• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

7اپریل کے تاریخی عدالتی فیصلے نے اس ستم رسیدہ قو م کو جو نئی امید اور خوشی دی، وہ بے مثال ہے حالانکہ اپنی دانست میں عدالتی فیصلہ اس کے علاوہ کوئی بنتا ہی نہیں تھا مگر سابقہ ادوار میں نظریہ ضرورت کے سانپ نے اس قوم کو جس قدر ڈسا، خدشات تھے کہ کہیں پھر حجت وحیلے بازی سے قوم کے ساتھ ہاتھ نہ ہوجائے۔

شکریہ ان کا بھی جنہوں نے اپنے لیے جانور کا طعنہ سن لیا لیکن نیوٹرل ہونے کا بھرم قائم رکھا۔ اے کاش! وہ آئین، پارلیمنٹ، جمہوریت اورقومی سیاست میں دراندازی کے حوالے سے ہمیشہ کیلیے نیوٹرل ہو جائیں اور اپنے لیے اس محکمانہ رول پراکتفا کریں جو آئین میں درج ہے۔آمریت محض وہ نہیں ہوتی جو بندوق والے لے کر آتے ہیں کئی ڈکٹیٹر حیلوں بہانوں سے بظاہر سویلین لبادے میں آتے ہیں مگر دماغ میں آمریت کا سودا سمایا ہوتا ہے۔

 اہل وطن میں سے درویش شاید پہلا شخص ہو گا جس نے ربع صدی قبل پہلی ملاقات میں ہی آمرانہ ذہنیت کو محسوس کر لیا تھا اور اس کوہٹلر اور نازی ازم سے تشبیہدی تھی۔

 اس کے باوجود آج بھی ایسے کئی کرم فرما موجود ہونگے جو اسے ویژنری لیڈر محسوس کرتے ہونگے اور طرح طرح کی توجیہات پیش کرتے ہوئے پائے جائیں گے کہ ان کے ممدوح کو تو کرشمہ دکھانے کا پورا موقع نہیں دیا گیا ورنہ اس نے تو ترقی و خوشحالی کا سونامی لے آنا تھا۔

پنجابی محاورہ ہے کہ دیگ میں سے چند ایک دانے ہی ملاحظہ کرنا کافی ہوتا ہے، پوری دیگ انڈیلنے کی ضرورت نہیں ہوتی ساڑھے تین یا پونے چار سال میں موصوف نے مظلوم قوم کی جو درگت بنائی، اس کے بعد کتنے اور دانوں کی پرکھ درکار تھی؟ پاکستانی معیشت کی جناب نے جیسی بربادی کی، کیا کوئی اِس سے انکار کر سکتا ہے۔

خدا کا شکر ہے کہ بالآخر خود ممبران پارلیمنٹ کی آنکھیں کھلیں، انہوں نے عوامی موڈ کو بھانپتے ہوئے اپنے ہاتھ کھڑے کر دیے کہ اگر انہی کے ساتھ رہے تو آئندہ الیکشن میں کس منہ کے ساتھ عوام میں جائیں گے، جب یہ حالت دیکھی تو فوری پینترا بدلتے ہوئے ایک ایسا نام نہاد خط لہرا دیا گیا جو موصوف کے تئیں عالمی سپر پاور امریکا نے انہیں دنیا میں اپنا سب سے بھاری دشمن سمجھتے ہوئے بھجوایا تھا۔ اپنے عوام کو آپ کتنا بھی کالانعام قرار دے لیں لیکن ان کی بھاری اکثریت نے سستی شہرت پر مبنی ایسے بودے نعرے کو درخور اعتنا نہ سمجھتے ہوئے مسترد کر دیا۔

یہ تھے وہ حالات جن میں پوری اپوزیشن اور ممبران پارلیمنٹ کو غیر ملکی سازش کے آلہ کار قرار دیتے ہوئے اپنے خلاف آنے والی تحریک عدم اعتماد کو اپنے متنازعہ سوری نامی ڈپٹی اسپیکر کے ذریعے مسترد کر دیا گیا اور ساتھ ہی صدر کے ذریعے مغربی جمہوریت کے نعرے جپنے والے نے، قومی اسمبلی ہی توڑ ڈالی جس گھڑی جمہوریت کشی کا یہ قدم اُٹھایا جا رہا تھا کیا انہیں یہ احساس و ادراک نہ تھا کہ وہ کھلی آئین شکنی کا ارتکاب کر رہے ہیں جس پر ان کے خلاف آئین کی دفعہ 6 بھی لگ سکتی ہے؟

تلخ سچائی یہ ہے کہ آمرانہ ذہنیت کے ایسے لوگ اپنے آپ کو حق اور اپنے مخالفین کو باطل خیال کرتے ہیں، رہ گئی قوم یا عوام کالانعام تو انہیں یہ لوگ بھیڑ بکریاں سمجھتے ہیں جن کا یہ پیدائشی فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے آقا یا لیڈر کی اناپرستی، مطلق العنانیت، جاہ و حشمت یا اقتدار پر جانوں کے نذرانے دیتے رہیں.

عین سیاسی گھمسان کے موقع پر دس لاکھ عوام کے ’’امر بالمعروف‘‘ نامی جلسے اسی سوچ کے غماز اور قربانی کیلئے تیاری کا اہتمام تھے یہ تو اکیسویں صدی کے عوام میں اتنی سوجھ بوجھ تھی کہ تمام تر ثمرات دنیوی اور ترغیبات اُخروی کے باوجود وہ اس مہم جوئی کا حصہ نہیں بنے۔

 تاریخ کا یہی سبق ہے جسے قوم کے باشعور طبقات کو ازبر کر لینا چاہیے۔ ہماری سپریم جوڈیشری نے معاملہ فہمی اور آئینی و قانونی آگہی کا آج یہ منظر نامہ پیش کیا ہے جس کی خوشی میں قوم یوم تشکر اور’’یومِ نجات‘‘منانے میں حق بجانب ہے اور درویش کی آرزو ہے کہ انسانی عظمت و حرمت اور حریتِ فکر کا یہ نور بصیرت اس خطہ ارضی میں ابدی طور پر رواں دواں ہو جائے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین