• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زارِ روس کے زمانے سے یورپی ممالک یورپ ایشیائی حصے میں پھیلے ہوئے روس سے ہمیشہ سہمی رہتی تھیں، باوجود اس کے کہ بعض یورپی ممالک نے آدھی سے زیادہ دُنیا کے ممالک کو اپنی نوآبادیات بنا رکھا تھا اور یورپ کے ایوانوں میں غریب ممالک کی محنت مشقت سے حاصل گھی تیل کے چراغ جلتے تھے، مگر دُنیا میں ہمیشہ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی تنازع پر جنگ جاری رہی۔ دُنیا کبھی چین سے نہیں بیٹھی۔ ایسے میں زار روس ایک بڑی طاقت کا مالک تھا، سب سے بڑی ریاست کا فرمانروا تھا، اس نے اطراف کے چھوٹے بڑے ممالک کو کسی نہ کسی وجہ تنازع کے بہانے روس میں شامل کر لیا۔ 

امریکا اور نیٹو نے روس کے لیے گوریلا جنگ کا جال بچھادیا

اس طرح پندرہ سے زائد یورپی وسطی ایشیائی ریاستیں روس کا حصہ بن گئیں۔ ان میں سب سے بڑی ریاست یوکرین تھی اس کا رقبہ بھی زیادہ اور آبادی بھی زیادہ تھی۔بعدازاں 1917ء کے اشتراکی انقلاب کے بعد بھی کمیونسٹ حکومت نے ان ریاستوں کو سابق سوویت یونین میں شامل رکھا۔ گوربا چوف کے دور میں یوکرین نے آزادی مانگی اور الگ ہوگیا تھا۔ پھر کچھ عرصہ بعد نوے کی دہائی میں دُنیا نے دیکھا سپر پاور سوویت یونین کس طرح منتشر ہوگیا۔ ایک گولی نہیں چلی اور پندرہ سے زیادہ ریاستیں الگ ہوگئیں۔ روس واپس زارِ روس کے اوّلین دور کی حدود میں آ گیا۔ یہ بیسیویں صدی کا ایک بہت بڑا واقعہ تھا۔ سوویت یونین ستّر برسوں میں ڈھیر ہوگیا جس کے پاس امریکہ سے زیادہ جوہری ہتھیار، بیلسٹک میزائل دیگر خطرناک ترین ہتھیاروں سمیت ایڈوانس خلائی ٹیکنالوجی تھی۔ مگر روٹی، آلو، گوشت روزگار نہ تھا۔

اب چین وہی حکمتِ عملی اپناسکتا ہے جو روس نے یوکرین کے خلاف اپنائی ہے

روس کے شہروں میں روٹی، آلو، گوشت، دُودھ کے لئے عوام کی طویل قطاریں لگتی تھیں۔ ملک میں گوربا چوف اور یلسن جیسے بزدل، ناتجربہ کار، نااہل حکمرانوں کی حکومت تھی تاہم اندرون خانہ جو بھی ہوا مگر سوویت یونین منتشر ہوگیا۔ برسبیل تذکرہ پاکستان کے معروف ترقّی پسند شاعر فیض احمد فیض ساٹھ کی دہائی میں ماسکو سے لینن پرائز لے کر لوٹے تھے تب ہی انہوں نے یہ پیش گوئی کر دی تھی کہ وہاں لوگ مطمئن نہیں ہیں۔ 

مغربی میڈیا میں یہ خبریں آنا شروع ہو چکی تھیں کہ کمیونسٹ پارٹی کے بیش تر رہنما کرپشن میں ملوث ہیں۔ ہر ویک اینڈ پر ناروے، فن لینڈ، ڈنمارک وغیرہ چلے جاتے ہیں۔ معیشت ڈُوب رہی ہے، بدعنوانی عام ہے اور حکومت افراتفری کا شکار ہے۔ تاریخ بتلاتی ہے کہ جب سیاسی رہنما، دانشور اپنی اپنی خواہشات کے مطابق حالات کا تجزیہ کرنے لگتے ہیں تو وہاں فکری انحطاط جڑ پکڑنے لگتا ہے زوال ان کا مقدّر بن جاتا ہے۔

1991ء میں سوویت یونین کے منتشر ہونے کے بائیس سال بعد یوکرین کو جب یورپی یونین نے ایک معاشی پیکیج کے ساتھ یونین میں شمولیت کی دعوت دی تا کہ پسماندہ غریب یوکرین کے عوام کو ترقّی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کیا جائے جس پر یوکرین کے عوام کی بڑی تعداد خوش تھی مگر اس وقت کے روس نواز صدر نے یورپی یونین کی اس پیش کش کو رَدّ کر دیا۔ جس پر پہلی بار یوکرین میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ 

عوام کو یہ غم و غصّہ تھا کہ ایک فردِ واحد اپنے ذاتی نظریہ کے بل بوتے پر عوام کی قسمت کا فیصلہ کر رہا ہے۔ ہنگاموں میں جو دس بارہ روز تک مسلسل جاری رہے ڈھائی سو کے قریب شہری ہلاک ہوئے۔ پھر ایک سال بعد ہنگامے ہوئے تو مذاکرات ہوئے معاہدہ ہوا۔ درحقیقت یوکرین کے ساتھ ایک مسئلہ یہ چلا آ رہا تھا کہ اس کی مجموعی آبادی میں لگ بھگ بتیس فیصد باشندے روسی بولنے والے تھے جو اندرونِ خانہ یوکرین سے الگ اپنی ریاست کا قیام چاہتے تھے۔ 2014ء کے ہنگاموں کے بعد یہ تحریک آہستہ آہستہ آگے بڑھتی رہی اور یوکرین کی حزب اختلاف نے روس کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ یہاں تک کہا جانے لگا کہ روسی بولنے والوں کو روس ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔

اس طرح یوکرین سیاسی اور لسانی طورپر دو اکائیوں میں بٹتا رہا۔ اس حوالے سے شورش جاری رہی۔ بات یہاں تک پہنچی کہ عوام کی اکثریت یورپی یونین میں شمولیت کے حق میں تھی، دُوسری طرف روسی اقلیت علیحدہ ریاست کا مطالبہ کررہی تھی۔ آخر کار پھر روس نے مداخلت کی، بیس برس قبل روس اس مسئلے پر کریمیا پر قبضہ کر چکا تھا جہاں اس کی برّی اور بحری فوج کے اڈّے ہیں۔ 

مگر اس بار روسی صدر ولادی میر پیوٹن جو روس کو اس کی تیس برس قبل کی عالمی حیثیت دلوانا چاہتے ہیں انہوں نے حتمی فیصلہ کر لیاکہ یوکرین کی مشرقی سرحد پر واقع دونوں بڑے شہروں اور ان کے اطراف کے علاقوں کو یوکرین سے الگ کر کے ایک نئی ریاست تشکیل دی جائے جہاں یوکرینی روسی آباد ہوں اس بفر اسٹیٹ کو روس یورپی یونین اور نیٹو کبھی یوکرین میں آئیں تو استعمال کیا جا سکے۔ دُوسرے لفظوں میں روس اپنی سرحد اور یوکرین کی سرحد کے بیچ ایک بفر اسٹیٹ قائم کرنا چاہتا ہے۔

واضح رہے کہ جب ہندوستان برطانیہ کی نوآبادیات تھا اس دور میں برطانیہ کے معروف رہنما ونسٹن چرچل کو یہ فکر لاحق تھی کہ روس جس طرح اپنے اطراف کے چھوٹے ممالک کو اپنے میں ضم کر رہا ہے اس طرح وہ افغانستان میں آ سکتا ہے تو وہ یہاں نہیں رُک سکتا اور ہندوستان کی طرف پیش قدمی کرے گا ایسے میں ہندوستان اور افغانستان کےبیچ ایک بفر اسٹیٹ قائم کی جائے۔

اس طرح روسی صدر بھی بفر اسٹیٹ کے حوالے سے کام کر رہے ہیں۔ تاریخ میں اس نوعیت کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں مگر زیادہ تر ریاستیں قلعہ بند ہو کر رہتی تھیں۔ یوکرین کے مسئلے میں ہر دو جانب طاقتور گروہ موجود ہیں ایک طرف روس ہے تو دُوسری طرف نیٹو اس کا حریف ہے۔ نیٹو مشرقی یورپ کی ریاستوں کو یورپی یونین اور نیٹو میں شامل کرنا چاہتا ہے۔ اس ضمن میں یوکرین کے عوام کی اکثریت یورپی یونین کا حصہ بننا چاہتی ہے۔ 

مگر روس مشرقی یورپی ممالک کی اس خواہش کو شدید ناپسند کرتا ہے۔ روس کا مطمع نظر یہ ہے کہ مشرقی یورپی ممالک جو ماضی قریب تک سوویت یونین کا حصہ رہی تھیں، وہ ریاستیں یورپی یونین میں شمولیت اختیار نہ کریں اب جبکہ ولادی میر پیوٹن روس کے صدر ہیں، ان کی بڑی خواہش ہے کہ سابق ریاستیں دوبارہ روس کا حصہ بن جائیں اگر ایسا نہ ہو تو کم از کم ان ممالک میں ماسکو نواز حکومتیں قائم ہو جائیں تا کہ روس اپنی ماضی قریب کی سپر پاور والی حیثیت کا احیاء کر سکے۔

بلاشبہ روس جدید ہتھیار سازی میں بہت ترقّی کر چکا ہے اور وہ اپنی معیشت کا زیادہ حصہ ہتھیاروں کی عالمی منڈی میں اپنے ہتھیاروں کی فروخت کے ذریعہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ دُوسرے لفظوں میں اب عالمی سطح پر دو بڑی طاقتیں ہتھیاروں کی سوداگر بن چکی ہیں پہلا امریکا اور اب دُوسرا روس۔

ایسے میں سیاسی، معاشی، تجارتی اور اپنی اپنی چوہدراہٹ کی شدید مخاصمت اور ایک دُوسرے پر سبقت لے جانے کی جدوجہد سامنے آ رہی ہے جو درحقیقت ایک نئی سرد جنگ کا آغاز ہے۔ دُنیا بتدریج دو متوازی دھڑوں میں بٹ چکی ہے۔

مذکورہ بالا صورت حال کسی بھی طرح سے دُنیا کے لئے سودمند نہیں ہے۔ انسانیت کے لئے ،قدرتی ماحول کے لئے، اس کرّۂ اَرض کی سلامتی کے لئے خطرات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دُنیا میں طاقت کے توازن میں جب جب جھول آیا ہے خوفناک جنگیں سامنے آئی ہیں۔

روس اگر واقعی پُرامن طور پر یہ مسئلہ حل کرنا چاہتا تو یہ ہو سکتا تھا مگر روس نے ماضی قریب میں بھی آبنائے کریمیا پر قبضہ کیا پھر معاہدہ کیا۔ جب یوکرینی عوام سراپا احتجاج ہوئے تو دھمکی کے ساتھ معاہدہ میں ترمیم کی۔

یورپی یونین میں ایک تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ روس کی یوکرین فتح سے یورپی ممالک میں روس کا اَثر بڑھ جائے گا۔ بیش تر مشرقی یورپی ریاستیں روس کی طرف مائل ہو جائیں گی، جو ممالک نیٹو کا حصہ ہیں ان میں بھی یہ سوچ جنم لے سکتی ہے کہ اس پورے خطّے میں روس زیادہ بڑا اور طاقتور ملک ہے اگر اس کے سائے میں آ جائیں تو خطرہ دُور ہو جائے گا۔ اس سوچ کے پروان چڑھنے سے نیٹو معاہدہ کمزور ہو سکتا ہے۔ 

یوکرین کا حشر انہیں نظر آ رہا ہے۔ اس طرح مستقبل قریب میں نیٹو معاہدہ مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے۔ لہٰذا روس سے دوستی زیادہ سودمند ہوگی۔ مگر ایک نقطہ نظر یہ بھی سامنے آ رہا ہے کہ امریکا اور نیٹو ممالک یوکرین کے عوام آہستہ آہستہ ہتھیار بند کررہے ہیں اور یوکرین کے قریبی ممالک بھی یوکرین کے عوام کو گوریلا تربیت دے رہے ہیں۔ وہ جلد ہی روس کے لئے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ مشرقی یورپی ریاستیں سابق سوویت یونین میں ایک کربناک زندگی گزار چکے ہیں، نئی نسل ایسی صورت حال کو قطعی پسند نہیں کر سکتی وہ لڑ مرے گی اور مارے گی۔ 

اس لئے دُوسرا حلقہ یہ کہتا ہے کہ یوکرین روس کے لئے دلدل ثابت ہو سکتاہے۔ یوکرین اور اس کے خاص خطّے میں گوریلا وار شروع کر سکتے ہیں ورنہ ڈر ہے کہ اگر روس یوکرین پر حاوی ہوجاتا ہے تو پھر وہ دُوسرے ممالک پر بھی ہاتھ ڈال سکتا ہے۔ ایسے میں روس کو مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس سوچ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ نیٹو کو مزید مضبوط کیا جانا چاہئے۔ رُکن ممالک کو اپنا اپنا بجٹ بڑھانا چاہئے اوریورپ کے دفاع کو اتنا مستحکم بنانا چاہئے کہ روس اس طرف قدم بڑھانے کے لیے نہ سوچ سکے۔ برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن نے حال ہی میں ایک بیان میں نیٹو کو مزید مستحکم کرنے کا اشارہ دیا ہے۔

روس کے صدر پیوٹن کی ایک طرف روس کے احیاء کی مہم دُوسری طرف نیٹو کے اراکین کی نیٹو کو مزید طاقتور بنانے کی خواہش خطّے میں ہتھیاروں کی نئی دوڑ کا سبب بن سکتی ہے۔ موجودہ حالات میں روس یورپی یونین پر بھاری ہے۔ اسی لئے روس جدید ہتھیاروں کی تیاری میں مغرب پر سبقت لے جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ دُوسرے اس کے پاس دُنیا کے تیل کے بڑے ذخائر ہیں، قدرتی معدنیات وافر مقدار میں موجود ہے۔ افرادی قوت تعلیم یافتہ، تربیت یافتہ اور محنتی ہے۔ اس کے تمام سائنس داں اور ماہرین اسلحہ سازی میں مصروف ہیں۔ ایسے میں یورپی یونین کو روس سے آگے نکلنے میں سو دُشواریوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ 

تازہ ترین خبریں یہ آ رہی ہیں کہ امریکا نے پولینڈ اور ہنگری میں پچاس ہزار سے زائد امریکی فوج اور جدید ترین اسلحہ پہنچا دیا ہے۔ دُوسری طرف نیٹو نے بھی اپنی فوجوں کو الرٹ کر دیا ہے۔ سلامتی کونسل میں پہلے ہی امریکا روس کے خلاف قرارداد پیش کر چکا ہے جس کی ووٹنگ میں بھارت اور متحدہ عرب امارات نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ 

اس پر میڈیا میں بہت کچھ کہا جا رہا ہے کہ ایک طرف بھارت امریکا سے ہتھیار بھی لے رہا ہے اس کے ساتھ دفاعی معاہدہ بھی کر چکا ہے اور امریکا بھارت تعلقات ماضی کے مقابلے میں بہت اچھے ہوگئے ہیں پھر بھی بھارت نے اس موقع پر امریکا کی طرفداری سے ہاتھ کھینچ لیا۔ روس کو بھارت نے یہ جتایا ہے کہ وہ اس کے ساتھ بھی ہے اور امریکا کے ساتھ بھی ہے۔ یہاں بھارت کی ڈپلومیسی کی دُھوم ہو رہی ہے کہ وہ روس سے ہتھیار خریدتا ہے۔ امریکا سے دفاعی معاہدہ کرتا اور چین سے ایک سو بیس ارب ڈالر سالانہ کی تجارت بھی کرتا ہے۔ دونوں ہاتھوں میں لڈّو کی کہاوت مشہور ہے مگر یہاں تین لڈّو ہیں۔ خارجہ پالیسی کا بھارتی توازن یا اس کو جو بھی عنوان دیا جائے میڈیا میں اس پر بحث جاری ہے۔

روس ایک طرح سے بھارت کی مجبوری بھی ہے کیونکہ بھارت کے پاس پچاس فیصد سے زائد اسلحہ روس کا ہے۔ اب جو اسلحہ خریدا ہے وہ بھی روس کا جدید میزائل ڈیفنس سسٹم ہے۔ میڈیا یو اے ای کی پالیسی پر بھی حیران ہے کہ اس نے سلامتی کونسل میں امریکا کی حمایت نہیں کی ووٹنگ میں بھارت کی طرح غیرجانبدار رہا۔ اس حوالے سے بعض مبصرین کی رائے یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات بھی روس سے جدید ہتھیاروں کی خریداری کے معاہدے کر رہا ہے۔

عالمی میڈیا میں جاری صورت حال میں چین کے کردار پر بھی بہت کچھ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ چین کے لئے یوکرین کا مسئلہ اور اس میں روس کا کردار یہ سب ایک ٹیسٹ چیک ہے جو کچھ چین تائیوان میں کرنا چاہتا ہے کچھ ایسا روس نے یوکرین کے ساتھ کیا۔ ایسے میں امریکا اور نیٹو کے ترش و تند بیانات سے اور کچھ نہیں ہوا امریکا نے یوکرین کو دھوکہ دیا۔ نیٹو نے آنکھیں بند کرلیں۔ کوئی زلزلہ نہیں آیا۔ کوئی بھونچال نہیں آیا۔ بیانات آتے رہے۔ دھمکیاں آتی رہیں۔

یہ تمام صورت حال یقیناً چین کے لئے اطمینان کا باعث ہے۔ چین اب کہنے والا ہے کہ روک سکتے ہو روک لو میں تو تائیوان جا رہا ہوں بلکہ وہاں موجود ہوں۔ صورت حال دلچسپ بھی اور بہت خوفناک بھی۔

امریکا کے ساتھ بڑا دھوکا ہو گیا۔ اس کی توجہ چین تائیوان تنازع پر لگی تھی اور برطانیہ سے آسٹریلیا کو ایٹمی آبدوز بھی دلوا دی تھی۔ گزشتہ سال کواڈ معاہدہ بھی کر لیا تھا اور یہ بڑا دفاعی معاہدہ جس میں امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا اور بھارت شامل ہیں جو بنیادی طور پر جنوبی بحیرۂ چین، ملاکا اسٹریٹ اور تائیوان کی سیکورٹی کا معاہدہ ہے۔ حال ہی میں روسی صدر پیوٹن بیجنگ اولمپک میں چین آئے تھے جس میں چین روس دوستی کی تجدید اور ایک دُوسرے کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان سامنے آیا تھا۔ پھر کچھ ہی عرصے بعد روس کا یوکرین پر حملہ سامنے آیا۔ 

اب یہ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ دُنیا کس رُخ پرجا رہی ہے۔ دُنیا کے تمام ماہرین سیاسیات اور بین الاقوامی اُمور ترقّی پذیر ممالک کو یہ خصوصی مشورہ دیتے ہیں کہ بڑی طاقتوں کے ساتھ تعلقات رکھنا ہیں تو پھونک پھونک کر قدم رکھو، زیادہ پُراعتماد مت ہو، یہ ہرگز مت سمجھو کہ وہ بڑی طاقت تمہیں اپنے برابر کا دوست تصوّر کرتی ہے۔ بڑی طاقت چھوٹے ملکوں کو اپنا باجگزار سمجھتی ہیں۔ بعض ترقّی پذیر ممالک کے رہنما ایسے ایسے مضحکہ خیز بیان دیتے ہیں کہ فلاں بڑی طاقت سے میری دوستی بے مثال انمول اور دائمی ہے۔ گویا ایک جان دو قالب ہیں۔ 

حقیقی دُنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔ حال ہی میں یوکرین کے صدر زیلنسکی نے بیان دیا کہ ہمیں امریکا نے دھوکہ دیا ہے، حالانکہ نیٹوکے بعض اہم اراکین نے امریکا ے باہمی مشورہ سے اپنی حکمت عملی وضع کی ہے کہ اگر امریکا کوئی بڑا قدم اُٹھاتا ہے تو میدان جنگ یورپ ہی بنے گا جہاں روس گھس چکا ہے ایسے میں تمام یورپی ممالک کس انگور کے گچھے کی طرح آپس میں باہم ایک ہیں۔ بمباری گولہ باری اور دیگر مہلک ہتھیاروں کے استعمال کی صورت میں بہت سے یورپی ممالک نرغے میں آ سکتے ہیں اس لئے امریکا اور نیٹو نے جوابی کارروائی نہیں کی اس میں یورپ ہی کو زیادہ نقصان اُٹھانا پڑتا۔

اس لئے امریکا اور نیٹو نے روس کے لئے گوریلا جنگ کا جال بچھایا ہے۔ اگر امریکا اور نیٹو مشرقی یورپ میں بالخصوص یوکرین میں گوریلا جنگ شروع کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر واقعی روس کے لئے یہ خطّہ دَلدل ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لئے یورپ خاص طور پر مشرقی یورپ میں نوجوانوں کی آبادی نسبتاً زائد ہے۔ روزگار کے مسائل کم یا زیادہ ہر جگہ ہیں پھر مہم جوئی میں نوجوان ہی زیادہ ایندھن بنتے ہیں۔ 

ہتھیاروں کی کمی نہیں ہوگی، مغرب اس خطّے میں ہر جگہ ہتھیار پھیلا سکتا ہے۔ مغربی یورپی ممالک جو ترقّی یافتہ ہیں وہ ہرممکن کوشش کریں گے کہ اگر گوریلا جنگ ناگزیر ہو جائے تو اس کی آگ کو محدود رکھا جائے مغربی یورپ تک نہ پہنچ سکے۔ مغرب اس طرح کی حکمت عملی آسانی سے اپنا سکتا ہے۔

روس میں یوکرین پر حملے کے دُوسرے دن ماسکو میں ریڈ اسکوائر پر بڑا عوامی مظاہرہ ہوا اس میں یوکرین میں جنگ بند کرو کے زوردار نعرے لگے ہیں۔ روسی عوام کی قطعی اکثریت جنگ کے خلاف ہے۔ ہونا بھی چاہئے یہ کیا تماشہ ہے کہ جو گناہ یوکرین سےابھی سرزد نہیں ہوا مگر روس اس کو حفظِ ماتقدّم کے طور پر ایڈوانس تھپڑ مار رہا ہے۔ نہ وہ یورپی یونین میں شامل ہوا ہے نہ وہ نیٹو کا رُکن بنا ہے محض اس کو پیش کش ہوئی عوام نے اس کا خیرمقدم کیا۔ مگر روس نے اس پر چڑھائی کر دی۔ فرض کریں مشرقی یورپی دیگر ممالک میں ایک ایک کر کے اُٹھتا ہے اور یورپی یونین حصہ بننے یا نیٹو میں شمولیت کے لئے بات کرتا ہے تو کیا روس ہر ایک پر فوج کشی کرے گا؟

اس ضمن میں منطقی نکتہ یہ ہے کہ کسی طور نیٹو کو اعتماد میں لے ان سے بات کرے مگر روس ایسا نہیں کر سکتا۔ بڑی طاقتیں پتلی گردن والوں کی گردن ناپتی ہیں۔

ترقّی پذیر ممالک کو جدید دور کی سیاسی حکمت عملی اور جدلیات کو پوری طرح سمجھنا ہوگا کہ بین الاقوامی تعلقات دریا میں بہتے پانی کی مانند ہوتے ہیں ان میں چھوٹی بڑی تبدیلیاں رُونما ہوتی رہتی ہیں۔ اُصول، مفادات، پالیسیاں جامد نہیں ہوئیں۔ کل کے دُشمن آج کے دوست بن جاتے ہیں۔ اگر بڑی طاقت کا سربراہ چھوٹے ترقّی پذیر ملک کے سربراہ کے ساتھ مسکرا کر ہاتھ ملاتا ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوا کہ اس نے ترقّی پذیر ملک کے رہنما کو اپنے برابر کا اسٹیٹس دیا۔ دو ملکوں کی دوستی کی بنیاد صرف اور صرف مفادات پر استوار رہتی ہے جونہی مفادات پورے ہو جاتے ہیں یا پورے ہونے کی اُمید نہیں ہوتی ایک دُوسرے سے آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔

پاکستان کے ساتھ 1965ء اور1971ء کی جنگ میں کیا ہوا۔ پاکستان نے اپنے قیام کے فوری بعد امریکا کی دوستی کو اپنے لئے حاصل کیا جاتا تھا۔ پاکستان سیٹو، نیٹو اور معاہدہ بغداد کا سرگرم رُکن رہا۔ ویتنام جنگ، عراق جنگ، شام لیبیا میں امریکا نے جو کچھ کیا خاموش رہے۔ نتیجہ کیا نکلا۔ افغان وار کیوں شروع ہوئی اس سے کس کس ٹولے نے فائدہ اُٹھایا پھر بعد کے حالات پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ عوام اس تمام داستانِ اَلم کی حقیقت کبھی جان نہ پائیں گے۔ لہٰذا ان تمام کوششوں کے باوجود پاکستان کو امریکا نظرانداز کر رہا ہے۔ 

اس میں سارا دوش امریکا کا نہیں ہے ہمارے طالع آزمائوں نے دُرست حکمت علمی نہیں اپنائی، اپنا اپنا فائدہ مدنظر رکھا۔قومی مفادات کا درست تعین عوامی اُمنگوں کی ترجیحات کو ملحوظ نظر رکھ کر اس کے مطابق حکمت عملی کرنے کا فائدہ ملک اور قوم کو ہوتا ہے۔ قومی معاملات میں عوامی رائے کو نظرانداز کرنے کا نقصان ہوتا ہے۔ یہ نکتہ تمام ترقّی پذیر ممالک کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

اب حالات بدل گئے ہیں اس کے مطابق اب جبکہ مغرب نے روس پر سخت اقتصادی، تجارتی اور ثقافتی پابندیاں عائد کر دی ہیں اس کے تمام غیرملکی اثاثے منجمد کر دیئے ہیں تو روس کی اس صورت حال میں چین مدد کر سکتا ہے اور کرے گا کیونکہ چین اب وہی حکمت عملی اپنانے کی کوشش کر سکتا ہے جو روس نے یوکرین کے خلاف اپنائی ہے۔ ایسا ممکن ہے۔ چین ہر قیمت پر تائیوان کو اپنے میں ضم کرنا چاہتا ہے۔ تائیوان کی اہمیت علاقائی بھی ہے، بحری اہم چوکی کے طور پر بھی، ملاکا اسٹریٹ کی وجہ سے بھی ہے مگر ان تمام معاملات سے زیادہ تائیوان کی چین کے نزدیک بڑی اہمیت یہ بھی ہے کہ تائیوان جدید ٹیکنالوجی میں بہت آگے ہے۔ 

اس کے علاوہ تائیوان کی اہمیت یوں بھی اہم ہے کہ دُنیا میں سب سے زیادہ سیمی کنڈکٹر تائیوان تیار کرتا ہے۔ واضح رہے کہ دُنیا کے تمام الیکٹرونکس آئٹم اور دیگر حساس چھوٹے بڑے آلات سب کی رُوح سیمی کنڈکٹر ہیں وہ رُوح رواں تائیوان ہے۔ اگر تائیوان چین کے آگے زیر ہو جاتاہے تو پھر چین کو دن دونی ترقّی سے کوئی نہیں روک سکتا۔ 

دُنیا میں تائیوان کے بعد امریکا تائیوان کی پیداوار کا نصف یہ چیپ اپنے یہاں تیار کرتا ہے۔ اگر تائیوان چین میں ضم ہو جاتا ہے تو پھر امریکا، جاپان، فرانس، جرمنی، برطانیہ سب چین کے محتاج ہوں گے اور چین بہت ترقّی کر چکا ہوگا۔ سیمی کنڈکٹر بہت باریک اور مشکل ترین چیپ ہےجس کو تیار کرنے کے لئے سرمایہ تو ہے ہی مگر وقتلگے گا۔

روس اور چین کا اشتراک تائیوان کے لئے ہے۔ یوکرین میں چین نے روس کی کوئی عملی مدد نہیں کی محض بیان بازی کی وہ بھی سفارتی انداز میں۔ مگر تائیوان کے مسئلے میں روس ضرور چین کی مدد کرے گا پھر چین روس کو فراموش کرنے کی کوشش کرے گا۔ دُنیا کا یہی اُصول ہے۔ انسان کو انسان بننےمیں مزیدوقت لگے گا۔

تازہ ترین خبروں کے مطابق جرمنی نے فوری طور پر ایک ہزار اینٹی ٹینک میزائل، پانچ سو اسٹینگر میزائل اور بڑی مقدار میں دیگر ہتھیار یوکرین پہنچا دیئے ہیں۔ اس کے علاوہ مغربی یورپی ممالک نے ان یوکرینین شہریوں کو بھرپور مدد دینے کا وعدہ کیا ہے جو روسی فوجیوں سے جنگ کر رہے ہیں۔ 

دُنیاکے امیرترین فرد ایلن مسک نے یوکرین کو سیٹلائٹ سروس معطل ہونے پر اپنے سیٹلائٹ سے سروس فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ دیگر ممالک نے بھی یوکرین کے عوام کی مدد کے لئے ہتھیاروں، مالی مدد، ادویات وغیرہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ ماسکو کے ریڈاسکوائر میں ہزاروں روسی نوجوانوں نے جنگ بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اب وہاں بڑی تعداد میں پولیس کا گشت بڑھا دیا گیا ہے۔ فرانس کے میڈیا میں یہ بات چل رہی ہے کہ فرانس کے صدر میکرون کے دورئہ ماسکو میں روسی صدر نے کہا تھا کہ روس حملہ نہیں کرے گا مگر پھر یہ کیا ہوا۔

یوکرین کی مدد کے لئے مزید ممالک، بین الاقوامی غیرسرکاری تنظیمیں اور اہم شخصیات سامنے آ رہی ہیں۔ روس کے اس اقدام کی بڑے پیمانے پر مذمت بھی جاری ہے۔ ہالی ووڈ کے بیشتر معروف اداکار یوکرین کے لئے فنڈز جمع کر رہے ہیں۔ یورپ امریکا اور دیگر ممالک میں میڈیا میں یوکرین ٹاپ نیوز میں شامل ہے۔ دُنیا میں روس کے اس اقدام کی مذمت جاری ہے اور یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر ایسا چلتا رہا تو پھر تیسری عالمی جنگ کا اکھاڑہ بن جائے گا،پھر اس کے بعد کیا ہوگا اس کا صرف تصوّر کیا جا سکتا ہے۔

مغربی مبصرین کا خیال ہے کہ جلد ہی چین بھی ایسی کارروائی کر سکتا ہے اور اب تائیوان کے لئے خطرہ بڑھ رہا ہے۔ یہ بھی سوال سر اُٹھا رہا ہے کہ اگر چین نے تائیوان کے خلاف کوئی کارروائی کی تو کیا امریکا تائیوان کی مدد کرے گا؟

مغرب نے اپنے دعوئوں کے برعکس صرف روس پر پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ صادر کر دیا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا بوڑھے شیر کی طرح محض دھاڑتا رہے گا،مگر امریکی میڈیا میں تائیوان کا چرچا بہت ہوا ہے، یوکرین اچانک آ گیا جبکہ اس کی ایسی اُمید نہیں تھی۔ تجزیہ کار یوکرین اور تائیوان کی اہمیت کا اندازہ کررہے ہیں۔ تائیوان کی اہمیت زیادہ ہے یہ ترقّی یافتہ چھوٹا ملک ہے۔ آسٹریلیا، نیوز لینڈ اور جاپان کے نزدیک اس کی اور زیادہ اہمیت ہے، پھر اگر یہ معاملہ بڑھا تو بحرالکاہل بحر ہند کے سمندروں تک پہنچ سکتا ہے۔ اس بحری روٹ سے دُنیا کی تیس فیصد سے زائد تجارت ہوتی ہے۔ یہ اہم ترین مسئلہ ہے۔

اقوام متحدہ کو اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ کہتے ہیں دو بھلے تین سے معاملہ بگڑتا ہے۔ روس امریکا کی سرد جنگ دُنیا نے برداشت کر لی مگر اب امریکا روس اور چین تینوں طاقتیں دُنیا کے امن کو چیلنج کر رہی ہیں۔ تاہم یوکرین کا مسئلہ ابھی عروج پر ہے اگر یہ طول پکڑ گیا تو مزید پیچیدہ مسائل سامنے آ سکتے ہیں۔ امن کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔