• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک قیامت ہے، جو ہم پر گزر رہی ہے، دس برس ہو گئے،ہر صبح اس اُمید پر اٹھتے ہیں کہ شاید آج آئزک ہمیں مل جائے، اس کی ماں کی نظریں دروازے پر ہی رہتی ہیں ،دس برس سے روز یہی ہوتا ہے، لیکن وہ واپس لوٹ کر نہیں آیا، کتنے ہی تہوار اس کے بغیر گزر گئے، یہ ایک باپ کے الفاظ ہیں، جو گزشتہ 10 برس سے اپنے اغوا ہونے والے بیٹے کی تلاش میں دَر بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے۔ یونس صادق جو کہ اعظم بستی کے رہائشی ہیں،ان کا جواں سال بیٹا آئزک سیمسن 29 فروری 2012 کو اغواہ کیا گیا اور اس کے بعد اس کا کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ 

یونس صادق نے بتایا کہ میرا بیٹا 26 سالہ آئزک سیمسن جو کہ گڈسمرٹین اسپتال(کورین ہسپتال) واقع گلشن بہار ،سیکٹر 16 اورنگی ٹاؤن میں بہ حیثیت اکاؤنٹنٹ ہے، آئزک سیمسن معمول کے مطابق 29 فروری 2012 کی صبح ساڑھے سات بجے اسپتال کے لیے اسپتال کی گاڑی نمبر EA-4646 پر گھر سے روانہ ہوا۔ تقریباً نو یا دس بجے ٹی وی پر سلائیڈ پر دیکھا کہ اورنگی ٹاؤن سے دو کورین ڈاکٹر اغوا ہوگئے ہیں، تو میں نے اپنے بیٹے کو فون کرکے خیریت معلوم کرنی چاہی، مگر میرے بیٹے کا فون بند تھا۔ 

پھر میں نے اسپتال کے پی ٹی سی ایل نمبر پر فون کیا تو پتہ چلا کہ کورین ڈاکٹر اغوا نہیں ہوئے، بلکہ میرا بیٹا آئزک سیمسن اور اسپتال کا مینجر اندریاس جاوید اغوا ہوئے ہیں۔ اس اطلاع پر میں اپنے چھوٹے بیٹے عامر جیکسن کے ہمراہ کورین ہسپتال پہنچا تو ہسپتال کے عملے نے مجھے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا اور بتایاکہ گاڑی کا ڈرائیور ناصر مسیح تھانے رپورٹ گرانے گیا ہوا ہے۔

ڈرائیور ناصر مسیح سے ملاقات پر اس نے بتایا کہ میں اسپتال کےاسٹاف اندریاس جاوید، آئزک سیمسن اور آسٹن جان کو لے کر ہسپتال آرہا تھا کہ جب اورنگی ٹاؤن نمبر11-1/2 شمسی کالونی نزد ناز اسنیک بار صبح سوا آٹھ بجے پہنچے تو ایک کرولا کار ہماری وین کو سائیڈ کرتے ہوئے سامنے آئی، جس میں سے چارافراد جن کے ہاتھوں میں پستول تھے، ہم سے کہا کہ کورین ڈاکٹر کون ہے؟ تو میں نے کہاکہ ہم سب پاکستانی ہیں، ان میں سے ایک نے کہاکہ ان کو گاڑی میں بٹھاؤ، سب سے پہلے انہوں نے آئزک سیمسن کو بیٹھایا پھر اندریاس جاوید کو اور پھر آسٹن جان کو اور میں بھاگ گیا۔ 

میں نے ناصر سے پوچھا کہ آئزک سیمسن کے پاس بائبل مقدس اور لنچ بکس بھی تھا، تو ناصر نے بتایاکہ جب آئزک کو اغوا کرنے والوں نے کار میں بیٹھایا، تو اس وقت اس کے ہاتھ میں بائبل مقدس اور لنچ بکس بھی تھا۔ آسٹن جان نے بتایاکہ ڈرائیور مجھے اور اندریاس جاوید، آئزک سیمسن اور سرعاشق کو لےکر آرہا تھا کہ سرعاشق بلوچ کالونی اتر گیا تھا، جب کہ میں اور اندریاس جاوید اور آئزک سیمسن ڈرائیور ناصر کے ساتھ اورنگی ٹاؤن نمبر11-1/2شمسی کالونی نزد ناز اسنیک بار پہنچے، تو ایک کار ہماری وین کے سامنے آگئی۔ اس میں سے چار مسلح افراد باہر آئے اور پوچھا کے کورین ڈاکٹر کون ہے؟ ہم نے کہاکہ ہم سب پاکستانی ہیں۔ 

انہوں نے اپنی کار میں سب سے پہلے آئزک سیمسن کو بٹھایا پھر اندریاس جاوید کو اور پھر مجھے بھی، لیکن کار میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے مجھے اتاردیا اور میں اسپتال آگیا تھا۔ اسپتال کے ایک اور ڈرائیور انجم فیض عرف مٹھو نے بتایاکہ میں صبح اسپتال ڈیوٹی کے لیے اپنے بھانجے سنیل کے ساتھ جارہا تھا کہ جب ہم ناز اسنیک بار پہنچے تو وہاں اسپتال کی وین کھڑی نظرآئی اور ڈرائیور ناصر بھی موجود تھا۔ 

میں نے ناصر سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ ناصر نے بتایاکہ اندریاس جاوید اور آئزک سیمسن اغوا ہوگئے ہیں۔ انجم فیض نے اسپتال وین کی دوسری چابی اپنی جیب سے نکالی اور وین اسٹارٹ کی اورہم اسپتال آ گئے اور اسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر لم کو تمام حالات بتایا تو ڈاکٹر لم نے جا کر تھانے میں رپورٹ کروائی، میں اور ناصر اور اسٹن اسی ہسپتال وین پر تھانہ پاکستان بازار رپورٹ کروانے چلے گئے۔

یونس صادق کے مطابق سوال یہ ہے کہ ناصر ڈرائیور مسلح افراد کے سامنے سے کیسے بھاگ گیا اور بھاگ جانے کے بعد وہ نہ تو اسپتال گیا اور نہ ہی تھانہ گیا، وہ کس راستے سے بھاگا تھا اور بھاگ کر کہاں تک گیا تھا اور پھر واپس اسپتال کی وین کے پاس کیوں آگیا اور انجم فیض کا کیوں انتظار کررہا تھا، ڈرائیورناصر کا موبائل بھی گاڑی میں تھا۔ اس نے کسی کو کوئی اطلاع نہیں دی اور آسٹن جان کا بھی موبائل اس کی جیب میں ہی تھا۔ 

اس نے بھی کسی کو اطلاع نہیں دی۔ میں یہ سوال تمام تفتیشی افسران سے پوچھتا ہوں، کسی نے جواب نہیں دیا۔ انہوں نے بتایا کہ شام کو ہم اسپتال سے تھانہ پاکستان بازار گئے، تو معلوم ہوا کہ ڈرائیور ناصر مسیح کی مدعیت میں FIR مقدمہ الزام نمبر27/2012بجرم دفعہ 365/34 ت پ درج ہوچکا ہے اور ہم کو بھی ایف آئی آر کی کاپی دے دی گئی۔ ہم روزانہ کورین اسپتال اور تھانہ پاکستان بازار جاتے تھے، لیکن کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملتا تھا۔ 

سب کہتے تھے کہ ہم کوشش کررہے ہیں ، ایک دن اسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر لم اور میڈیم تارا نے مجھے اور اندریاس جاوید کے بھائی ساؤل سے کہاکہ اگر کوئی آپ لوگوں کو تاوان وغیرہ کی کال آئے، تو فکر نہ کرنا، آپ ہمیں بتا دینا، جو بھی ڈیمانڈ ہوگی ہم پوری کریں گے۔ آپ لوگ کوئی فکر نہ کریں،لیکن آج تک کوئی فون کال نہیں آئی،لیکن میرے بیٹے کے ساتھ اغوا ہونے والا کورین ہسپتال کا مینجر اندر یاس جاوید 37دن کے بعد مورخہ 6 اپریل 2012 کو خودہی واپس آگیا۔

اندریاس جاوید نے بتایا کہ گزشتہ رات کو اغوا کار ہمیں کسی اور مقام پر شفٹ کررہے تھے،انہوں نے ہمیں پہلے ایک کار میں بٹھایا اور پھر ایک ٹرک میں بٹھادیا۔ میں نے کوشش کر کے اپنے ہاتھوں کی رسی کھولی اور پھر آنکھوں سے ٹیپ اتاری پھر آئزک سیمسن کی بھی رسیاں کھول دیں، ٹرک کے اندر گھریلو سامان وغیرہ تھا اور ٹرک کے اوپر ترپال بندھا ہوا تھا۔ میں نے ترپال سے جھانک کر دیکھا کہ نادرن بائی پاس کا علاقہ ہے، پھر جب ٹرک ٹول پلازہ پر آہستہ ہوا تو میں نے چلتے ٹرک سے چھلانگ لگادی، پھر ٹول پلازہ کی سیکیورٹی سے مدد کو کہا تو انہوں نے کوئی مدد نہیں کی، پھر میں رینجرز کے پاس گیا، تو انہوں نے بھی کوئی مدد نہیں، پھر میں گڈاپ تھانے گیا، وہاں انسپکٹر نصیر بلوچ مجھے لےکر ٹرک کے پیچھے کاٹھور تک گیا، لیکن ٹرک نہیں ملا۔ جب اندریاس جاوید سے تھانہ پاکستان بازار کے تفتیشی آفیسر نے پوچھ گچھ کی اور بیان قلم بند کیا تو تفتیشی آفیسر اور نہ ہی تھانہ کے ایس ایچ او اور نہ ہی میں اندریاس جاوید کے بیان سے مطمئن ہوئے۔ 

جون 2012 کو جب میں نے سندھ ہائیکورٹ میں پٹیشن نمبرCP-D2220/12 دائر کروائی تو پھر پولیس نے باقاعدہ کارروائی شروع کی،سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر جے آئی ٹی ہوئی، لیکن نتیجہ پھر بھی کچھ نہ نکلا۔ سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس مشیرعالم کے حکم پر تفتیش اے آئی جی لیگل علی شیر جاکھرانی صاحب کو دی گئی، تو علی شیرجاکھرانی نے چیف جسٹس سند ھ ہائیکورٹ کو اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہاکہ اندریاس جاوید جھوٹ بول رہا ہے اور کیس کے سلسلے میں کوئی تعاون نہیں کررہا۔ 

یونس صادق کے مطابق میں ہمیشہ تفتیشی افسران سے کہتارہا ہوں کہ اندریاس جاوید اور اسپتال کے دیگر عملے کا سی ڈی آر لیا جائے اور اندریاس جاوید کے پاؤں کے زخم کی میڈیکل رپورٹ لی جائے ،کیوں کہ اس کے پاؤں کا فریکچر ٹرک سے چھلانگ لگانے سے نہیں ہوا، اس کو کراچی ٹول پلازہ پر لا کر چھوڑا گیا ہے، لیکن کسی بھی تفتیشی نے کوئی توجہ نہیں دی۔ اندریاس جاوید کے آنے کے بعد ڈالٹر لم نے مجھ سے کہاکہ ا ب اگر کوئی آپ کو فون کال تاوان کے لیے آئے گی، تو وہ ہماری ذمے داری نہیں ہوگی اور ہم آپ کی کوئی آفیشل مدد نہیں کرسکیں گے۔ اس وقت ڈاکٹر لم کے ساتھ میڈم تارا بھی موجود تھیں۔ میں نےڈاکٹر لم سے پوچھا اندریاس جاوید کے آنے سے پہلے تک آپ کی ذمے داری تھی اور اب کیوں نہیں۔

انہوں نے اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا، بلکہ اندریاس جاوید کے آنے کے بعد اسپتال انتظامیہ نے عدم تعاون شرو ع کردیا اور اس بات پر زور دینا شروع کردیا کہ ہائیکورٹ سے کیس ختم کردو، مختلف طریقوں سے دباؤ ڈالا کہ مقدم ختم کردیا جائے۔ دوسری طرف اندریاس جاوید کیس میں تعاون کے بجائے سندھ ہائیکورٹ میں پٹیشن نمبرCP-1026-12دائر کردی اور پھر وہ تھائی لینڈ چلا گیا۔

تھائی لینڈ سے واپس آنے کے بعد کوئی تعاون نہیں کیا اور پولیس سے مایوس ہوکر اپنا کیس کرائم برانچ منتقل کرنے کی درخواست دی اورمیرا مقدمہ جنوری 2014 کو تھانہ پاکستان بازار سے کرائم برانچ منتقل ہوگیا اور جب کرائم برانچ نے کارروائی شروع کی تو اندریاس جاوید خاندان اور اپنے بھائی ساؤل کے ہمراہ فروری 2014 کو سری لنکا بھاگنے میں کامیاب ہوگیا اور ابھی تک واپس نہیں آیا۔

اندریاس جاوید کی موجودگی میں بھی کئی بار JIT ہوئی ہیں لیکن آج تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔آخرکار JIT والوں نے کہاکہ آپ کا بیٹا کسی ایجنسی کے پاس نہیں یہ کوئی کورین ہسپتال کا اندرونی معاملہ ہے آپ اندریاس جاوید اور اسپتال کی انتظامیہ کے خلاف ایف آئی آر درج کروائیں تاکہ تفتیش آگے بڑھ سکے۔ میری دوسری ایف آئی آر درج ہونے سے بیشتر ہی کورین اسپتال کی انتظامیہ نے ایک اور پٹیشن سندھ ہائیکورٹ میں درج کروائی، جس کا پٹیشن نمبر CP-S458/2014ہے۔

میری مدعیت میں ایف آئی آر درج کرنے میں تھانہ پاکستان بازار کے افسران انکار کرتے رہے، آخر 11 دسمبر 2014 کو سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر میری مدعیت میں مقدمہ الزام نمبر322/14 بجرم دفعہ 365/109/34 ت پ تھانہ پاکستان بازار میں برخلاف(1)اندریاس جاوید(2)آسٹن جان(3)ڈرائیورناصر مسیح اور (4)ڈرائیورانجم فیض عرف مٹھو درج ہوا، جب کہ ملزم ڈرائیور ناصر مسیح مقدمہ الزام نمبر27/2012بجرم دفعہ 365/109/34 ت پ میں مدعی مقدمہ بھی ہے۔ 

مقدمہ الزام نمبر322/14کا تفتیشی آفیسر اورنگزیب جدون کو مقررکیا گیا۔اورنگزیب جدون نے میرے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعاون نہیں کیا اور نہ ہی کوئی فون پررابطہ ہوا۔ 20 دن کے بعد تفتیشی افسر اورنگزیب نے فون کر کے تھانہ پاکستان بازار آنے کو کہا۔ جب میں تھانے پہنچا تو بتایا گیا کہ ملزمان اپنی ضمانت قبل از گرفتاری بھی کروا چکے ہیں۔ تھانہ پاکستان بازار کے تفتیشی آفیسر اورنگزیب جدون کی اس کیس میں عدم دل چسپی اور غیرذمے داری کی وجہ سے ایک بار پھر مقدمہ کی تفتیش کے لیے کرائم برانچ کو درخواست دی ، ڈی ایس پی محمد یونس بلوچ نے مورخہ 12 مئی 2015 کو مجھے نوٹس زیردفعہ 160 ض ف دیا کہ تفتیشی آفیسر کرائم برانچ کے روبروپیش ہوکر اپنا بیان اور گواہان کے بیانات ریکارڈ کرائیں، جب میں کرائم برانچ گیا تومعلوم ہوا کہ ڈی ایس پی محمد یونس بلوچ کا ٹرانسفر ہوگیا اور اب میں اپنا بیان انسپکٹرناصر شیخ کے پاس قلم بند کراؤں اور 2 گواہ بھی پیش کروں۔ 

میں نے اپنا بیان انسپکٹر ناصرشیخ کو قلم بند کروایا اور انہوں نے کہاکہ فکر نہ کریں میں آپ کا ایسا بیان پیش کروں گا کہ کوئی جج بھی اسے غلط نہیں کہے گا اور گواہوں کے بیان بھی میں خود ہی بنالوں گا۔ بس آپ مجھے پندرہ ہزار روپے دے دیں، میں نے کہاکہ میرے پاس تو نہیں، لیکن کہیں سے کوشش کرتا ہوں۔ انسپکٹر ناصر احمد شیخ نے پھر مجھے فون پر بھی رقم کاتقاضہ کرتارہا کہ کوئی انتظام نہیں ہوا۔ 

آخر میں نے انسپکٹر ناصر سے کہہ دیا کہ میرے پاس ایک پیسہ بھی نہیں، آپ کو دینے کے لیے۔دوسرے دن صبح 8 بجے انسپکٹر ناصر میرے گھر پرآگیا اورکہنے لگاکہ یار آپ ناراض ہوگئے ہیں، تھوڑے بہت پیسے تو لگتے ہیں، تاکہ میں آپ کا بیان کورٹ میں جمع کراسکوں۔ دوسری جانب آئزک سیمسن کے اغوا ہونے کے دس سال مکمل ہونے پر اس کے اہل خانہ سمیت بڑی تعداد میں مظاہرین نے 27 فروری کو کراچی پریس کلب کے باہر مظاہرہ بھی کیا،مظاہرے میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید