برصغیر کے اسٹیشنوں پر صبح و شام چائے والے کی آواز گونجتی رہتی ہے۔ انگریزوں نے جب چائے اگانے کے لیے مفت زمین کی پیشکش کی تو آسام میں جو اس کی پیداوار کے لیے بہترین مقام تھا وہاں چائے کے باغات اگائے گئے اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ چائے سارے ہندوستان کے لیے لازم و ملزوم ہوگئی۔ صبح سویرے چستی اور دن بھر کی تھکن دور کرنے کے لیے شام کی چائے زندگی کا حصّہ بن گئی۔ ’’کراچی میں ملباری ہوٹل کی چائے کا مزا ہی الگ تھا۔‘‘
رنچھوڑ لائن کے باکڑے پر بیٹھے ایک 82سالہ بزرگ اقبال گزدر نے کہا، میاں چائے تو ملباریوں کی ہوتی تھی۔ ہماری سڑک کنارے ایک چمچہ ہوٹل کھلا تھا، یہ نئے طریقے سے چائے بناتے تھے۔ اس وقت نیا نیا ملک بنا تھا۔ ہم بھی چمچہ ہوٹل میں چائے پینے گئے۔ وہ لوگ انگریزوں کی نقل میں چائے کی کشتی، شکر کی پیالی اور دودھ کو ایک چھوٹے جگ کے ساتھ پیش کرتے تھے اور خوب چمچے ہلاتے تھے اس لیے ہم نے اس ہوٹل کا نام چمچہ رکھ دیا۔‘‘
ایک ایرانی ہوٹل کے مالک ایران کے شہرنرد کے رہنے والے تھے، انہوں نے بتایا کہ کراچی میں چائے کے نئے نئے انداز ہم نے متعارف کرائے پہلے یہاں چائے مٹی کے کلڑھ میں نوش کیا کرتے تھے۔ ہم نے گاہک کو با عزت طریقے سے ایک ٹرے میں جگ، پرچ، چمچے اور پیالیوں سے چائے پلانے کا رواج دیا۔ تمام ایرانی ہوٹلوں میں چائے پیش کرنا ایک فن تھا، نفاست تھی جسے آج بھی لوگ یاد رکھتے ہیں۔ قریب کھڑے ایک بزرگ نے تائید میں سر ہلاکر کہا۔ کراچی کے لوگوں کو ایرانی ہوٹل کے ساتھ میرا مسکہ بن بھی یاد ہوگا۔ شہناز بٹر بھلا کون بھول سکتا ہے۔
ان ایرانی ہوٹلوں کے ساتھ ساتھ کوئٹہ چینک اور پیالہ ہوٹل جگہ جگہ کھل گئے جہاں رات گئے تک نوجوانوں کا اژدھام رہتا ہے۔ یہ ہوٹل شہر کے معروف علاقوں میں رات تین بجے تک کھلے رہتے ہیں۔ گلبرگ کے علاقے میں کوئلہ چائے خانہ اور چرسی ہوٹل بہترین ذائقے دار چائے کے لیے معروف ہیں۔ اسی طرح کینٹ اسٹیشن کے علاقے میں ممبئی ہوٹل نے اپنے کھانوں اور چائے کے ذائقے کو اسی طرح ترو تازہ رکھا ہے۔
ایک زمانے میں کراچی کے عوام ممبئی ہوٹل اور سٹی اسٹیشن کی چائے پینے ضرور جاتے تھے یہ کھلے اور ہوادار علاقے تھے جہاں گھنٹوں بیٹھے چائے اور پراٹھوں سے لطف اندوز ہوا جاتا تھا۔ رنچھوڑ لائن کی مارواڑی برادری میں کٹ چائے کی دھوم تھی، آج بھی ہے خصوصاً آدھیا چائے پینے لوگ دور دور سے آتے ہیں۔ لیاری میں لاہوتی، ملباری اور وحید چائے خانے شوقین حضرات کے لیے پسندیدہ جگہیں ہیں۔ طارق روڈ پر ہندو برادری کے ہوٹل کھانے اور چائے میں ایک الگ مقام رکھتے ہیں۔ یہی لوگ بوٹ بیسن پر تھالی میں چائے پیالیں رکھ کر پیش کرتے ہیں جنہیں لوگ کافی پسند کرتے ہیں۔
پوش ایریاز میں تو جدید چائے خانوں کی ایک پوری گلی مہکی رہتی ہے۔ خیابان بخاری کے 6لین میں فوڈ اسٹریٹ کی طرح ایک طویل قطار ہے جہاں چائے شائے، چائے والا اور دیگر عجیب و غریب ناموں سے مرصع ان ریستورانوں میں شام سے رات گئے تک ایک میلے کا سماں رہتا ہے۔
چائے ایک مشروب ہی نہیں بلکہ ہماری تہذیب کا حصّہ ہے۔ شادی کی بات چلانی ہو تو چائے پر بلایا جاتا ہے۔ کوئی بھی میٹنگ چائے کے بغیر نہیں چلتی۔ وکیل، کلرک، لکھاری غرض زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے صبح و شام چائے کے گُن گاتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ چائے ہمارے رشتے ناطے، میل جول، دوستی اور محبت کا ایک بہترین وسیلہ ہے۔
ایک وت تھا جب کافی ہائوس بھی ہماری زندگی کا ایک حصّہ تھے۔ شاعروں ادیبوں کی آماجگاہ تھے۔ لاہور اور کراچی کے کافی ہائوس میں ادب کے ساتھ ساتھ سیاست بھی خوب چلتی تھی۔ حبیب جالب سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو تک یہاں بحث کرتے دکھائی دیے۔ یہاں چائے کے ساتھ ساتھ کافی کے دور چلتے۔ مشتاق احمد یوسفی نے تو کافی کے موضوع پر پورا ایک مضمون لکھاتھا۔ کافی کے بیج بھی ایک روایتی کہانی سے جڑے ہیں۔ ایک چرواہے کی بھیڑ جب گھاس پر منہ ماررہی تھی تو ایک پتی کھاکے وہ مدہوش سے ہوگئی۔
چرواہے نے یہ ماجرا دیکھا تو وہ خود کھانے لگا جس سے اس کا بھی یہی حال ہوگیا۔ کافی میں ایک سرور انگیز لذت ہے۔ کراچی کے پوش ایریاز میں تو بے شُمار کافی ہائوسز کھلے ہوئے ہیں مگر اولڈ ایریاز میں صرف سردیوں میں‘ رنچھوڑ لائن ،کھارا در،رامسوامی اور گرومندر کے آس پاس بھی چائے خانوں میں کافی کی طلب بڑھ جاتی ہے۔ 1674میں لندن کی خواتین نے کافی ہاؤسز کے خلاف آواز اٹھائی اور ان پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا کہ یہ ہائوسز مردوں کو لمبے وقفے کے لیے گھر سے باہر رہنے پر مجبور کرتے ہیں۔ 1675میں کرسمس سے دو دن پہلے انگلینڈ کے شاہ چارلس نے کافی کے استعمال پر پابندی لگادی ۔ آج بھی کافی دنیا بھر میں مقبول ہے ۔ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ کافی بدن میں چربی کم کرنے میں مددگار رہتی ہے۔
کراچی کے چائے خانوں میں چائے کی مختلف اقسام مزیدار ہیں جن میں سب سے بہترین ادرک چائے، چاکلیٹ چائے، دودھ پتی چائے، الائچی چائے‘ کڑک چائے، سادہ چائے شامل ہیں۔
چائے کے ایک کپ کی قیمت پرانے شہر کے کوئٹہ چائے خانوں میں 20سے 30روپے تک ہے، جبکہ ڈیفنس کلفٹن میں مختلف اقسام کی چائے سو روپے سے شروع ہوکر دو سو روپے تک جاتی ہے۔ چائے کے علاوہ، سیاہ قہوہ، دار چینی، گرین ٹی، لیمن گراس، ریڈ ٹی اور منٹ قہوہ بھی دستیاب ہے۔ چائے پینے کے کچھ دیر بعد بھوک ستائے تو اس کے لیے بھی انتظام ہے اور مختلف اقسام کے پراٹھے مل جاتے ہیں جن میں آلو پراٹھہ، انڈا پراٹھہ، عربی پراٹھہ، بار بی کیو پراٹھہ، بمبئی پراٹھہ، جنجر پراٹھہ، فجیتا پراٹھہ اور جس قسم کا چاہے پراٹھہ منگاسکتے ہیں۔ ان چائے خانوں میں ہر لمحے محفلیں جوان رہتی ہیں۔
لوگ کرسی خالی ہونے کے منتظر رہتے ہیں۔ کسی زمانے میں رنچھوڑ لائن کے چائے خانے ’’گلو لالا کے ہوٹل‘‘ میں فلم اور اسٹیج کے آرٹسٹ آکر بیٹھتے تھے جن میں جاوید شیخ، لیاقت سولجر، شہزاد رضا، ایاز نائیک، رئوف عالم اور بہت سے نئے سیکھنے والے جمع رہتے یہ لوگ اپنے پروگرام کی ریہرسل بھی انہی چائے خانوں میں کرتے۔ سیون ڈے کافی ہائوس ایم اے جناح روڈ پ واقع چائے خانے میں خوب شامیں گزرتیں یہاں الیاس کاشمیری مرحوم جیسے فنکار نئے آنے والوں کی تربیت کرتے۔
کبھی کبھی عالیہ اور وحید مراد بھی آتے تھے جب ان کی فلم ’ہیرا اور پتھر ‘بن رہی تھی تو اس چائے خانے میں آکر پلاننگ کرتے اور اسٹاف کے ساتھ ساتھ سب کو چائے مفت میں پلائی جاتی۔ اسی طرح صدر کے گلوریا ہوٹل میں چائے اور مسکہ بن کے دَور چلتے تھے۔ کراچی کے یہ چائے خانے محبت اور بھائی چارے کی فضا پیدا کرتے ہیں۔ خدا کرے ان چائے خانوں میں اسی طرح رونق مچی رہے۔
آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع خیر آبادکے ملک عباس کے مطابق ،میرے دادا نے 1932میں ممبئی سے آکر کراچی میں کاروبار شروع کیا۔ یہیں پر ایک چھوٹی سی دکان لے کر چائے بیچتے تھے پھر آبادی بڑھنے لگی تو میرے والد نے قریبی دکانوں کو خرید لیا اور اسی طرح اس کے تین حصّے آپس میں مل گئے۔ میرا بچپن اسی ہوٹل میں گزرا۔ اس کا ڈیزائن جوں کا توں ہے۔ ہماری تین نسلوں نے اس ہوٹل کو چلایا اس ہوٹل کے پیچھے جناح کورٹ ہے۔ کسی زمانے میں یہاں غلام اسحاق خان ، اور محمد خان جونیجو بھی چائے پینے آتے تھے۔ ان کے علاوہ فنکار اور صحافی بھی ہمارے خاص گاہک ہیں۔
ایمپریس مارکیٹ اور لی مارکیٹ کے آس پاس چائے کی سینکڑوں دکانیں ہیں جہاں کھلی چائے خریدی جاتی ہے یہ چائے شہر کے کوئٹہ ہوٹل والے لے جاتے ہیں۔ کسی زمانے میں لپٹن کی رچ برو کا چرچا تھا۔ کارسن چائے بھی مشہور تھی اب عام لوگ ان برانڈ سے واقف نہیں ہیں وہ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی کسی بھی قسم کی چائے خرید لیتے ہیں۔