اسلام آباد (نمائندہ جنگ)قرضوں کی ادائیگی کی ایڈجسٹمنٹ سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ نے نیب اقدامات کوکالعدم قرار دیدیا، عدالت عظمیٰ نےʼʼ قرضوں کی ادائیگی کی ایڈجسٹمنٹʼʼ سے متعلق نیب کے ایک مقدمہ میں قراردیاہے کہ نیب آرڈیننس 1999کی دفعہ 31Dکے تحت گورنر سٹیٹ بنک کی جانب سے نیب کو پیشگی بھجوائے گئے ریفرنس کے بغیر نیب مالیاتی اداروں کے معاملات میں کسی بھی قسم کی کوئی تفتیش ،انکوائری یا کارروائی نہیں کرسکتا ، نیب کی جانب سے بنک قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ اور ری شیڈیولنگ جیسے معالات میں مداخلت سٹیٹ بنک کے اختیارات کو کمزور کرنے کے مترادف ہے ،نیب کے ایسے اقدامات سے مالی سیٹلمنٹ بے معنی ہو جاتی، بزنس کمیونٹی میں بداعتمادی پیدا ہوتی اور سٹیٹ بنک پر اعتماد پامال ہوتا ہے ،یہ بداعتمادی انتہائی خوفناک ثابت ہو سکتی اور اور ملکی معیشت کو کمزور کرنے کا موجب بن سکتی ہے جبکہ اس قدام سے آئین کے تحت شہریوں کو آزادی سے اپنی مرضی کا کاروبار کرنے کے بنیادی حق کی بھی پامالی کے مترادف ہوگی ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے سندھ ہائیکورٹ کے 9جولائی 2019کے ایک فیصلے کیخلاف دائر کی گئی متعدد اپیلوں کی سماعت مکمل ہونے کے بعد ان پر فیصلہ جاری کیا ہے جسے جسٹس منصور علی شاہ نے قلمبند کیا ہے ، اپیل گزاروںنے نیب آرڈیننس 1999کے تحت قائم کئے گئے ریفرنس سے متعلق سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیاتھا ، اپیل گزار اے این ایل نامی ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کے ڈائریکٹرز ہیں ،کمپنی نے مختلف مالیاتی اداروں سے قرضے لئے تھے ،تاہم ادائیگی نہ ہونے پر نادھندگی کی بناء پر 22مالیاتی اداروں کے ساتھ 10.5بلین روپے کے قرضوں کی ری سٹرکچرنگ کی گئی تھی جس میں نیشنل بنک نے اسی کمپنی کے ایک ذیلی ادارے کے حصص ،خرید کر انہیں ادائیگی میں ایڈجسٹ کیا تھا۔