کریملن کی طرف سے وائٹ ہاؤس کو ایک دھمکی آمیز مراسلہ ارسال کیا گیا ہے جس میں روس نے امریکا کو وارننگ دی ہے کہ وہ اس کے اتحادی یوکرین کو ہتھیار فراہم کرنا بند کردیں۔
روس کا کہنا ہے کہ یوکرین روس اور نیٹو سے ہتھیار لے کر جنگ کر رہا ہے۔ جس سے خطے میں بڑی تباہی پھیل سکتی اور بدترین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ نے اپنی حالیہ اشاعت میں لکھا ہے کہ یہ مراسلہ اس وقت لکھا گیا ہے جب امریکی صدر جوبائیڈن نے آٹھ ملین ڈالر کے جدید ہتھیاروں سمیت اقتصادی امداد کا پیکیج منظور کیا۔
درحقیقت روس کو تشویش ہے کہ امریکا نے مذکورہ پیکیج میں یوکرین کو جدید ڈیفنس میزائل سابق سوویت یونین دور کے تین سو راکٹ لانچر بھی یوکرین کو دینے کا اعلان کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ یوکرینی فوجی سابق سوویت یونین کے دور کا اسلحہ چلانا خوب جانتے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکی صدر نے یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ امریکا جلد سلواکیہ میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل سسٹم بھی نصب کرے گا، جس پر کام جاری ہے۔
اس اثناء میں امریکا نے یوکرین کو خبردار کیا ہے کہ روس جلد یوکرین کی مشرقی سرحد پر بڑا حملہ کرنے جا رہا ہے۔ مغربی یوکرین میں روسی فوجوں اور یوکرینی فوجوں کی شدید لڑائی کے بعد اس کی فوجیں مغربی سرحد پر پہنچ گئی ہیں۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ روسی فوجی یوکرین میں لڑتے ہوئے تھک چکے ہیں۔ ان کی توقع کے خلاف سخت جان یوکرینی فوجی اور رضا کار مقابلہ کر رہے ہیں۔ پانچ ہفتوں میں چار روسی جرنیل، ساڑھے تین ہزار سپاہی ہلاک ہو چکے ہیں اس کے علاوہ بڑی تعداد زخمی سپاہیوں کی ہے۔
ایسے میں روس کی جھلاہٹ واضح ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ روس کو طویل جنگ اور یوکرینیوں سے سخت مقابلہ کی توقع نہ تھی۔ درحقیقت روسی تھنک ٹینک یہ اندازہ نہیں کرسکے کہ گزرے تیس برسوں میں یوکرین کی نئی نسل نئے کھلے ماحول میں پرورش پاکر جوان ہوئی ہے اور میدان ِ عمل میں سرگرم ہے۔ ایسے میں وہ جان گئی ہے کہ اپنے وطن کادفاع کیوں ضروری ہے اوروطن کا دفاع کیسے کرنا چاہئے یہی وجہ ہے کہ مبصرین کہتے ہیں یوکرین کے شہری رضا کار اپنے فوجیوں کے ساتھ شانہ بشانہ جنگ کررہے ہیں۔ روس کے عسکری ماہرین نے جنگ شروع کرتے ہوئے اندازہ کیا تھا کہ یہ لڑائی تین چار دن میں ختم ہو جائے گی۔ یوکرین ہتھیار ڈال دے گا اور روس وہاں اپنی مرضی کی حکومت تشکیل دے کر واپس آجائے گا۔ مگر جنگ مسلسل طول پکڑتی جارہی ہے ۔ اس کو طول دینے میں امریکا اور نیٹو کابڑاہاتھ ہے ۔
روس یوکرین میں آباد روسی علیحدگی پسندوں کو ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ علیحدگی پسند روس کی ہر طرح مدد کر رہے ہیں۔ امریکا نے روس کو مشرقی یورپ میں زیادہ عرصہ مصروف رکھنے کا پروگرام بنا لیا ہے۔ بلکہ یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ پینٹاگون روس کو مشرقی یورپ میں گوریلا جنگ میں الجھا دینا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں نیٹو کا کرداراہم ہے۔ روس ان سازشوں کو سمجھ رہا ہے مگر روس کی غلطی یہ ہے کہ جنگ اس نے شروع کی تھی لہٰذا ختم بھی اس کو کرنا ہے۔
تاہم روسی اور یوکرینی سفارت کار بات چیت کے ذریعہ کوئی حل نکالنے کی کوششیں کر رہے ہیں مگر تاحال مذاکرات میں کوئی کامیابی نہیں ہو سکی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ روسی صدر ولادیمر پیوتن مشرقی یوکرین کی سرحد پر ایک علیحدہ ریاست بطور بفر زون قائم کرنا چاہتے ہیں۔ جہاں روسی بولنے والے آباد ہوں گے تاکہ روس کی مغربی سرحد جو یوکرین سے ملحق ہے محفوظ ہو جائے۔
مگر یوکرین کے عوام روس کے منصوبے کے شدید مخالف ہیں وہ پہلے ہی روس کے خلاف شدید غم و غصہ کا اظہار کرچکے ہیں اور 2014ء میں بڑی قربانیاں دے چکے ہیں جب روس نے آبنائے کریما پر قبضہ کر لیا تھا۔ یوکرین اب اپنی ایک انچ زمین بھی روس کو دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یوکرینی عوام روس سے سردھڑ کی بازی لگا کر لڑ رہے ہیں۔ تاہم روس پر مغرب کی طرف سے بہت سی اقتصادی اور سماجی پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں ایسے میں روس کے پاس قدرتی گیس اور تیل کی فروخت اہم ذریعہ ہے مگر اس پر بھی پابندیاں عائد ہیں۔
ہرچند کہ بعض یورپی ممالک اب بھی روس کے قدرتی گیس کے سودے کر رہے ہیں حالانکہ امریکا نے ان ممالک کو خبردار کردیا ہے۔ ایسا ہی مسئلہ بھارت کے ساتھ چلا آرہا ہے۔ بھارت بڑے پیمانے پر روس سے تیل خرید رہا ہے دوسری طرف امریکا اس کوخبردار کرچکا ہے۔ پھر پینٹاگون نے بھی بھارت سے کہا کہ یا تو وہ روس کے ساتھ کھڑا رہے یا امریکا کے ساتھ بیک وقت دو کشتیوں میں سفر ممکن نہیں ہے۔
اس حوالے سے امریکا اور بھارت کے مابین کسی حد تک کشیدگی ضرور پائی جاتی ہے مگر بھارت کا مؤقف ہے کہ روس سے پرانے تعلقات رہے ہیں پھر روس بڑا ڈسکائونٹ بھی دے رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں بھارت نے امریکا پر واضح کر دیا ہے کہ وہ روس کے ساتھ اپنے تعلقات برقرار رکھے گا۔ مگرحقیقت یہ ہے کہ اس خطے میں بھارت امریکا کے لئے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ جہاں تک روس کی امریکا کو وارننگ ہے کہ یوکرین کو ہتھیار فراہم نہ کریں تاہم اس ضمن میں خطے میں ہونے والی تباہی کا ذمہ دار امریکا ہو گا۔
ایسے میں یورپی مبصرین سوال اٹھاتے ہیں کہ جو تباہی روس پھیلا رہاہے اور پانچ ہفتوں سے زائد عرصہ سے جنگ وجدل جاری ہے تو کیا روس اس کی ذمہ داری قبول کرتا ہے؟
مبصرین کے نزدیک یہ محض روسی صدر پیوتن کی ضد اور ان کا مسئلہ ہے وہ روس کو ایک بار پھر سپر پاور اور عالمی سیاست کا اہم رکن تسلیم کرانا چاہتے ہیں۔ دراصل یہ دو بڑی طاقتوں کی پرانی اور کینہ رقابتوں کا ثمر ہے جو یہ پراکسی وار لڑ رہے ہیں۔ روسی صدر پیوتن ایک مختلف نظریہ اور انداز فکر کی مالک شخصیت ہیں۔ وہ جمہوریت، جمہوری عمل پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔ مطلق العنان حکمران ایساہی سوچتے ہیں مگر یوکرین کی نئی نسل ان کے نظریہ سے مکمل اختلاف رکھتی ہے۔
یوکرین کی نئی نسل اپنے ملک سے غربت ناداری اور مایوسی دور کرنے کی خواہاں ہے وہ روسی نظریہ اور صدر پیوتن کے انداز فکر سے بالکل الگ سوچ رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اتنی تباہی بربادی کے بعد بھی یوکرینی عوام کے حوصلے بلند ہیں۔ مشرقی یورپ کی بیشتر ریاستیں یوکرین کے مؤقف کی حمایت کرتی ہیں۔ مغربی یورپی ممالک کی قطعی اکثریت یوکرین کی حمایت کرتی ہے۔ روس اس وقت تنہا ہوتا جا رہا ہے ۔ سچ یہ ہے کہ روس نے بے وقت بیکار جنگ چھیڑی ہے۔ پینٹاگون کے ترجمان جان کربی اس امر کی تصدیق کرچکے ہیں کہ امریکا نے تاحال 3.2ملین ڈالر کی فوجی اور اقتصادی امداد یوکرین کودے چکا اور مزید پیکیج کی تیاری ہو رہی ہے۔
بہتر ہو تاکہ روس اس مسئلے پر جنگ کرنے کے بجائے مذاکرات کرلیتا اور یوکرین کو کسی نکتے پر قائل کرلیتا تو یہ تباہی نہیں ہوتی اور اتنی قیمتیں جانیں ضائع نہ جاتیں مگر اس کے باوجود تباہی کا عمل جاری ہے اور اب کوئی نہیں کہہ سکتا کہ روس یوکرین وار کہاں جاکر رکے گی۔ روس اس جنگ کو اب ایک رُخ دے کر ختم کرنے کا خواہش مند نظرآتا ہے مگر لگتاہے امریکا اس جنگ کو مزید طول دینے کی پالیسی پرگامزن ہے کیونکہ جس طرح یوکرین کو قسطوں میں امداد امریکا اور نیٹو ممالک کی طرف سے فراہمی کی جا رہی ہے اس سے ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔
روس نے جس طرح سفاکی سے یوکرین پر حملہ کیا اپنی بحری اور ہوائی طاقت بھی استعمال کی جس کے نتیجے میں یوکرین میں بڑی تباہی ہوئی املاک اور جانی نقصانات ہوئے جو واقعی تباہ کن ہیں۔ ایسے میں روس پر پابندیاں بھی بہت لگ چکی ہیں مگر روس کو اپنی ساکھ بچا کر نکلنے کا راستہ بھی نہیں مل رہا ہے۔ ہر چند کہ روسی صدرپیوتن نے اپنے صلاح کاروں کو یہ فوری ٹاسک دیا ہے کہ روسی پابندیوں کے بدل میں کیاکچھ کر سکتا ہے۔
اس حوالے سے روس نے ڈالر کی بدل میں روبل میں فروخت شروع کردی۔ یورپی ممالک جو روس سے گیس خریدتے ہیں وہ اب روبل میں ادائیگی کریں گے۔ دوسری طرف روسی صدر نے بھارت کو روپیہ میں ادائیگی کی بھی سہولت دیدی تاکہ روپیہ سے وہ بھارتی سامان خرید سکے۔ امریکا کو اس پر سخت تشویش ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکا نے ایک بار پھر بھارت کو کہا ہے کہ وہ روس سے فوری لین دین بند کردے۔
سچ یہ ہے کہ بھارت کی مجبوری ہے کہ وہ روس سے قطع تعلق نہیں کرسکتا جبکہ امریکا کی بھی یہ مجبوری ہے کہ وہ بھارت کے خلاف سخت کارروائی نہیں کر سکتا۔ یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ آج کی عالمی سیاست کامحور معیشت ہے اور تجارت ازخود معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کے مترادف ہے ایسے میں آج کی دنیا ایک دوسرے پر انحصار کرکے کاروبار مملکت چلا رہی ہے۔ ڈبلیو ٹی او کے قیام کے بعد سے کھلی منڈی کی معیشت کو زیادہ فروغ حاصل ہوا۔ چین نے اس سے سب سے زیادہ فائدہ حاصل کیا۔
امریکا کو یہ فکر لاحق ہے کہ اگر بھارت اور چین میں قریبی تعلقات قائم ہوں گے تو وہ بھارت کے محور سے آزاد ہو جائے گا، مگر فی الفور ایسا کوئی اشارہ نہیں کہ چین اور بھارت سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر قریب آسکتے ہیں۔ باوجود اس کے یہ حقیقت ہے کہ بھارت ہر سال چین سے ایک سو بیس بلین ڈالر کی تجارت کرتا ہے۔ اس لئے وہ چین سے مزید بگاڑ کا خواہاں نہیں مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ ان دونوں ممالک کے مابین لداخ اور تبت میں محاذ گرم ہیں۔ تاہم روسی صدر کی دھمکی کے حوالے سے امریکا کے پینٹاگون کے صلاح کار اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنس نے میڈیا کو بتایا کہ روس نے اپنی خجالت مٹانے کے لئے یوکرین کے شہریوں کا قتل عام کیا نہتے شہریوں کو بمباری، راکٹوں اورگولیوں کا نشانہ بنایا۔
روس کے یہ تمام اقدام دنیا کے سامنے ہیں جو جنگی جرائم ہیں۔ سوئیڈن، فن لینڈ جیسے پرامن ملکوں کو بھی روس دھمکانے پراُتر آیا ہے۔ سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنس نے مزید کہاکہ روسی فوجوں کو دارالخلافہ کیف پرقبضہ حاصل کرنے میں بری ناکامی ہوئی ہے۔انہوں نے کہا امریکا کو روسی صدر پیوتن کی دھمکی کو ہلکا نہیں لینا چاہئے۔ کیونکہ روسی صدر کے خلاف روس کے شہروں میں ہونے والے مظاہروں اور یوکرین کی جنگ میں یوکرینی فوجیوں اور شہری رضا کاروں کی دلیرانہ کارروائیوں سے روسی صدر پیوتن شدید اعصابی دباؤ میں ہیں اور ایسے میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
ولیم برنس کا کہنا تھا کہ امریکا تمام صورتحال کا بغور جائزہ لے رہا ہے۔ روس کے معاملات کے علاوہ امریکا چین کے جاری حالات پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے کیونکہ چینی صدر کے گزشتہ اور حالیہ بیانات سے بالکل عیاں ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ ان کا کہنا ہے امریکا ان دھمکیوں سے خائف نہیں ہوسکتا۔