر کروائے گئے، جس کے چند سال بعد درجنوں ویڈیو گیمز مارکیٹ میں موجود تھے ۔’’ Pong ‘‘نامی کھیل کو پہلا ہوم ویڈیو گیم قرار دیا جاتا ہے۔
اُس زمانے میں ویڈیو گیمز کی اِتنی بھرمار ہو گئی کہ سستی ویڈیوز بنانے والی کئی جعلی کمپنیز وجود میں آ گئیں۔ چوں کہ یہ کاروبار کسی قانون کے تابع نہیں تھا اور گیمز سستے داموں فروخت ہو رہے تھے، اِس لیے 1983ء میں مارکیٹ کریش کر گئی۔ بعدازاں، ویڈیو گیمز کی تیاری اور فروخت کا یہ کام امریکا سے جاپان منتقل ہو گیا۔
وہاں سے کوریا اور اُس کے بعد ایک مرتبہ پھر امریکا منتقل ہو ا، جہاں سیکڑوں کمپنیز نت نئے ویڈیوز گیمز مارکیٹ میں لا رہی تھیں، تاہم اب یہ کام قوانین کے مطابق ہی ہو رہا تھا، اِس لیے صحت مند مقابلے کے رجحانات پیدا ہونے لگے۔ پاکستان میں بھی 1980ء اور 90ء کی دہائی میں گلی محلوں میں ویڈیو گیمز کے مراکز کُھل گئے، جہاں بچّوں اور نوجوانوں کا جمگھٹا لگا رہتا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ کا ایک بڑا حصّہ، کمپیوٹر گیمز کے کاروبار پر مشتمل ہے۔ 2020ء میں گلوبل ویڈیو گیمز کے کاروبار کا حجم 159بلین ڈالرز تھا۔
ان ویڈیو گیمز میں موبائل گیمز کا حصّہ 48فی صد، Consoleگیمز 28فی صد اور پرسنل کمپیوٹر گیمز کا حصّہ 23فی صد تھا، لیکن یہ اعداد وشمار حتمی نہیں کہ دنیا بھر میں پھیلی اِس وبا کی حقیقی وسعت کا اندازہ کرنا آسان نہیں۔ البتہ،ماہرین کے محتاط اندازے کے مطابق، اِس کاروبار میں ہر سال حیرت انگیز اضافہ ہو رہا ہے۔
مثلاً 2017ء میں کاروباری حجم کی شرح تقریباً 79بلین ڈالرز تھی، جو 2020ء میں 90بلین ڈالرز اور 2021ء میں ڈیڑھ سو ارب ڈالرز سے تجاوز کر گئی، جب کہ 2024ء میں اس کا تخمینہ 257ارب ڈالرز لگایا گیا ہے، جو پاکستانی کرنسی میں کھربوں روپے بنتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ دنیا میں روزانہ 2ارب افراد مختلف ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں، جن پر کروڑوں ڈالر صَرف ہوتے ہیں۔ اِس وقت چین، کیمپوٹر گیمز کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے اور اُس کے بعد امریکا کا نمبر ہے۔
ویڈیو گیمز کے پھیلائو کے ساتھ ہی اس کے منفی اور مثبت پہلوئوں پر بھی بحث ہونے لگی تھی۔ امریکا میں یہ سوال اُٹھا کہ یہ گیمز آرٹ ہیں یا صرف انڈسٹری؟ آخر کار یہ بحث مباحثہ امریکی سپریم کورٹ تک جا پہنچا، جس نے 2011ء میں ویڈیو گیمز کے آرٹ ہونے کا فیصلہ سُنا دیا۔ویڈیو گیمز کی بازگشت امریکی کانگریس میں بھی سنائی دی۔ اس فیصلے کے بعد دنیا بھر میں ویڈیو گیمز کی تیاری مزید تیز ہوگئی۔
اِس وقت دنیا میں سیکڑوں کمپنیز ویڈیو گیمز بنا رہی ہیں، جن میں یہ 10سرِفہرست ہیں۔ (1)سونی، جاپان، ریونیو 25ارب ڈالر۔(2)ٹین سنیٹ، چین، ریونیو14 ارب ڈالرز۔( 3) Nintendo ، جاپان، ریونیو12 ارب ڈالرز۔( 4) مائیکرو سافٹ، 11.6 ارب ڈالرز۔ ( 5) ایکٹی وژن، 8 ارب ڈالرز۔( 6)الیکٹرانک آرٹس، ریونیو 5.5بلین ڈالرز۔ ( 7)ایپک گیمز، ریونیو 4.2بلین ڈالرز۔( 8) ٹیک ٹو انٹرایکٹو، امریکا، ریونیو 3ارب ڈالرز۔( 9)سیگا سامے، جاپان، ریونیو 2.3بلین ڈالرز۔( 10)ٹی نامکو، جاپان، ریونیو 2.2بلین ڈالرز۔وقت کے ساتھ، ویڈیو گیمز بنانے والی کمپنیز کی تعداد اور ریونیو میں ریکارڈ اضافہ ہو رہا ہے۔ کورونا وبا کے دوران جب لوگ گھروں میں مقید ہو کر رہ گئے، تو اُنھوں نے وقت گزارنے کے لیے ویڈیو گیمز کا سہارا لیا۔2020 ء کی رپورٹس کے مطابق، امریکا اور برطانیہ میں لوگوں نے بالترتیب 13 اور 11گھنٹے فی ہفتہ ویڈیو گیمز پر صَرف کیے، جو ماضی کی نسبت خاصی بلند شرح ہے۔
2020ء میں آکسفورڈ یونی ورسٹی میں 18سال سے زاید عُمر کے 3274گیمرز پر ریسرچ کے بعد ماہرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ویڈیو گیمز ذہنی صحت کے لیے مفید ہیں، کیوں کہ ان سے اچھا محسوس کرنے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ ایک امریکی ماہرِ نفسیات، پروفیسر ریگن مائیڈرک نے کہا کہ کمپیوٹر گیمز ذہنی دبائو کم کرتے ہیں، لیکن والدین کی اکثریت کے تحقیق کے ان نتائج پر تحفّظات تھے، بالخصوص 1999ء میں کولمبیا ہائی اسکول میں جب ایک طالبِ علم نے اندھا دھند فائرنگ کرکے اپنے کئی ساتھی طلبہ ہلاک کر دیے، تو اس واقعے کا محرّک ویڈیو گیمز میں دکھائے جانے والے تشدّد اور قتلِ عام کو قرار دیا گیا۔ عالمی ادارۂ صحت نے ویڈیو گیمز کے بارے میں کہا کہ اس کے منفی اثرات خارج از امکان نہیں۔اسی دوران امریکن سائیکاٹرسٹ ایسوسی ایشن نے اس بات کو ایک مفروضہ قرار دیا کہ ویڈیو گیمز تشدّد کا رجحان پیدا کرتے ہیں، تاہم اس بات کی تردید کرنے والے ماہرینِ نفسیات کی بھی کمی نہیں۔
پب جی گیم
اگرچہ مارکیٹ میں لاکھوں ویڈیو گیمز دست یاب ہیں، لیکن حالیہ دنوں میں جو مقبولیت پب جی نامی کھیل کو حاصل ہوئی، اس نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔اس کا پورا نام ’’ Player Unknown's Battle Grounds‘‘ ہے۔ یہ گیم چین میں گیم فارپیس اور بھارت میں بیٹل گرائونڈز موبائل انڈیا، کے نام سے معروف ہے۔ اس کھیل کا آغاز9 فروری 2018ء کو ہوا اور اسے برینڈن گرین نے ڈیزائن کیا، جب کہ اس کی تیاری لائٹ اسپیڈ اینڈ کوانٹم اسٹوڈیو میں کی گئی، جو کوریا کی کرافٹن کمپنی کے تحت کام کرتا ہے اور مائیکرو سافٹ کارپوریشن کا حصّہ ہے۔
ابتدا میں اسے پب گیم اسٹوڈیوز میں بنایا گیا۔ مارچ 2021ء کے ایک سروے کے مطابق، یہ 2020 ء میں سب سے زیادہ کھیلا جانے والا ویڈیو گیم تھا، جس کے صارفین کی تعداد ایک ارب کے لگ بھگ ہے۔ 2020 ء میں اس گیم سے ہونے والی آمدنی 2.6 بلین ڈالرز (تقریباً ساڑھے تین کھرب روپے) تھی، جب کہ یہ گیم دسمبر 2021 ء تک تقریباً 7 ارب ڈالرز سے زاید کما چکا تھا۔ اس گیم کے موجد کا تعلق آئرلینڈ سے ہے، جس نے ایک جاپانی فلم سے متاثر ہو کر اس کا خاکہ تیار کیا۔ وہ ابتدا میں ایک فوٹو گرافر اور گرافک ڈیزائنر تھا، برازیل، امریکا اور کوریا میں کام کرتا رہا۔اس گیم میں بیک وقت ایک سو تک کھلاڑی حصّہ لے سکتے ہیں، جب کہ 4افراد پر مشتمل اپنی ٹیم بھی بنائی جا سکتی ہے۔ اِسی لیے اسے ملٹی پلیئر کہا جاتا ہے۔
ابتدا میں ایک ہوائی جہاز کے ذریعے کھلاڑیوں کو مخصوص نقشوں کے ساتھ چند کلومیٹر پر محیط ایک جزیرے پر پیرا شوٹ کے ذریعے گرا دیا جاتا ہے، جہاں ویران عمارتوں اور جنگلوں میں دشمن اور اسلحہ چُھپا ہوتا ہے۔ کئی گھنٹوں کے اس کھیل میں کھلاڑی کو اسلحہ تلاش کرکے مخصوص علاقوں میں چُھپے اپنے دشمنوں کو ختم کرنے کے ساتھ، خود کو دوسروں کے حملوں سے بھی بچانا ہوتا ہے۔ یہ ایک طرح سے ذہنی صلاحیتوں اور حاضر دماغی کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ خود کو کس طرح دشمنوں سے بچاتا ہے۔
یہ کھیل گھنٹوں چل سکتا ہے۔ جوں جوں وقت گزرتا ہے، کھلاڑی کے لیے وہ علاقہ محدود اور تنگ ہوتا جاتا ہے اور یہ کھلاڑی پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اس سے کس طرح نکلتا ہے۔ اس گیم کے ٹورنامنٹس بھی ہوتے ہیں، جن میں بیک وقت درجنوں کھلاڑی حصّہ لیتے ہیں۔ بھارت میں یہ کھیل سب سے زیادہ کھیلا جاتا ہے اور اس حوالے سے یہ دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے، لیکن دو سال قبل بعض منفی رپورٹس پر اسے دو سال کے لیے بند کردیا گیا تھا۔ پاکستان میں بھی چند سال قبل پب جی گیمز کے حوالے سے کئی تشویش ناک واقعات دیکھنے میں آئے۔ لاہور کے ایک گیم پارٹنر نے کراچی کی ایک خاتون کو لاہور بُلا کر بے آبرو کردیا تھا۔
اسی طرح کچھ سال قبل کئی لڑکوں کی خود کُشی کو بھی اس گیم کے تشدّد آمیز واقعات کا نتیجہ بتایا گیا تھا۔ لاہور میں حالیہ الم ناک واقعے کے بعد اس گیم پر پابندی کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ، جس میں کہا گیا کہ یہ ویڈیو گیم نوجوانوں میں تشدّد کے جذبات اُبھارنے کا باعث ہے اور 2018ء میں عالمی ادارۂ صحت بھی اس پر اپنے تحفّظات کا اظہار کر چکا ہے۔ درخواست گزار نے یہ بھی لکھا کہ اس گیم کے ذریعے آنکھوں پر منفی اثرات مرتّب ہونے کے ساتھ، آدھے سر کے درد، موٹاپے، بے خوابی اور تشدّد کے رجحان کو فروغ ملتا ہے۔نیز، کھلاڑی اس پر جوا بھی کھیلتے ہیں۔
ماہرینِ نفسیات کیا کہتے ہیں؟
اسسٹنٹ پروفیسر سائیکاٹری، شیخ زید اسپتال، لاہور، ڈاکٹر نبیل عباد کا کہنا ہے کہ’’ ویڈیو گیمز تیز دھار نشتر کی مانند ہیں، جن سے آپ برائیوں کی جڑ کاٹ سکتے ہیں اور کسی کو نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ویڈیو گیمز صرف بچّے اور نوجوان کھیلتے ہیں، لیکن مَیں نے دیکھا ہے کہ اِن میں ہر عُمر اور ہر صنف کے افراد اپنی دل چسپیوں کی راہیں تلاش کرتے ہیں۔بالعموم ویڈیو گیمز تفریح اور وقت گزاری کے لیے کھیلے جاتے ہیں۔ لوگ انھیں تنہا بھی کھیلتے ہیں، لیکن عوام کی اکثریت ٹیم کی صُورت کھیلنا پسند کرتی ہے کہ اس طرح دیگر کھلاڑیوں سے انٹرایکشن بڑھتا ہے، چاہے یہ کھلاڑی اندرونِ مُلک ہوں یا بیرونِ مُلک۔
اِس تناظر میں ماہرین اِن گیمز کو ٹیم کے ساتھ مل کر کام کرنے کی صلاحیت میں اضافے کا سبب قرار دیتے ہیں۔ انتہائی مختصر وقت میں فیصلہ سازی، حاضر دماغی، مدِ مقابل کو شکست، مشکل وقت اور حالات سے نکلنے کی صلاحیت، تفریح کے ساتھ خود اعتمادی کا احساس جیسے امور ویڈیو گیمز کے فوائد میں شمار ہوتے ہیں، لیکن ان کے منفی اثرات سے بھی انکار ممکن نہیں۔اگر جسمانی اثرات کی بات کی جائے، تو سب سے زیادہ اثر ہاتھوں اور انگلیوں، بالخصوص انگوٹھوں کے مسلز پر پڑتا ہے کہ موبائل فون یا کمپیوٹر ماؤس مسلسل ہاتھ میں رکھنا ہوتا ہے۔
دوسرا نقصان یہ ہے کہ کھلاڑی کھیل کے دوران مسلسل ذہنی دبائو میں رہتا ہے۔ اسے ہدف کے حصول میں ذہنی و جسمانی دبائو کا سامنا ہوتا ہے، جس سے مسلز میں اکڑائو پیدا ہوتا ہے۔ انگوٹھے کے مسلز کی سوزش اور ٹینڈن نرو کی انجری بھی ہوسکتی ہے، جسے طبّی اصطلاح میں’’GAMMERS THUMB SYNDROMME ‘‘ کہتے ہیں۔ ایک اور بیماری ہاتھ کی دو انگلیوں کے درمیان ایک نرو (NERVE) کے دَب جانے سے ہر وقت سنسناہٹ کا محسوس ہونا ہے۔ ویڈیو گیمز کا ایک اور منفی اثر بیٹھنے کے غلط انداز کی صُورت بھی ہوسکتا ہے، جس سے کمردرد، کندھوں میں اکڑائو اور مسلز کی اینٹھن پیدا ہوسکتی ہے۔
ایک اور منفی اثر نوجوانوں اور بچّوں میں موٹاپے کی صُورت میں نظر آیا ہے، کیوں کہ ویڈیو گیمز کوئی جسمانی سرگرمی تو ہیں نہیں۔ کھیل کے دوران دماغ کا ایک مخصوص حصّہ حرکت (STIMULATE) میں آنے سے بھوک کی مصنوعی طلب پیدا ہوتی ہے، جسے بچّے اور نوجوان جنک فوڈز اور سافٹ ڈرنکس سے مٹاتے ہیں اور پھر حد سے زیادہ کیلوریز سے موٹاپے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ دیگر منفی اثرات میں سردرد، بینائی کی کم زوری، آنکھوں کی جلن اور خارش وغیرہ شامل ہیں۔’’ڈاکٹر عباد کا مزید کہنا ہے کہ’’ اس کا سب سے منفی اثر کھلاڑیوں کا نشے کی حد تک عادی ہو جانا ہے۔ اصل میں ہر چیز تین مراحل سے گزرتی ہے۔
یعنی استعمال، اس کے بعد ضرورت سے زیادہ استعمال اور پھر تیسرا مرحلہ، نشے یعنی عادی ہوجانا۔ اس مرحلے میں کھلاڑی اس کے بغیر رہ ہی نہیں سکتا۔ یہ ایک خطرناک مرحلہ ہے، جس سے ہمیں بچنا اور نوجوانوں کو بچانا چاہیے۔ ماہرین نفسیات نے اب اسے ’’گیمننگ ڈِس آرڈر‘‘ کا نام دیا ہے۔‘‘ ڈاکٹر نبیل کا ایک سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ’’ ہر گیم میں کھلاڑی کو ایک ریوارڈ یعنی انعام نمبرز کی صُورت ملتا ہے۔ کم نمبرز آئیں، تو وہ زیادہ کی تگ و دو کرتا ہے اور زیادہ آئیں، تو وہ اس سے بھی زیادہ کی جدو جہد کرتا ہے۔
یہی جدوجہد اسے ویڈیو گیم کے نشے کی طرف لے جاتی ہے، جس کی کوئی حد نہیں۔ سماجی سرگرمیاں، دوستوں سے ملنا جلنا، بات چیت، نصابی اور تعلیمی سرگرمیاں، جسمانی کھیل کود، رشتے داروں سے میل جول، سب آہستہ آہستہ ختم ہوجاتے ہیں اورکھلاڑی ایک مخصوص دائرے میں قید ہوکر رہ جاتا ہے۔ اپنی ذات میں گم ان کھلاڑیوں کا مُوڈ بھی متاثر ہوتا ہے اور بعض نوجوان شادی شدہ جوڑوں کی گھریلو زندگی بھی متاثر ہوتی ہے۔
کھلاڑیوں کی نیند پر بھی منفی اثر پڑتا ہے، کیوں کہ رات کو کمپیوٹر اسکرین کی روشنی میں نیند لانے والے میلاٹونن نامی ہارمون کی ایک دماغی گلینڈ سے پیداوار کم ہو جاتی ہے۔ ایک اور بڑا نقصان ویڈیو گیمز کی ہلاکت خیز اسلحے کے ساتھ پُرتشدّد کارروائیاں ہیں، جو کھیلنے والے کو تشدّد اور قتل و غارت پر اکساتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کئی کھلاڑیوں نے گیم کھیلنے کے بعد عملی زندگی میں بھی قتل و غارت اور خود کُشی جیسے اقدامات کیے۔‘‘’’ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟‘‘
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر نبیل عباد نے کہا،’’ویڈیو گیمز پر قانوناً پابندی عاید نہیں کی جاسکتی اور نہ آپ کسی کے کمرے میں پہرے دار بٹھاسکتے ہیں، البتہ والدین کاؤنسلنگ ضرور کرسکتے ہیں۔ جب کہ میرے نزدیک سب سے بڑا پہرے دار اور مصلح خود ایک کھلاڑی ہے۔اُسے خود یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ گیمز کنٹرول میں ہیں یانہیں؟ اگر گیم کھیلنا ضروری ہی ہے، تو کم از کم اُس کے لیے ایک وقت ضرور مختص کرنا چاہیے، جس سے تعلیمی، گھریلو اور سوشل لائف متاثر نہ ہو۔متذکرہ فرد گھر سے باہر تفریحی اور سماجی سرگرمیوں اور جسمانی کھیلوں پر بھی توجّہ دے۔
گیم کھیلتے وقت اپنے پوسچر ،یعنی بیٹھنے کے انداز کا خاص خیال رکھیں کہ جس سے پٹّھوں میں کھنچائو محسوس نہ ہو۔ نظر کی تھکاوٹ دُور کرنے کے لیے ایک سادہ سا فارمولا اپنائیں، جسے 20+20+20کا نام دیا گیا ہے یعنی ہر 20منٹ بعد اسکرین سے نظریں ہٹا کر 20 سکینڈ تک، 20 فٹ کے فاصلے پر رکھی کسی چیز کو دیکھیں، تو اس سے آنکھیں ریلیکس ہوں گی۔ اپنی نیند کا خاص خیال رکھیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر کوئی فرد سمجھے کہ اس کی یہ عادت کنٹرول سے باہر ہو رہی ہے، تو وہ ضرور کسی ماہر نفسیات سے مشورہ کرے۔‘‘
’’مَیں ویڈیو گیمز کیوں کھیلتا ہوں؟‘‘
اسامہ احمد، اُن ہزاروں تعلیم یافتہ نوجوانوں میں سے ایک ہے، جس کا بچپن ویڈیو گیمز کھیلتے گزرا، تو اب ایک یونی ورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد بھی اُن سے دل بہلاتا ہے۔ اسامہ احمد کا کہنا ہے’’ مجھے یاد ہے کہ ہم اسکول کے زمانے میں گھر والوں کو بتائے بغیر گلی میں موجود ویڈیو گیمز سینٹرز چلے جاتے تھے، پھر جب موبائل فونز، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، انٹرنیٹ اور ٹیبلیٹس عام ہو گئے، تو ان گیمز نے ایک خوف ناک وبا کی طرح نوجوان نسل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ کوورنا کے دوران تو یہ وبا بہت تیزی سے پھیلی کہ گھر میں لوگ فارغ تھے۔
ان گیمز کے منفی اثرات کا سب کو علم ہے۔پٹھوں کے کھنچائو، انگلیوں اور انگوٹھے کا اعصابی دبائو اور کم زوری، کمر درد، دوستوں، رشتے داروں سے دوری، نیند میں کمی اور موٹاپے جیسے عوارض پیدا ہو سکتے ہیں، لیکن اگر ہم لوگ باز نہیں آتے، تو اس کی وجہ ان گیمز میں دلدل کی طرح دھنستے چلے جانا ہے کہ گیم میں اگر کھلاڑی ہار جائے، تو جیتنے کا ٹارگٹ اور جیت جائے، تو مزید اسکور کرنے کا جنون اسے گھنٹوں، بلکہ رات بھر مصروف رکھتا ہے۔مَیں مخصوص وقت میں اس لیے کھیلتا ہوں کہ یہ دماغی صلاحیتوں، ذہنی کارکردگی، حاضر دماغی، مہم جوئی اور مدّمقابل کو شکست دینے کا امتحان ہوتا ہے، جو آپ گھر بیٹھے دیتے ہیں اور پھر اگر آپ چار پانچ دوستوں کی ٹیم بناکر کھیلتے ہیں، تو باہمی رابطوں، دوستیوں اور مشترکہ کاوشوں سے انسان انجوائے کرتا ہے۔
یہ گیمز آنکھوں اور انگلیوں کے کوآرڈی نیشن اور لمحہ بہ لمحہ مہارت کا بھی امتحان ہوتے ہیں کہ جیت کا انحصار صرف چند سیکنڈز پر ہوتا ہے۔‘‘اسامہ کے مطابق، اب پاکستانی کھلاڑی بھی ملٹی نیشنل کمپنیز کے اسپانسرز کے تحت کوریا اور امریکا میں منعقد ہونے والے ٹورنامنٹس میں حصّہ لے کر پیسے کما رہے ہیں۔ کوریا کے کھلاڑی اس وقت ٹاپ پر ہیں، لیکن پاکستان بھی نہایت تیزی سے اپنا نام بنا رہا ہے اور خود کوریا کے کھلاڑی، پاکستانی نوجوانوں کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔
اسامہ کا مزید کہنا ہے کہ،’’گیمز بذات خود بُرے نہیں، ان میں شطرنج کی طرح دماغ لڑانا پڑتا ہے، لیکن اب گیمز میں قتل و غارت اور تشدّد کا جو رجحان چل پڑا ہے، وہ خطرناک ہے۔ غیر ممالک میں ایسے گیمز کے لیے عُمر کی پابندی ہے اور پاکستان میں بھی ہے، لیکن صورتِ حال اس وقت خراب ہوتی ہے، جب چھوٹے بچّے بھی بلا روک ٹوک تشدّد آمیز گیمز خریدتے ہیں اور والدین بھی انہیں منع نہیں کرتے۔
اگر والدین منع بھی کریں، تب بھی وہ ویڈیو گیمز سینٹرز چلے جاتے ہیں۔ بہرحال، یہ عادت اعتدال میں رہے، تو اچھی بات ہے لیکن ہمارے ہاں جب کسی چیز کا شوق ہو تو ہم ہر حد پار کر جاتے ہیں، یہی حال ویڈیو گیمز کا ہے۔ہر کھیل ایک مقرّرہ وقت میں ختم ہو جاتا ہے، لیکن ویڈیو گیمز کے لیے وقت کی کوئی قید نہیں، یہی امر تشدّد آمیز واقعات اور ان گیمز کا عادی بننے کا سبب ہے۔‘‘