سلور اسکرین کی نامور اداکارہ انجمن جس نے سینما اسکرین پر بہت ہی کم عرصہ میں بلندیوں کو چُھوا۔ ملتان کے ایک گائوں جکو والا میں پیدا ہونے والی اس لڑکی کا نام والدین نے انجم شاہین رکھا۔ اسکول لائف میں ہی اپنی ہم جماعت لڑکیوں میں اپنے حسن،لامبے بال اور قد کی بنا پر ایک مکمل ہیروئن معلوم ہوتی تھیں۔ بچپن ہی سے وہ گلوگیر آواز کی مالک تھیں، گائوں میں اپنی نانی کے پاس رہنے کی وجہ سے انہیں نغمہ سرائی سے شغف رہا۔ ان کی نانی، جو موسیقی سے بے حد لگائو رکھتی تھیں، جب اپنی نواسی کو گاتے ہوئے سُنا، تو باقاعدہ اسے موسیقی کی تعلیم دلانے کے لیے شام چوراسی گھرانے کے استاد اختر حسین کی خدمات لیں۔ 14سال کی عمر میں انجم نے ایسا رنگ اور روپ نکالا کہ جو بھی دیکھتا، وہ ان کے حُسن کے سحر میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
وہ پنجاب کی الہڑمٹیارکے افسانوی خیال کی چلتی پھرتی تصویر نظر آئیں۔ انجمن جب ملتان سے لاہور آئیں، تو دیکھنے والوں نے اس لڑکی کے بارے میں پیشں گوئیاں کرتے ہوئے کہاکہ یہ ایک روز بہت بڑی ہیروئن بنے گی۔ معروف فلم ساز ہدایت کار شباب کیرانوی نے جب انجم کو دیکھا تو اپنی نئی فلم ’’وعدے کی زنجیر‘‘ کے لیے کاسٹ کر لیا۔ انجم سے انہیں انجمن کا نام بھی شباب صاحب نے دیا۔ ’’وعدے کی زنجیر‘‘ 1979ء میں ریلیز ہوئی اور شان دار کام یاب رہی۔ چاکلیٹی ہیرو وحید مراد نے اس فلم میں ان کے مقابل ہیرو کا کردار ادا کیا، جب کہ محمد علی نے بھی اس فلم میں ایک اہم کردار پلے کیا، دیگر اداکاروں میں صبیحہ خانم، ننھا، ابراہیم نفیس، بندیا اور علی اعجاز کے نام بھی شامل تھے۔
اسکول لائف میں انجمن اداکار وحید مراد کی فلمیں دیکھا کرتی تھیں، جب فلم ’’وعدے کی زنجیر‘‘ میں وہ ان کے مدِمقابل ہیرو بن کر سامنے کھڑے تھے، تو اس وقت انجمن کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا اور وہ خوشی سے کہنے لگی، میں آنکھ بن کر یُوں ہی تمہیں دیکھتی رہوں۔ تم سامنے کھڑے رہو تصویر کی طرح۔ شباب کے ساتھ اس فلم کے علاوہ ’’آپ سے کیا پردہ‘‘ دوراستے، آئینہ اور زندگی، نامی اُردو میں انہوں نے کام کیا۔ اسی دوران ایک اردو فلم سنگیتا کی ہدایت میں’’ آج اور ابھی‘‘ کی مگر ان تمام فلموں نے کوئی نمایاں کام یابی حاصل نہ کی۔ ہدایت کار پرویز ملک نے انہیں اس فلم ’’رشتہ‘‘ میں تانگا چلانے والی ایک لڑکی کا جان دار کردار دیا، جس میں انہوں نے بڑی متاثر کن اداکاری کی۔
اسی دوران ہدایت کار اقبال کشمیری کی پنجابی فلم ’’سردار‘‘ میں انہیں ایک اندھی لڑکی کا کردار جو خاصہ مشکل کردار تھا، لیکن انجمن نے اسے اپنی بہترین اداکاری سے نہایت عمدگی سے ادا کیا، یہی وہ کردار تھا، جس نے انجمن کے لیے پنجابی فلموں کی بارش کردی۔ یہ وہ دور تھا ، جب پنجابی فلموں کی کام یاب ترین اداکارہ آسیہ شادی کرنے کے بعد فلمی صنعت کو خدا حافظ کہہ کر سنگاپور چلی گئی تھیں۔ اب پنجابی باکس آفس پر فلم سازوں نے انجمن کی صورت میں ایک ایسی اداکارہ کو متعارف کروایا، جس نے پنجابی باکس آفس پر کام یابیوں کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔
وہ اپنے دور کی باکس آفس اسٹار بن گئیں، اس دور میں وہ سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی اداکارہ تھیں۔ انجمن نے اپنے حُسن اخلاق، نرمی، سعادت مندی اور پیکرِ جمال سے بہت سے فلم سازوں کے دل موہ لیے۔ وہ انتہائی دل چسپ شخصیت کی مالک ہیں۔ لطیفہ گوئی، ہنسنے ہنسانے کا فن انہیں خوب آتا ہے، ایک سُریلی آواز اور سنگیت کے فن سے بھی آشنا ہیں، اگر وہ اداکارہ نہ ہوتیں، تو ایک بہترین گلوکارہ بھی بن سکتی تھیں۔ لطیفہ گوئی کے ساتھ ان کا ادبی ذوق میں بہت اعلیٰ ہے۔ انجمن کو اگر فنِ رقص کی اکیڈمی کہا جائے، تو بے جا نہ ہوگا۔
انہوں نے رقص کی تعلیم پٹیالہ گھرانے کے ماسٹر سجاد سے باقاعدہ حاصل کی۔ انجمن کے لیے 1981ء کا سال بہت ہی کام یابیاں لےکر آیا، جب ان کا ستارہ عروج پر پہنچ گیا۔ اس سال عیدالفطر کے موقع پر ان کی پانچ فلمیں بہ یک وقت نمائش پذیر ہوئی، جس میں شیرخان، سالا صاحب، چن وریام نے باکس آفس پر کام یابیوں کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ ان تینوں فلموں نے شان دار ڈائمنڈ جوبلیاں منائیں یہ اب تک کا ایک ایسا ریکارڈ ہے، جو کسی اور اداکاروں کو حاصل نہیں ہوا۔ چن وریام اور شیرخان میں اداکار سلطان راہی کے ساتھ ان کی جوڑی اس قدر سپر ہٹ ہوئی کہ ان دونوں نے مشترکہ طور پر 128فلمیں بنائی ہیں۔ ان میں 107فلموں میں وہ بہ طور ہیرو، ہیروئن آئے۔
انجمن اور سلطان راہی کی پہلی ملاقات ہدایت کار ایم ریاض کی فلم ’’دو قیدی‘‘ کے موقع پر ہوئی تھی، جس میں دونوں نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ اس جوڑی کو شہرت ہدایت کار جہانگیر قیصر کی چن وریام اور ہدایت کار یونس ملک کی شیر خان سے ملی۔ جب سینما اسکرین پرانجمن ’’لڈی ہے جمالو‘‘ کا رقص کرتی نظر آتیں، تو پُورا سینما ہال ان کے ساتھ محورقص کرتا ہوا فلم کی تفریحی سے لطف اندوز ہوتا، باکس اور گیلری میں بیٹھی ہائی جنٹری میں گانے پر تالیاں بجاتے، بے شمار مقبول سپرہٹ گانوں پر انجمن کے رقص آج بھی فلم بینوں کے ذہنوں میں محفوظ ہیں۔
کوریوگرافر حمید چودھری کا ان کے بارے میں یہ کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں انجمن کے فن ِ رقص کا احاطہ کرنا بہت مشکل ہے، کیوں کہ اس کے فنِ رقص کی حدیں بہت آگے تک پھیلی ہوئی ہیں۔ میں نے اُسے جھلستی ہوئی گرمی میں کھلے میدان میں رقص بندی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں نے سو سے زیادہ فلموں میں بطور ڈانس ڈائریکٹر اس کے ساتھ کام کیا۔‘‘ انجمن کا اندازِ رقص اور اس پر ملکہ ترنم نورجہاں کی گائیکی کا جادو، تو وہ گانے ریکارڈنگ کے مراحل سے نکل کر جب عوام کی سماعتوں سے ٹکراتے تھے، تو چاروں طرف چلترنگ اور ساز بجنے لگتے تھے۔
بے شمار لازوال سپرہٹ گانے منی اسکرین پر ہٹ ہوئے۔ آواز اور انداز کے اس سنگم نے پنجابی باکس آفس کو ایسے دل کش سدا بہار، سُریلے نغمات دیے، جن کا حُسن امر ہے۔ اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے خود انجمن نے ایک موقع پر کہا تھا کہ میری کام یابی میں میڈم نورجہاں کا بہت بڑا رول ہے، جب ان کا گایا ہواکوئی گیت مجھ پر فلم بند ہوتا ہے، تو فلم بین یہ سمجھتے ہیں کہ خود میں گا رہی ہوں۔ کئی سادہ دل لوگوں نے ملتے ہی مجھ سے کہا کہ آپ نہ صرف بہت اچھا رقص کرتی ہیں بلکہ ان کی آواز بھی خوب ہے اور گاتی بھی اچھا ہیں۔ پھر میں انہیں بتاتی ہوں کہ میں نہیں گاتی، بلکہ میڈم نورجہاں کی آوازہوتی ہے۔
میں تو صرف ہونٹ ہلاتی ہُوں۔ پنجابی فلموں میں زیادہ تر کہانیوں کا مرکزی کردار مرد اداکار ہوا کرتے ہیں اور ایک ٹائپ کی فلمیں یا روٹین کی فلموں سے فلم بین یکسانیت کا شکار ہو جاتے تھے۔ خواتین اداکارائیں صرف گانوں میں رقص کرنے یا ہیرو سے رومانی مکالمے نظر آتی تھیں۔ انجمن کو فلم سازوں اور ہدایت کاروں نے زیادہ تر فلموں میں ایک ٹائپ کے کردار کروا کے ’’گائوں کی الہڑ مٹیار‘‘ مجبور طوائف، شہرکی موڈرن لڑکی، جس کے ہاتھ میں ہتھیار دے کر اُسے ڈسکو ڈانسر بنا دیتے، بہت ہی کم ڈائریکٹر نے انجمن کی فنی صلاحیتوں کو مدنظر رکھ کر کردار لکھوائے۔
ہدایت کار الطاف حسین نے اپنی پنجابی فلم ’’صاحب جی‘‘ میں انجمن کو ایک مختلف کردار سونپا، اس کردار میں ان کی کردار نگاری بے حد لاجواب تھی۔ 1983ء میں ریلیز ہونے والی اس فلم میں انہوں نے سلمیٰ نامی ایک ایسی لڑکی کاکردار کیا، جسے اپنی دولت اور حُسن پر غرور ہوتا ہے۔ 1985ء میں الطاف حسین کی ایک اور فیملی ڈراما فلم ’’نکاح‘‘ میں ایک بار پھر ایک مختلف کردار اداکیا۔ ایک ایسی لڑکی کا کردار تھا، جس کی شادی بچپن میں اداکار ننھا کے ساتھ ہوتی ہے اور جب وہ جوان ہوتی ہے، تو اس کی زندگی میں علی اعجاز آجاتا ہے۔ ایسی اعلیٰ کردار نگاری ہدایت کار الطاف حسین کی فلم ’’مہندی ‘‘ میں بھی اعلیٰ معیارکی تھی۔
اداکار جاوید شیخ نے اس فلم میں ان کے مقابل ہیرو کا کردارکیا تھا۔ 1986ء میں نمائش ہونے والی پنجابی فلم ’’میلہ‘‘ میں ہدایت کار حسن عسکری نے ان کے لیے ایک بہت ہی مختلف کردار لکھوایا۔ اس فلم میں لکھی کاکردار انجمن نے کچھ اس انداز سے پلے کیا کہ وہ کردار ان کے فنی کیریئر کا سب سے یادگار کردار ثابت ہوا۔ اس کردار میں انہوں نے ثابت کیا کہ وہ صرف فلموں میں ناچ گانے یا ڈیکوریشن پیس نہیں ہیں، بلکہ کردار نگاری میں بھی کسی سے پیچھے نہیں، آغا حسن عسکری نے اپنی جوہرشناس نظروں سے انجمن میں چھپی ہوئی اس فن کارہ کو اسکرین پر دکھایا۔ فلم میلہ میں انجمن نے اپنے کردار میں بڑی حد تک متاثرکن اداکاری پیش کی۔ اس فلم میں وہ بِنا میک اَپ کے نظر آئیں، یعنی ایک مکمل کلچرل اداکارہ نے پہلی بار جس طرح کا انداز اپنایا اور فلم بینوں کو بے حد متاثر کیا۔
جن دنوں انجمن لندن میں مقیم تھیں، تو بھارتی ہدایت کار ساون کمار نے انہیں بھارت میں کام کرنے کی دعوت دی تھی، مگر انہوں نے انکار کردیا۔ حیرت ہے حکومت نے پاکستان نے اس مقبول اور محب وطن اداکارہ کو ابھی تک کوئی سرکاری اعزاز سے نہیں نوازا۔
اداکارہ انجمن کی ریلیز شدہ فلموں کی تعداد 172ہے۔13فلموں نے ڈائمنڈ جوبلی بنائی،28فلمیں پلاٹینم جوبلی، 51گولڈن جوبلی اور 13فلمیں سلور جوبلی بنا چکی ہیں۔ ان کی تمام فلموں اورکردار نگاری کو ان مختصر مضمون میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ انہوں نے بہ طورہیروئن وحید مراد، محمد علی، ندیم، شاہد، غلام محی الدین، یوسف خان، اظہار قاضی، اعجاز، اقبال حسن، جاوید شیخ، علی اعجاز، ننھا اور سلطان راہی جیسے سپر اداکاروں کے ساتھ کام کیا، تو وہاں شان اور سعود جیسے ینگ ہیروز کے مقابل میں ہیروئن کے کردار کیے۔
پنجابی لوک کہانیوں اور افسانوں میں جو ایک مٹیار کا تصور ملتا ہے، انجمن اس کی چلتی پھرتی زندہ جاوید تصویر معلوم ہوتی ہے، وہ اپنے نام کی طرح اپنی ذات میں ایک انجمن کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کی ان ہی خوبیوں کی بنا پر انہیں پنجابی باکس آفس پر جو مقام ملا، اس کی وہ صحیح معنوں میں حق دار ہیں۔ سوشل اور فلاحی کاموں میں ان کی دل چسپی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، وہ کئی فلاحی اداروں میں بہ طور خاص مہمان بلائی جاتی ہیں۔ اپنے عروج میں فلمی صنعت کو خدا حافظ کہہ کر اپنی نجی اورگھریلو زندگی میں مصروف ہوگئیں۔ فلم ساز اور ہدایت کار انہیں آج بھی اپنی فلموں میں اہم کردار دینے کے لیے بے تاب نظرآتے ہیں۔