مغربی طاقتوں کے ایران سے مذاکرات جو کچھ عرصے سے ایک بار پھر آگے بڑھتے نظر آرہے ہیں۔ اٹھارہ مارچ کو روس نے اس سلسلے میں کچھ لچک دکھائی ہے جس کے نتیجے میں 2015 کا معاہدہ اب دوبارہ زندہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ امریکا نے روس سے تیل کی درآمدات بند کردیں اور یورپی یونین نے توانائی کے لیے روس پر انحصار کم کرنا شروع کیا تو ایران کا تیل مغربی ممالک کو پُرکشش نظر آنے لگا۔ اب اگر 2015 کا معاہدہ بحال ہوتا ہے تو ایرانی تیل دوبارہ بازاروں میں آجائے گا جس سے تیل کی قیمتیں جو ایک عشرے کی سب سے بلند سطح پر پہنچ چکی ہیں کچھ کم ہونے کا امکان ہے۔
اسی سے جڑی ہوئی ایک اہم پش رفت یہ ہوئی ہے کہ برطانیہ اور ایران کی دوہری شہریت رکھنے والے باشندے جو کئی سال سے ایران کی قید میں تھے رہا ہوچکے ہیں اور اس سے بھی معاہدے میں بہتری نظر آرہی ہے۔
اس دوران روس نے دھمکی دی تھی کہ وہ ایران کے ساتھ 2015 والے معاہدے کی بحالی کی کوششوں کو ناکام بنا سکتا ہے۔ کیوں کہ یوکرائن پر حملے کے بعد روس پر شدید پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں لیکن اب روس نے اپنی دھمکی واپس لے لی ہے۔
امریکی ری پبلکن پارٹی کے رہ نما اور امریکا کے عرب اتحادی ممالک بھی مذاکرات سے خوش نہیں ہیں
اس معاہدے کو مشترکہ جامع لائحہ عمل ( JCPOA ) کا نام دیا گیا تھا۔ جس میں شریک فریق ویانا میں اس کی بحالی کے قریب پہنچ چکے تھے کہ درمیان میں روس اور یوکرائن کا تنازعہ کھڑا ہوگیا۔پھر ماسکو نے مطالبہ کیا تھا کہ اس کی ایران سے تجارت کو مغربی پابندیوں سے متاثر نہیں ہونا چاہیے جس کے بعد یہ مذاکرات ملتوی کردیے گئے تھے پھر اچانک روسی وزیر خارجہ لاوروف نے اعلان کیا کہ روس کو امریکا سے تحریری ضمانت مل گئی ہے کہ روس کا مطالبہ مان لیا جائے گا جس کا مطلب تھا کہ اب مذاکرات جاری رہیں گے۔
تقریباً اسی وقت ایرانی اور برطانوی دوہری شہریت رکھنے والے باشندوں کو ایران نے رہا کرکے واپس برطانیہ روانہ کردیا اور ساتھ ہی برطانیہ نے کئی عشروں پُرانے ترین کروڑ ڈالرز ایرانی قرضے کے ادا کردیے تاکہ مذاکرات کی راہ مزید ہموار ہوسکے۔
یاد رہے کہ 2015 میں ہونے والے معاہدے کے تحت ایران پر عائد پابندیاں اٹھالی گئی تھیں تاکہ ایران بدلے میں اپنا نیو کلیائی پروگرام محدود کرلے۔اب اس بات کا امکان پیدا ہو رہا ہے کہ تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ٹھہر جائیں گی یا کم ہوجائیں گی۔ یعنی کہ کم از کم تین سے پانچ ڈالر فی بیرل کم ہونے کا امکان ہوگا۔ کیوں کہ ایران پانچ لاکھ بیرل تیل روزانہ برآمد کرسکے گا اور سال کے آخر میں یہ اضافی برآمدات تقریباً تیرہ لاکھ بیرل بیرل روزانہ تک پہنچ سکتی ہیں۔
یہ بات اہم ہے کہ 2020 تک ایران اوپیک میں پانچوں بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک تھا۔ جب ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے 2018 میں یک طرفہ طور پر 2015 والے معاہدے سے علیحدگی اختیار کی تو پابندیاں بھی دوبارہ عائد کردی تھیں۔ اُس وقت ایران اڑتیس لاکھ بیرل تیل روزانہ پیدا کررہا تھا جو کہ پھر کم ہوکر اس کی آدھی رہ گئی تھی۔ اس وقت ایران کے تیل کی پیداوار تقریباً چوبیس لاکھ بیرل روزانہ ہے جو کہ زیادہ تر زخیرہ کرلیا جاتا ہے اور پابندیوں کے باعث برآمد نہیں کیا جاسکتا۔
جب ٹرمپ نے دوبارہ پابندیاں عائد کی تھیں تو ایران نے بھی ردعمل کے طور پر اپنی نیو کلیائی سرگرمیاں شروع کردی تھیں اور یورنیم کی افزودگی بھی بڑھا دی تھی جس کی حد 2015 والے معاہدے کو توڑ کر آگے نکل گئی تھی۔گزشتہ سال جوبائیڈن نے امریکی صدر بننے کے بعد ایران سے مذاکرات شروع کردیے تھے اور اب انہیں شروع ہوئے تقریباً ایک سال ہوچکا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ مذاکرات امریکا اور ایران براہ راست نہیں کررہے بل کہ یورپی ثالثوں کے ذریعے کررہے تھے۔ ان مذاکرات میں اہم رکاوٹ یہ نکتہ بھی رہا ہے کہ کیا امریکا ایران کے اسلامی پاسدارانِ انقلاب کو بدستور دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں رکھتا ہے یا اس پر لچک کا مظاہرہ کرتا ہے۔
اب ان مذاکرات کے خلاف امریکی ری پبلیکن پارٹی کے رہ نما اعتراض کررہے ہیں اور ساتھ ہی امریکا کے عرب اتحادی ممالک بھی خوش نہیں ہیں خاص طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جو اوپیک کے بڑے پیداواری ممالک ہیں۔
اطلاعات کے مطابق ان دونوں ممالک کے سربراہوں نے امریکی صدر کے فون کا جواب نہیں دیا اور بات کرنے سے معزرت کرلی۔ صدر جوبائیڈن اپنے عرب اتحادیوں کو ایران سے معاہدے پر اعتماد میں لینا چاہتے ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ وہ تیل کی پیداوار بڑھا دیں تاکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بہت زیادہ نہ بڑھ جائیں۔
اوپیک ملکوں کا خیال ہے کہ وہ اپنی تیل کی پیداوار کو اسی تناسب سے بڑھائیں گے جس کا معاہدہ اوپیک اور اوپیک سے باہر کے تیل پیدا کرنے والے ممالک کے درمیان 2021 میں ہوا تھا اُن میں روس بھی شامل تھا۔
اب زرا اس کا ذکر ہوجائے کہ وہ دو شہری کون ہیں جنہیں ایران نے رہا کردیا ہے۔ چھ سال ایران کی قید میں رہنے والی نازنین زاغری ریٹ کِلفِ اور انوشہ اشوری کی رہائی کے عوض برطانیہ کی جانب سے ایران کو ایک قرض کی ادائیگی کی جارہی ہے جو اسلحے کے ایک چالیس سال پُرانے معاہدے کے تحت ہوگا۔ اصل قصہ یہ ہے کہ 1970 کے عشرے میں اُس وقت ایران کے بادشاہ نے برطانیہ کو اسلحے کی خریداری کا آڈر دیا تھا جس کی مالیت 65 کروڑ پاؤنڈ تھی۔ ایران نے رقم تو ادا کردی تھی مگر اسے پورا اسلحہ نہیں ملا تھا پھر ایران میں شاہ معزول کردیے گئے اور اسلامی انقلاب آگیا جس کے بعد سے ایرانی اسلامی حکومت رقم واپس لینے کی کوشش کررہی تھی۔
ایران نے اس تنازع کو عالمی تجارتی تنظیموں کے ذریعے بھی حل کرانے کی کوشش کی جس میں کچھ فیصلے بھی ہوئے مگر ان پر مکمل عمل درآمد نہ ہوسکا کیوں کہ یورپی یونین نے بھی 2008 میں ایران پر پابندیاں عائد کردی تھیں۔
نازنین جنہیں اب رہا کردیا گیا ہے 2016 میں گرفتار کرلی گئیں تھیں کیوں کہ ان پر ایران نے سازش کرنے کا الزام لگایا تھا۔ اب نازنین زاغری, اشوری اور ایک اور دوہری شہریت رکھنے والے مراد شہباز کو بھی عارضی رہائی دے دی گئی ہے۔ ان اب باتوں کا نتیجہ تو یہی نکلتا ہے کہ ایران اب بہتر صورت حال میں واپس آرہا ہے مگر امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل کینتھ فرینک میکنزی نے خبردار کیا ہے کہ ایران پھر بھی خطّے کے امن کے لیے ایک بڑا خطرہ رہے گا۔ امریکہ کے لیے بظاہر اس وقت دو نکات بڑے اہم ہیں ایک تو یہ کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بہت زیادہ نہ بڑھیں اور دوسری یہ کہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے بھی باز رکھا جائے۔ ساتھ ہی روس پر دباؤ برقرار رکھنے کے لیے بھی یہ باتیں امریکا کے لیے اہم ہیں۔
ایران کے ساتھ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بھی علاقے میں اپنے اثرورسوخ میں اضافے کے لیے کوششیں کرتا رہتا ہے اور اسی طرح یمن تک کے تنازع میں اور عراق میں ساتھ ہی شام اور لبنان میں ہر جگہ ایران کے اثرات نظر آتے ہیں۔ جن سے نہ عرب خوش ہیں اور نہ اسرائیل جو کہ ہر قیمت پر ایران کو کم زور دیکھنا چاہتے ہیں۔