• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے سے مسئلہ کشمیر پر پاکستانی موقف کمزور ہوگا، مقررین

برمنگھم ( آصف محمود براہٹلوی ) گلگت و بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے سے مسئلہ کشمیر پر عالمی سطح پر پاکستانی موقف کمزور ہو گا اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بھی خلاف ورزی ہو گی، پاکستان کشمیریوں کا وکیل ہے۔ کشمیریوں کو مذید فعال اور مضبوط کرے تاکہ کشمیری خود عالمی سطح پر اپنے دیرینہ ایشو کو اجاگر کر سکیں۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے زیر اہتمام آل پارٹیز کانفرنس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا ۔ برطانیہ بھر سے تقریباً 14کشمیری پارٹیز کے نمائندگان نے بھر پور شرکت کر کے 5اگست 2019کو انڈین گورنمنٹ کی طرف سے ریاستی آرٹیکلز میں تبدیلی اور حکومت پاکستان کی طرف سے گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے متعلق تمام پارٹیز نے ایک مشترکہ موقف اختیارکیاکہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے سےپاکستان کا کشمیر پر 70سالہ موقف کمزور ہو گا۔اس مسئلہ پر کشمیری قیادت کو اعتماد میں لینا ضروری ہوگا۔ گلگت بلتستان کو پاکستان کا باقاعدہ آئینی صوبہ بنانے کے لیے عسکری اور سیاسی قیادت کے درمیان مشاورتی ملاقات کی خبریں سامنے آنے اور بعض وفاقی وزرا کی جانب سے اس ملاقات کی تصدیق کے بعد جہاں گلگت بلتستان میں اس مجوزہ فیصلے کو سراہا جا رہا ہے، وہیں آزادکشمیر و مقبوضہ کشمیری کے باسی جو برطانیہ اور دیگر ممالک میں رہتے ہیں ان میں سے بعض حلقوں کو تشویش ہےکہ اس فیصلے سے تنازع کشمیر پر پاکستان کا ستر سالہ موقف کمزور ہو گا اور تحریک آزادی کشمیر پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ آزادکشمیر کی حکومت اور سیاسی قیادت کے علاوہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی حریت پسند قیادت بھی گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت میں تبدیلی کی مخالفت رہی ہے، تاہم اس مرتبہ ابھی تک آزادکشمیر کی حکومت اور حریت کانفرنس کا کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا۔البتہ آزادکشمیر کےسابق وزیر اعظم اور مسلم کانفرنس کے سپریم ہیڈ سردار عتیق احمد خان نے گذشتہ دنوں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے داخلی مسائل کا حل حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ تاہم اگر ان علاقوں کی آئینی حیثیت کو چھیڑا گیا تو عمران خان اور نریندر مودی میں کوئی فرق باقی نہیں رہے گا۔ اس دوران کشمیری قیادت نے اجلاس سے باری باری گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ5اگست 2019کو انڈین گورنمنٹ کی طرف سے ریاستی آرٹیکلز 35A اور370ایکٹ میں تبدیلی اوراس دوران کشمیری قیادت کو نظر بند کرکے ریاستی آواز کو بند کرنے لاک ڈاؤن لگانے کی پر زور مذمت کی گئی ۔جبکہ اس دوران اجلاس میں مشترکہ فیصلہ کیا گیا کہ حکومت پاکستان کی طرف سے گلگت بلتستان کو عارضی صوبہ بنانے کے بارے میں جو گفتگو چل رہی ہے اس پر کشمیری قیادت خوش نہیں ہے ۔حکومت پاکستان کے اس اقدام سے گلگت بلتستان کو باقاعدہ آئینی صوبہ بنایا تو اس سے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا دیرینہ موقف کمزور ہو گا اور اسے ہندوستان پر حاصل ʼاخلاقی برتری ختم ہو جائے گی۔لہٰذا حکومت پاکستان کو اس بارے میں کشمیری قیادت کو اعتماد میں لیکر اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ کشمیر کی حیثیت ایک اکائی کے طور پر برقرار رہے۔ اس دوران جے کے ایل ایف یوکے کے مرکزی قائدین نذیر گیلانی،لیاقت لون سمیت دیگر جماعتوں کے نمائندگان اور مقبوضہ وادی سے تعلق رکھنے والے قائدین نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج کی کانفرنس کا مقصد تمام کشمیری قیادت کی گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی تجویز پر مشترکہ رائے لینی تھی کہ مسئلہ کشمیر کے اصل فریق اس بارے میں کیا کہتے ہیں، تمام کشمیری قائدین نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ گلگت بلتستان کے معاملہ میں کشمیری قیادت کو اعتماد میں لیکر اس کا فیصلہ کریں، شرکاء کا کہنا ہے کہ ریاست جموں کشمیر ایک اکائی ایک وحدت ہے، اس کی تقسیم قابل قبول نہیں اس سلسلہ نے پاکستانی قوم ،حکومت اور افواج پاکستان نے ہمیشہ ہمارا ساتھ دیا جس پر ہم اوورسیز کشمیری انکا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ کشمیر کی آزادی تک ہمارا ساتھ دیں اور ہمارے بہن بھائیوں کو بھارتی ظالم افواج کے چنگل سے آزاد کروائیں تاکہ ہم بھی آزادی سے زندگی بسر کر سکیں۔

یورپ سے سے مزید