ماضی میں تعلیم و تدریس کے اس شعبے میں ایک اصطلاح استعمال کی جاتی رہی ہے، وہ ہے ’’غیر نصابی تعلیمی سرگرمیاں‘‘ اس کی ابتداء انیسویں (19) صدی کے اوائل میں امریکی تعلیمی ماہرین نے طالب علموں کی مسلسل مصروفیت کو دیکھتے ہوئے اور ان کی جسمانی اور ذہنی نشوونما میں توازن برقرار رکھنے کے لئے تجرباتی طور پر کچھ ابتدائی اسکولوں اور کالج کی سطح پر مختلف اقسام کے کھیل اور بحث و مباحثے کے لئے کچھ دن متعین کئے ،جس سے نوجوانوں کی جسمانی ساخت اور ذہنی کیفیت میں تبدیلی آنا شروع ہوئی۔
سب سے بڑھ کر استاد اور شاگرد کی آپس میں دوستانہ ماحول میں مختلف نوعیت کی سرگرمیاں سامنے آنے لگیں جس کا اثر تعلیم کے لئے سودمند ثابت ہوا۔ لہٰذا باقاعدہ طور پر غیر نصابی سرگرمیوں کا آغاز حکومتی اور مقامی سطح پر نوجوانوں کی دو یونیورسٹیوں ہارورڈ اور پیل یونیورسٹی میں کیا گیا جہاں ہر سال مہینے کے کچھ دن تمام طالب علم مختلف عنوانات پر بحث و مباحثہ کرتے، اپنے اپنے شوق کے مطابق کھیلوں میں حصہ لیتے، اس کے لئے میدان اور کلب بنائے گئے، تاکہ طالب علموں کو صحت مند ماحول فراہم کیا جا سکے۔
تجرباتی غیر نصابی سرگرمیوں کی کامیابی سے یورپ اور ایشیائی ممالک کے تدریس سے وابستہ ماہرین اور دیگر شخصیات نے ان اسباب کو تلاش کیا کہ غیر نصابی تعلیمی سرگرمیاں بنیادی طور پر کیوں ضروری ہیں اس کے چند اہم نکات درج ذیل ہیں۔
(1) پورے تعلیمی سال مسلسل پڑھائی سے ہر عمر کے طالب علموں کے اندر ذہنی تنائو پیدا ہوتا ہے اور صلاحیتیں محدود ہونے لگتی ہیں۔ لہٰذا وہ علم سے فرار کی راہ تلاش کرتے ہیں۔
(2) کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ ہر وقت لکھنے پڑھنے سے طالب علموں کے مزاج میں اکتاہٹ اور چڑچڑاپن آجاتا ہے ،جس کی وجہ سے وہ ڈیپریشن کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔
(3) بہت سےطلباء میں صحت کے مسائل شروع ہو جاتے ہیں، جیسے گردن اور ریڑھ کی ہڈی میں درد کی شکایت، آنکھوں میں تکلیف وغیرہ اور کچھ نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
(4) استاد کے سخت رویئے کی وجہ سے بھی طالب علموں میں باغیانہ سوچ سر اُبھار نے لگتی ہے۔
(5) بچوں کے اندر خود اعتمادی کا فقدان پیدا ہو جاتا ہے اور وہ اساتذہ کے سامنے ڈرے اور سہمے سے رہتے ہیں۔
(6) مسلسل پڑھائی سے بچوں میں بوریت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔
(7) کچھ بچے اور نوعمر نوجوان شرمیلے ہوتے ہیں جو بہت سے سوالات اور باتیں اپنے اساتذہ سے کرنا چاہتے ہیں لیکن نہیں کرپاتے جس کی وجہ سے استاد اور شاگرد کے درمیان باہمی دوستی اور اچھے ماحول کی فضا پیدا نہیں ہوتی اور یہی عمل کلاس فیلو کے ساتھ بھی رہتا ہے جس سے آپس میں دوستانہ مراسم نہیں بن پاتے۔
یہ وہ محرکات جن کی بناء پر تمام تدریسی مراکز میں غیر نصابی تعلیمی سرگرمیاں شروع کی گئیں، تاکہ نسل نو کا مستقبل روشن ہو اور ان کے خیالات میں نت نئے رجحانات، آئیڈیاز جنم لیں اور آپس میں ہم آہنگی پیدا ہو۔
گزشتہ دو دہائیوں کا جائزہ لیا جائے تو ہمارے ملک کے تمام اسکول، کالج اور جامعات میں غیر نصابی تعلیمی سرگرمیاں کو بہت زیادہ محدود کردیا گیا ہے ، تقریباً 80فیصد تعلیمی اداروں نے ان سرگرمیوں کو تقریباً بند ہی کر دیا ہے، جبکہ ان تمام تعلیمی اداروں کو باقاعدہ فنڈز مختص کئے جاتے ہیں اور اسی مد میں طالب علموں سے بھی رقم وصول کی جاتی ہے۔
اگر ہم ماضی کی بات کریں تو پہلے تدریس سے وابستہ شعبہ جات میں باقاعدہ غیر نصابی سرگرمیوں کا انعقاد کیا جاتا تھا، اس کے لئے تعلیمی ادارے کے سربراہ، اساتذہ اور طالب علم منصوبہ بندی کے بعد پروگرام مرتب کرتے تھے۔ کون کون سے کھیل اور دیگر سرگرمیوں کو اس کا حصہ بنایا جائے۔ انتظامات کا جائزہ لینے کے بعد جگہ کا تعین کیا جاتا تھا۔ مہمان خصوصی کون ہوگا، انعامات کی تقسیم کیسے ہوگی اور آخر میں دن اور وقت کے بارے میں فیصلہ کیا جاتا تھا۔
تمام ماہرین اور تعلیمی مفکرین کے خیال میں غیر نصابی تعلیمی سرگرمیوں سے دنیا بھر کے تعلیمی مراکز کے نوجوانوں کے لئے ہمیشہ مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔
(1) طلباء کی کردار سازی ہوتی ہے ان شخصیت پر اچھے اثرات پڑتے ہیں، جس سے ان کے اندر اخلاقی ذمہ داری کا احساس پیدا ہوتا ہےجس سے وہ معاشرے کی اچھائیوں اوربرائیوں کی تمیز کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔
(2) جب طلباء و طالبات غیر نصابی تعلیمی سرگرمیوں کے کسی بھی شعبے کا انتخاب کرتے ہیں، خاص کر کھیل، آرٹ، بحث و مباحثہ، تقریری مقابلے، ادب و ثقافت یا اسکائوٹنگ وغیرہ اس سےان میں پوشیدہ صلاحیتیں اُبھر کر سامنے آتی ہیں، جس سے ان کے اندر خود اعتمادی کے ساتھ خود انحصاری کے جوہر بھی پیدا ہوتے ہیں اور حلقہ احباب میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
(3) غیر نصابی تعلیمی سرگرمیوں کے تحت ہونے والے دیگر پروگراموں میں بیت بازی، مضمون نویسی، پینٹنگ، ورائٹی شوز وغیرہ سے نوجوانوں کو اپنے اساتذہ کے سامنے اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کے مواقع میسر ہوتےہیں، جس سے آپس میں ایک مقابلے کا رجحان پیدا ہوتا ہے اور خوشگوار ماحول میں دیگر تعلیمی موضوعات پر کھل کر بات کی جاتی ہے۔
(4) طلباء و طالبات مطالعاتی دورے کرتے ہیں، تاکہ جو وہ کتابوں میں پڑھتے ہیں اس کی عملی شکل دیکھیں مثلاً نہری نظام کیا ہے؟ دوائیں فیکٹری میں کس طرح بنتی ہیں؟ گنے سے چینی کیسے تیار ہوتی ہے، بینکنگ نظام کیسے کام کرتا ہے؟ اور بہت سے ایسے شعبے ہیں جس کے لئے باقاعدہ طالب علم اپنے اساتذہ اور ماہرین کے ساتھ ٹوور (دورے) پر جاتے ہیں۔
(5) نوجوان ان سرگرمیوں کے ذریعہ ملک کی تعمیر و ترقی میں بھر پور طریقے سے حصہ لے سکتے ہیں۔
ہفتہ صفائی میں اپنے اپنے تعلیمی اداروں اور آس پاس کے ماحول کو صاف کرتے ہیں، شجر کاری مہم میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں اور مختلف میدانوں اور دیگر علاقوں میں باقاعدہ درخت لگاتے ہیں، سمندری آلودگی کے لئے وہ ساحلوں کی صفائی کی بھی مہم میں حصہ لیتے ہیں، تاکہ ہر قسم کی آلودگی انسانی جانوں کے ساتھ سمندری مخلوق کے لئے بھی نقصان دہ نہ ہو۔
لہٰذا مستقبل قریب میں اپنے نوجوانوں کی اصلاح اور صحت اور جسمانی نشوونما کے ساتھ ذہنی صلاحیتوں کو ابھرنے کےلئے تعلیمی اور تدریسی شعبے میں ان سرگرمیوں کو صوبائی اور قومی سطح پر نئے سرے سے اجاگر کیا جانا ضروری ہے، تا کہ نوجوانوں کے اندر باہمی محبت اور تعلقات کی راہیں ہموار ہوں اور ساتھ ہی تعلیمی میدان میں اساتذہ کرام کے ساتھ مل کر عزت و احترام کے جذبے کے ساتھ نصابی سرگرمیوں کے ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں کو بھی شامل کریں کیونکہ جدید تحقیق نے بھی اس امر کو ثابت کیا ہے کہ غیر نصابی سرگرمیاں طلباء کی صحت کےلئے بہت ضروری ہیں۔