روس کی یوکرین میں شروع کردہ جنگ روس کی توقعات کے برعکس طول پکڑتی جا رہی ہے ایسے میں روسی معیشت جو پہلے ہی مسائل کا شکار تھی اب جنگ کی وجہ سے امریکا یورپی ممالک و دیگر کی جانب سے عائد سخت اقتصادی پابندیوں کی وجہ سےمزید نڈھال ہو چکی ہے۔ یورپی یونین اور نیٹو کی حالیہ عائد کردہ پابندیوں کے باوجود کچھ یورپی ممالک روس سے بدستور تیل اور گیس خرید رہے ہیں۔
دُوسری جانب روس اور بھارت کے تعلقات بھارت کی آزادی کے بعد سے چلے آرہے ہیں۔ بھارت سرد جنگ کے دور میں غیروابستہ تحریک کا رُوح رواں تھا اور سب سے دوستی مگر یک طرفہ داری کا قائل نہ تھا۔ اس دور میں بھارت روس سے اسلحہ خریدتا رہا۔ 1969ء میں روس بھارت معاہدہ ہوا۔ مزید اسلحہ خریدا گیا۔ اس حوالے سے بھارت کے بقول اس کی مجبوری اور ضرورت ہے کہ روس سے تعلقات برقرار رکھے تا کہ پرانے روسی اسلحہ کو اَپ ڈیٹ کرنے، اضافی پرزوں کی خریداری کرنے میں دُشواری نہ ہو۔
اس طرح روس کی یہ ضرورت ہے کہ بھارت کےا س نرم گوشہ کو استعمال کیا جائے ایسے میں روس نے بھارت کو پیش کش کی ہے کہ وہ عالمی منڈی میں خام تیل کی فی بیرل قیمت میں نسبتاً پچیس ڈالر فی بیرل ڈسکائونٹ دوں گا۔ ظاہر ہے روس کی یہ پیش کش بھارت کے لئے غیرمعمولی تھی۔ واضح رہے کہ بھارت دُنیا کا دُوسرا بڑا تیل کا امپورٹر ہے پہلا چین ہے۔
امریکا کسی طور یہ نہیں چاہتا کہ بھارت خطّے میں دُوسرا چین بن کر اُبھرے
بھارت آئل کمپنی کے ذرائع کے مطابق بھارت کو ساٹھ تا ستّر ہزار ملین بیرل تیل کی ضرورت ہے۔ مگر یکمشت اتنا تیل خریدنے پر بڑا واویلا مچ جاتا اس لئے بھارت نے آٹھ آٹھ دس دس ہزار ملین بیرل کی خریداری کا سلسلہ شروع کیا اور نقد ادائیگی بھی شروع کر دی۔ روس کے لئے ان حالات میں یہ ایک طرح کا تھوڑا سہی مگر ریلیف مل گیا۔
اس تناظر میں حال ہی میں وائٹ ہائوس کی طرف سے جاری ایک بیان میں صدر جوبائیڈن نے بھارت کو وارننگ دی ہے کہ روس پر پابندیوں کے باوجود تیل اور قدرتی گیس کے معاہدے شدید خلاف ورزی ہے۔ بیان میں یہ تک کہا گیا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ بھارت فیصلہ کر لے کہ وہ تاریخ کے کس جانب کھڑا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ وائٹ ہاؤس میں بھارت روس آئل گیس ڈیل پر خاصی تشویش پائی جاتی ہے جبکہ بھارت بی جے پی مخالف سیاسی دھڑے وزیراعظم نریندر مودی پر شدید تنقید کر رہے ہیں کہ وہ روس جیسے بوڑھے گھوڑے پر کیوں اسٹیک لگا رہے ہیں جبکہ دُنیا روس کے خلاف ہے۔ روس پر شدید پابندیاں عائد ہیں۔ ایسے وقت پر روس کے ساتھ ڈیل کرنا، تیل کی خریداری کرنا ناقابل فہم ہے۔
امریکا نیٹوممالک اور آسٹریلیا جاپان بھی روس پر پابندیوں کی ہر طرح سے حمایت کررہے ہیں اوراس پر عمل کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ مگر بھارت کی اس موقع پر یہ پالیسی اس کو ہر طرف سے تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے۔ مغربی ماہرین کا یہاں تک کہنا ہے کہ اگر روس اور بھارت کی جاری پالیسی مزید آگے بڑھتی ہے اورتعلقات مزید گہرے ہوتے ہیں تو پھر کہا جا سکتا ہے کہ یہ پیرا ڈائم شیفٹ ہے۔ مشرق ادھر اورمغرب ادھر۔
امریکی صدر نے وائٹ ہائوس سے ایسا ہی بیان چین کے لئے بھی جاری کیا ہے جس میں چین سے کہا گیا ہے کہ وہ تاریخ کی دُرست سمت کا تعین کرلے۔ اس مشورہ یا انتباہ پر چین کے صدر شی جن پنگ نے وائٹ ہائوس کو جواب دیا ہے کہ چین نے ہمیشہ جنگ و جدل، استحصال اور جارحیت کے خلاف آواز اُٹھائی ہے۔ روس کی سلامتی کا مسئلہ تھا جس کو مذاکرات سے حل کیا جا سکتا تھا مگر یوکرین کی حکومت نے روس کو مطمئن نہیں کیا۔ چینی وزیر خارجہ نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا کہ ہمیں یہ نہ بتایا جائے کہ کیا کرنا چاہئے۔ چین نے روس کی حمایت کی ہے تو اس کی سلامتی کے مسئلے پر کی ہے۔ نیٹو کو روس سے بات کرنا چاہئے۔ بتایا جاتا ہے کہ یوکرین کے مسئلے پر وائٹ ہائوس میں خاصی افراتفری پائی جاتی ہے۔
دُوسری طرف امریکی نائب صدر کملا ہیرس یورپی ممالک کے دورے سے واپس آ چکی ہیں۔ نیٹو کے بعض ممالک کو تشویش ہے کہ روس نے اپنے جوہری اسلحہ خانہ سے سپر سونک میزائل نکال کر انہیں پولینڈ، یوکرین کے قریب سرحدوں پر نصب کر دیئے ہیں۔ مگر بعض دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ محض دکھانے اور دھمکی کی حد تک ہیں روس ان میزائل کو استعمال نہیں کرے گا۔ امریکا نے پولینڈ کی سرحد پر اپنے میزائل نصب کر دیئے ہیں اور اس کی پچاس ہزار فوج پولینڈ میں بیٹھی ہے۔
مقصد یہ ہے کہ نیٹو کو امریکا کی موجودگی کا احساس دلایا جائے اور روس کو مزید کسی ملک کے خلاف فوجی مہم جوئی سے باز رکھا جا سکے۔ اب جبکہ امریکا نے بھارت سمیت چین کو بھی تاریخ کے دُرست رُخ پر کھڑے ہونے کی وارننگ یا تاکید کر دی ہے تو یہ محض ایک بیان ہے جو صدر امریکا نے اپنی عوام کو مطمئن کرنے کے لیے دیا ہے۔
درحقیقت امریکا کی پریشانی یہ ہے کہ اس کا پرانا تجربہ کار عالمی حریف ایک بار پھر عالمی سطح پر اپنا کردار ادا کرنے کے لئے پَر تول رہا ہے جبکہ پہلے ہی امریکا ایشیا میں چین کی مسلسل بڑھتی معاشی اور دفاعی قوت پر تشویش میں مبتلا ہے۔ پھر چین کے پاس اتنی امکانی قوت ہے کہ وہ معاشی طور پر روس کی خاصی مدد کر سکتا ہے اور اس پر عائد اقتصادی پابندیوں کو بڑی حد تک بے اَثر کر سکتا ہے۔
ایسے میں بھارت اور روس کی تیل گیس کی خریداری کی ڈیل امریکا کے لئےیقیناً باعث تشویش ہے بلکہ علامتی طور پر دیکھا جائے تو روس، چین اور بھارت بالفرض ایک صف میں کھڑے ہو جائیں تو طاقت کا توازن مشرق کے پلڑے میں آن گرے گا۔ ہرچند کہ ایسا ہوتا نظر نہیں آتا مگر سیاست میں اور خاص طورپر عالمی سیاست میں ہر آن تبدیلی کا امکان رہتا ہے۔ اس مفروضہ کو رَدّ نہیں کیا جا سکتا۔
اگر حقیقت پسندی سے غور کیا جائے تو درحقیقت امریکا کسی طور یہ نہیں چاہتا کہ بھارت خطّے میں دُوسرا چین بن کر اُبھرے۔ اگر بھارت کے کچھ حلقے امریکا کو بھارت کا مخلص دوست، ساتھی سپر پاور تصوّر کرتے ہیں تو غلط سوچتے ہیں۔ یاد رکھیں بھارت کی چاند گاڑی جب پچیس کلومیٹر دُور تھی تو کس ملک کے بڑے خلائی ادارے نے اس کا رابطہ منقطع کیا تھا۔ امریکا کے نزدیک بھارت کی اہمیت محض چین کی وجہ سے ہے۔
اگر کبھی چین امریکا تنازع بن گیا تو اس وقت بھارت ایک حد تک امریکا کے کام آ سکتا ہے۔ مگر بھارتی بھی اتنے سادہ نہیں ہیں انہوں نے چین سے باوجود سرحدی تنازعات کے تجارتی تعلقات استوار کر رکھے ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ بھارت اور چین کے مابین سالانہ ایک سو بیس ارب ڈالر سے زائد کی تجارت ہوتی ہے۔ دونوں ممالک تجارتی معاملات میں حساس ہیں۔
بھارت کے وزیر برائے پیٹرولیم کا کہنا ہے کہ امریکا ہمیں روس سے تیل کی خریداری پر وارننگ دے رہا ہے جبکہ یورپی یونین کے بیش تر ممالک روس سے تیل خرید کر رہے ہیں اس جانب سے امریکا نے آنکھیں بند کر لی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارت ستّر فیصد سے زائد اپنے تیل کی ضروریات عالمی منڈی سے تیل کی خریداری کر کے پوری کرتا ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ کی وضاحت کے بعد برطانیہ کے سیکرٹری خارجہ نے بھی ایک بیان میں بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ روس سے تیل کی خریداری کا کوئی معاہدہ نہ کرے۔ امریکا کے بعد برطانیہ کی طرف سے بھی دبائو آ رہا ہے کہ فیصلہ کرے کہ وہ کس طرف کھڑا ہے۔
بھارت کے آزاد ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت کی جدید تاریخ میں یہ دیکھا گیا ہے کہ سپر پاورز کسی کی دوست نہیں ہوتی ہیں وہ صرف اور صرف انے مفادات کی اَسیر ہوتی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ 1962ء میں چین نے اچانک بھارت کے خلاف فوجی کارروائی شروع کی تھی تب اس وقت کے بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے روس کے وزیراعظم کو خط ارسال کیا تھا کہ اس موقع پر بھارت کی مدد کی جائے مگر روسی وزیراعظم نیکتا خروشیف نے بھارت کی درخواست مسترد کر دی تھی۔
بھارتی وزیراعظم پر اس وقت فالج کا حملہ ہوا تھا ان کا کہنا تھا کہ ہند چین بھائی بھائی کے نعرے ہر طرف لگتے رہے اور اب یہ کیا ہے۔ اس کے باوجود بھارت اور امریکا کے تعلقات میں کشیدگی رہی، عالمی سیاست کی یہ پیچیدگیاں اور ان کی گتھیاں تاحال اُلجھتی جا رہی ہیں۔ امریکا ابتدا ہی سے بھارت کی غیروابستہ تحریک کا مخالف رہا۔ پنڈت جواہر لعل نہرو نے روس امریکا دو سپر پاورز میں کسی ایک کے ساتھ جانے کے بجائے غیروابستہ تحریک کی بنیاد رکھی تھی کہ سب سے دوستی کسی کے ساتھ وابستگی نہیں۔ اس تحریک میں انڈونیشیا کے سوئیکارنو، یوگوسلاویہ کے مارشل ٹیٹو اور مصر کے صدر جمال ناصر نے بھی شرکت کر لی اور یہ ایک نیا تیسرا بلاک بن کر اُبھرا تھا۔ بھارت کو اس پالیسی سے ایک عرصے بعد بہت فائدہ ہوا اور اب بھارت چوتھی بڑی معاشی قوت بن کر اُبھر رہا ہے۔
واضح رہے کہ قوموں کی سیاسی زندگی میں آزاد خارجہ پالیسی کی بنیادی اہمیت ہوتی ہے۔ ماضی بعید اور ماضی قریب میں امریکا کی گن بوٹ پالیسی نے دُنیا کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ خاص طور پر بعداَز دُوسری عالمی جنگ کے بعد کی سرد جنگ کے دور میں امریکا کے انتہاپسند سینیٹر میکارتھی نے اپنی انتہاپسند پالیسی کو امریکی سیاست میں داخل کر کے جنوب امریکی ممالک، افریقہ اور ایشیائی ممالک میں فوجی آمرانہ حکومتوں کے قیام کی مہم چلائی، جمہوریت پسند، لبرل حلقوں کو بُری طرح کچل دیا گیا۔ طلبہ کو سیاست سے دُور رکھنے کے لئے دُنیا میں یونیورسٹیز کو شہر سے زیادہ سے زیادہ دُور قائم کرنے کا نظریہ دیا۔ میکارتھی اَزم کی وجہ سے خود امریکا میں رنگدار نسل افراد پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ نسلی امتیاز کے خلاف تحریکیوں کو کمیونسٹوں کی سازشیں قرار دیا جاتا رہا۔ مارٹن لوتھر کنگ کا قتل کیا گیا۔
اب آج کی دُنیا میں امریکی صدر کا بھارت اور چین کو روس سے تجارت نہ کرنے کا مشورہ ناقابل فہم لگتا ہے۔ یہ کھلا راز ہے کہ دُنیا کی سیاست کا تمام دارومدار معیشت پر استوار ہے۔ ملکوں کی خوشحالی، دوستی، دوطرفہ تعلقات یا تنازعات کی بنیاد اقتصادیات ہے، معاشیات ہے، اب جبکہ بھارت کی سالانہ آمدنی گیارہ ٹریلین سے تجاوز کرچکی ہے اور تجارت میں چین کے بعد دُوسرا حصہ بھارت کا ہے۔ ایسے میں امریکا کی جانب سے بھارت کو وارننگ جاری کرنا لاحاصل کوشش ہے۔
امریکا کے پالیسی ساز اداروں اوران کے قانون ذمہ داروں کو اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کے بزرگوں سے کہاں غلطیاں ہوئیں ہیں ان کو درست کیا جائے۔ ترقّی پذیر ممالک ایک بڑی بکھری ہوئی قوت ہے ان ممالک کے بنیادی مسائل ہیں ان کی ان مسائل کو حل کرنے میں مدد کی جائے۔ خصوصاً اب جبکہ دُنیا ماحولیات اور موسمی تغیرات کے اس دور میں نت نئے مسائل اور مصائب سے دوچار ہیں ان کی مدد کی جائے۔
یورپ نازک حالات سے گزررہا ہے وہاں یوکرین کو روس سے مذاکرات کر کے معاملات کو حل کیا جائے۔ نیٹو یوکرین کو قربانی کا بکرا نہ بنائے ورنہ روس مزید پیش قدمی کر سکتا ہے۔ نیٹو اس کو روک نہیں سکتا۔ اقتصادی پابندیوں کو چین نے بے اَثر ثابت کر دیا ہے۔