• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

11مارچ 2020ء کو عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کووِڈ-19کو عالمی وَبائی مرض قرار دیا۔ اس کے بعد سے، دنیا بھر میں اس بیماری کی وجہ سے 60لاکھ سے زیادہ جانیں جا چکی ہیں، اور اَن گنت طریقوں سے روزمرہ زندگی متاثر ہوئی ہے۔ کچھ ممالک اب معمول کی طرف لوٹنے کی کوشش کررہے ہیں، حالانکہ وَبائی بیماری کے وائرس کی کسی نئی لہر کا خطرہ باقی ہے۔ دو سال بعد، آئیے ان چیزوں پر غور کرتے ہیں جو دنیا نے وبائی مرض کے دوران سیکھی ہیں۔

متعدی بیماریاں پورے معاشرے کا مسئلہ

2019ء میں زندہ ہر 1,300افراد میں سے ایک شخص کی موتSARS-CoV-2 انفیکشن سے ہوئی ہے، لیکن جب ہم آنے والے وقتوں میں پیچھے مُڑ کر کووِڈ-19پر نظر ڈالیں گے تو ہمیں اس کے صحت پر براہِ راست اثرات ہی سب سے زیادہ یاد ہوں گے۔ لیکن ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس کے زندگی کے دیگر معمولات پر اثرات، صحت کے نظام پر دباؤ اور دماغی صحت پر پڑنے والا بوجھ، وہ اثرات ہیں، جنھیں ایک طویل عرصہ تک محسوس کیا جائے گا۔ خاص طور پر کم آمدنی والے خاندانوں سےتعلق رکھنے والے بچوں کو ، اسکولوں کی طویل بندش سے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ مجموعی طور پر، وبائی مرض کی وجہ سے ہونے والے معاشی نقصان اور نقل مکانی نے دنیا بھر کے لوگوں کے معیارِ زندگی کو گرا دیا ہے۔

ویکسین کی تیاری کے طریقہ کار میں بڑی تبدیلی

آج دو سال بعد، غالباً ہمارے لیے یہ بھولنا آسان ہوگیا ہے کہ کووِڈ-19ویکسینز کی تیاری کتنی قابل ذکر تھی۔ ایک سخت ریگولیٹری ماحول میں کووِڈ-19کی جینومک ترتیب سے لے کر اجازت حاصل کرنے تک کا سفر صرف 326دنوں میں طے کیا گیا اور اس طرح ویکسین تیاری کے گزشتہ تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ اس کے علاوہ، بائیومیڈیکل سائنس نے شدیدکووِڈ-19کے خلاف اعلیٰ افادیت اور مجموعی حفاظتی پروفائل کے ساتھ متعدد ویکسین فراہم کیں۔ اب مقابلہ کا معیار بڑھ گیا ہے اور اس بات پر سنجیدہ بحث ہو رہی ہے کہ ہنگامی طبی حالات میں آئندہ کسی بھی وَبائی مرض کے خلاف100دن میں ویکسین تیار کرلی جائے گی۔

مساوی تقسیم کے لیے ڈھانچہ جاتی تبدیلی 

ویکسین ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کی کامیابیوں کے باوجود، اس کے ثمرات تک رسائی میں مسلسل عدم مساوات موجود ہے۔ ہنگامی حالات کے لیے عالمی سطح پر ویکسین تیار کرنے کی صلاحیت میں نمایاں اضافہ سے مستقبل میں لوگوں کی بڑی تعداد کے لیے ویکسین تک تیزی سے رسائی کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔ ویکسین کی تیاری کا مقام بھی اہمیت رکھتا ہے۔ کم آمدنی والے خطے اپنی مقامی صلاحیت کوبڑھانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں تاکہ اگلے متعدی بیماری کے بحران کے دوران وہ عالمی معاہدوں اور طویل سپلائی چین پر کم انحصار کریں۔

مؤثر وَبائی ردِعمل کے لئے اعتماد 

وَبائی مرض سے پہلے، یہ فرض کیا گیا ہو گا کہ اکثر مہلک اور معاشرتی طور طریقے بدلنے والی وبائی بیماری کے خلاف اعلیٰ سطح کا یقینی تحفظ فراہم کرنے والی محفوظ ویکسین کی زیادہ مانگ ہوگی۔ موجودہ وبائی مرض کے دوران کچھ ملکوں میں ایسا ضرور دیکھا گیا لیکن مجموعی طور پر ویکسین کے خلاف شکوک و شبہات اور ہچکچاہٹ بہت کم دیکھی گئی۔ اس وَبائی مرض میں، دیگر معاملات کی طرح، صحت عامہ کے نظام کی کامیابی کا انحصار حکومت پر عوام کے اعتماد اور مشترکہ سماجی معاہدے پر ہے۔

چستی اور تیزی ہر چیز کو منفرد بنادیتی ہے

وبائی مرض نے ہر بار توقعات کے برخلاف پھر سے سر اُٹھایا ہے۔ اس پر ہمارا ردِعمل ہر بار نئی دستیاب معلومات کی روشنی میں سامنے آیا ہے۔ اس دوران، اُبھرتے ہوئے شواہد جیسے کہ ماسک لگانے کے فوائد، انفیکشن کے دوبارہ ہونے کا امکان، نئی اقسام کا خطرہ، وبائی مرض کے خلاف گزرتے وقت کے ساتھ مدافعتی قوت حاصل کرنے میں دشواری اور اضافی خوراک کے فوائد جیسے موضوعات پر پالیسی اور طرز عمل میں تبدیلیوں پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ 

ملکوں، کاروباری اداروں، اور دیگر شراکت داروں کو اس اُلجھن اور مایوسی   (جو بار بار تبدیلیوں کے باعث پیدا ہوسکتی ہے) کو دور کرنے کے لیے اپنے ردعمل کے منصوبوں میں نئے شواہد کو شامل کرنے کے فوائد میں توازن رکھنا ہوگا۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ چستی اور مضبوط ابلاغ نے کچھ کمپنیوں کو دیگر کے مقابلے میں زیادہ مؤثر طریقے سے بحران سے نمٹنے کی صلاحیت دی۔

کیا پھر ایسے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے؟

قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کے علاوہ، موجودہ وبائی بیماری نے عالمی معیشت کو ایک اندازے کے مطابق 16 ٹریلین ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے۔ ’’ یہ آخری وَبائی مرض نہیں‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی ایک بین الاقوامی تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فی کس 5 ڈالر کی نئی سرمایہ کاری عالمی سطح پر مستقبل کی ممکنہ وبائی بیماریوں کی نگرانی، ہمیشہ جاری رسپانس سسٹم، بیماریوں سے بچاؤ، ہسپتالوں کی تیاری اور ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے ذریعے عالمی برادری کو زیادہ مؤثر طریقے سے جواب دینے میں مدد دے سکتی ہے۔

پائیدار مستقبل کے لیے عالمی قیادت درکار ہے

وبائی مرض کے آغاز میں ابتدائی کم اخراج کے باوجود، عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے متعلق تشویش کم نہیں ہوئی ہے اور قریب قریب اتفاق رائے ہے کہ بڑی تبدیلیوں کے بغیر ماحولیاتی تباہی کا امکان ہے۔ عالمی دنیا سے اب ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف لڑنے کے لیے بھی اسی طرح کی قیادت کی توقع کی جاتی ہے، جیسے وبائی مرض کے خلاف لڑنے میں دنیا نے دِکھائی ہے۔ لوگوں کو اس بات کا ادراک نہیں کہ کرہ ارض کو بچانے کے لیے انھیں طرز زندگی کس طرح بدلنا ہے، اور اس تبدیلی کے لیے عالمی قائدانہ کردار کی ذمہ داری لینا سب سے بڑا چیلنج ہے۔

صحت سے مزید