انصاف وہ ہوتا ہے، جونظر آئے، لیکن بدقسمتی سے75 برس بعد بھی ہمارے معاشرے میں امیر اور غریب کے لیے انصاف کے معیارات الگ ہیں،بااثرافراد کا معاملہ ہو، تو پُوری ریاستی مشینری انصاف فراہم کی فراہمی یقینی بنانے میں جت جاتی ہے، لیکن غریب اور لاچار شہریوں کے لیے یہ انصاف کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ کراچی کے علاقے ملیر میں بااثر افراد کی جانب صرف ایک ویڈیو بنانے پر نوجوان کی جان لے گئی۔ یاد رہے تلور کے شکار سے روکنے اور غیرقانونی شکار پر آئے لوگوں کی ویڈیو بنا کر وائرل کرنے پر نوجوان ناظم جوکھیو کو گزشتہ برس قتل کر دیا گیا تھا۔
مقتول کے بھائی افضل جوکھیو نےا لزام عائد کیا تھا کہ میرے بھائی ناظم جوکھیو کو رُکن صوبائی اسمبلی جام اویس نےقتل کیا۔ مقتول کے بھائی کے مطابق ناظم نے غیر ملکیوں کو گاؤں میں شکار سے روکا اور ویڈیو بنا لی، جس کے بعد سردارجام عبدالکریم نےبھائی کو جام ہاوس لانےکا حکم دیا۔ ناظم کے بھائی نے بتایا تھا کہ جب کچھ دیر بعد میں جام ہاؤس گیا ، تو بتایا گیا کہ تمہارا بھائی مرگیا ہے۔ پولیس اور اعلیٰ حکام کی جانب سے پہلے پہل معاملے کو دبانے کی کوشش کی گئی۔
تاہم سوشل میڈیا پر ’’جسٹس فار ناظم ‘‘ کا ٹرینڈ بننے اور اس کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد مجبوراً پولیس کو مقتول کے بھائی افضل جوکھیو کی مدعیت میں مقدمہ درج کرنا پڑا۔ تاہم اس کے بعد بھی دو روز تک پولیس انتظار کرتی رہی اور اس کے بعد رُکن صوبائی اسمبلی جام اویس نے خود پولیس کو گرفتاری دی، جس کے بعد 5 نومبر کو ان کا تین روزہ ریمانڈ لیا گیا اور بعد ازاں انہیں جیل میں بھی اعلیٰ سہولیات دی گئیں۔ پولیس نے ایم این اے جام عبدالکریم سمیت 16 افراد کو واقعہ میں نامزد کیا تھا۔ واقعہ کی تفتیش کے لیے پہلے 8 رکنی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنائی گئی تھی۔
تاہم بعد ازاں مقتول کے بھائی کی جانب سے ٹیم پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا تھا، جس کے 17 نومبر کو ایک نئی ٹیم بنائی گئی تھی۔8 فروری کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے کیس کے تفتیشی افسر کو حتمی چالان جمع کروانے کا حکم دیا،2 مارچ کو ناظم جوکھیو کی بیوہ نے سندھ ہائی کورٹ میں کیس دائر کیا، جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ پراسیکیوشن کی جانب سے حتمی چالان جمع کروانے میں تاخیر کی جا رہی ہے۔30 مارچ 2022 کو اچانک ناظم جوکھیو کی بیوہ کا ایک ویڈیو بیان سامنے آیا، جس میں انہوں نے مرکزی ملزمان جام اویس اور جام عبدالکریم کو معاف کردیا۔
ویڈیو بیان میں ناظم جوکھیو کی بیوہ شیریں جوکھیو نے کہا کہ میں بہت مجبور ہوں، میرے گھر والوں نے میرا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ اپنے بچوں کی خاطر میں نے سب ملزمان کو چھوڑ دیا۔شیریں جوکھیو نے کہا ہے کہ میں نے فیصلہ اللہ تعالی پر چھوڑا ہے،جنہوں نے میرا ساتھ دیا، میں ان کی شکر گزار ہوں اور اس ویڈیو کے ذریعے سب کو بتانا چاہتی ہوں کہ میں مزید نہیں لڑسکتی۔ناظم جوکھیو قتل کیس میں وکلا نے عدالت کو بتایا کہ معافی نامہ اور معاہدہ جلد عدالت میں پیش کر دیں گے، جس کے بعد ناظم جوکھیو کی اہلیہ شیرین جوکھیو نے حلف نامہ سندھ ہائیکورٹ میں جمع کروایا۔
شیرین جوکھیو نے جمع کرائے گئے حلف نامے میں کہا ہے کہ میرے شوہر کے قتل کا واقعہ اللہ کی رضا سے ہوا ہے۔ مجھے میرے شوہر کے قتل سے متعلق گمراہ کن معلومات دی گئی۔ رُکن قومی اسمبلی جام کریم ان کے بھائی ایم پی اے جام اویس و دیگر میرے میاں کے قتل میں ملوث نہیں ہیں۔ دیگر ملزمان میں جمال، واحد، عبد الرزاق، محمد خان، محمد اسحاق، محمد خان، محمد سلیم، دودو خان اور محمد سومور کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ مذکورہ 11 ملزمان سے متعلق مجھے غلط معلومات دی گئی تھیں۔ ان ملزمان کے نام، ناظم جوکھیو قتل کیس سے نکالنے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ میرے شوہر کے قتل میں مذکورہ 3 ملزمان شامل ہیں۔
میرے شوہر کے قتل میں معراج، حیدر علی، نیاز سالار ملوث ہیں۔ میرے شوہر کا قتل نیاز سالار سے جھگڑے کے نتیجے میں ہوا۔ میرے شوہر کا قتل اللہ کی مرضی تھی۔ ابتدا میں قتل سے متعلق مجھے غلط معلومات دی گئی تھیں۔ تحقیق سے پتہ چلا قتل میں کریم جوکھیو اور ساتھیوں کا کردار نہیں تھا۔ اب میرا عبد الکریم جوکھیو کے خلاف کوئی دعویٰ نہیں۔ میں قتل کے مقدمے سے دستبردار ہوتی ہیں۔بعد ازاں محکمہ داخلا سندھ کی جانب سے آئی جی سندھ کو ایک خط لکھا گیا، جس میں کیس کے تفتیشی افسر کو تبدیل کرتے ہوئے کہا گیا کہ کسی قابل تفتیشی افسر کو مقرر کیا جائے۔
خط پراسیکیوٹر جنرل سندھ کی تجویز پر لکھا گیا ہے، پراسکیوٹر جنرل سندھ کے مطابق موجودہ تفتیشی افسر نااہل ہے اور تفتیشی افسر نے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔ تفتیشی افسر پراسیکیوٹر کے بغیر انسداد ہشت گردی عدالت میں پیش ہوئے جس کی وجہ سے حکومت کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم سندھ پولیس کی جانب سے تفتیشی افسر کو تبدیل نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔پولیس ذرائع کا کہنا تھا کہ کیس کا تفتیشی افسر مدعی اور مقتول کے اہل خانہ کے اصرار پر بنایا گیا تھا اور وہ اس سے مطمئن ہیں۔
اس لیے کیس کے اسی تفتیشی افسر کو رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔13 اپریل کو کراچی انسداد دہشت گردی منتظم عدالت میں ناظم جوکھیو قتل کیس کے تفتیشی افسر کی جانب سے کیس کا چالان پیش کردیا گیا۔ چالان سے جام کریم ،جام اویس سمیت 13 ملزمان کے نام خارج کیے گئے۔ دیگر ملزمان جن کے نام خارج کیے گئے ہیں ، ان میں محمد سلیم، محمد دو دو خان،محمد سومار، عبد الرزاق ،جمال، محمد معراج ،محمد خان ،محمد اسحاق، احمد خان، عطا محمد اور محمد زاہد شامل تھے۔
کیس میں ایک ملزم نیاز کو مفرور قرار دیا گیا، چالان کے متن کے مطابق کیس میں دو ملزمان حیدرعلی اور میر علی گرفتار ہیں، چالان کے ساتھ مقتول کی پوسٹ مارٹم رپورٹ، پنجاب فرانزک لیب کی رپورٹ،ڈی وی آر ،مقتول کا جلا ہوا موبائل فون سمیت دیگر اشیاء شامل ہیں، کیس میں استغاثہ کے 31 گواہان کے نام شامل تھے۔14 اپریل کو انسداد دہشت گردی عدالت میں ناظم جوکھیو قتل کیس میں پولیس چالان سے ایم این اے جام عبدالکریم اور جام اویس کے نام نکالے جانے کے حوالے سے ناظم جوکھیو کے دوست اور استغاثہ کے گواہ مظہر جوکھیو ایڈووکیٹ نے سرکاری وکیل کی معاونت کے لیے درخواست دائر کی۔
انسداد دہشت گردی عدالت میں دائر کی گئی، جس میں کہا گیا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر نے مقدمہ انسداد دہشت گردی عدالت منتقل کرنے کا حُکم دیا تھا،عدالت نے پولیس کو چالان انسداد دہشت گردی عدالت منتقل کرنے کا حُکم دیا تھا، عدالتی حکم میں کہیں ازسرنو تفتیش کا حکم نہیں تھا، تفتیشی افسر نے ازخود دوبارہ تفتیش کرکے نئے زاویے سے نیا چالان ترتیب دیا۔ تفتیشی افسر نے اثرورسوخ رکھنے والے ملزمان کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی ہے۔انسداد دہشت گردی عدالت منتقل ہونے کے بعد مقدمے میں کمپرومائز نہیں ہوسکتا۔ تفتیشی افسر کی جانب سے ملزمان کے نام نکالنا غیر قانونی عمل ہے۔
مجسٹریٹ کے روبرو پیش کیے گئے چالان کے مطابق مقدمہ چلایا جائے۔15 اپریل کو انسداد دہشت گردی عدالت جیل کمپلیکس نے ناظم جوکھیو قتل کیس میں پولیس کی جانب سے جمع کروائے گیے چالان پر فریقین کو نوٹس جاری کیے۔ انسداد دہشت گردی عدالت میں ناظم جوکھیو قتل کیس میں پولیس چالان سے متعلق سماعت ہوئی۔
عدالت نے تفتیشی افسر کی جانب سے جمع کروائے گیے چالان پر فریقین کو نوٹس جاری کیے، نوٹس تفتیشی افسر، مدعی مقدمہ اور ملزمان کو جاری کیے گئے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ آئندہ سماعت پر فریقین کے وکلاء پولیس کی جانب سے پیش کیے گئے چالان پر دلائل دیں، عدالت نے نیشنل کمیشن فار ہیومین رائٹس کی جانب سے کیس میں فریق بنانے کی درخواست پر نوٹس جاری کیے۔
گو کہ پولیس کا کہنا ہے کہ مدعی کی جانب سے ملزمان کو معاف کرنے کے بعد ان کا نام چالان سے خارج کیا گیا ہے۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس پر خدشات کا اظہار کیا ہے، ہمارے معاشرے میں قصاص اور دیت کے قانون کو بھی ’’دبائو اور لالچ ‘‘ کے ذریعے استعمال کیا جاتا ہے۔ سابق وزیر اعظم پاکستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لیے ووٹ ڈالنے دبئی سے آنے والے کیس کے نامزد ملزم اور رُکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم کا وطن واپسی پر پرتپاق استقبال کیا گیا اور ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل کی جانب سے انھیں اجرک بھی پہنائی گئی، اس پر بھی کئی سوالات نے جنم لیا۔
19 اپریل کو ناظم جوکھیو کے قاتلوں کی عدم گرفتاری کے خلاف سول سوسائٹی اور مختلف سماجی تنظیموں نے کراچی پریس کلب پر احتجاج کیا۔ مظاہرین نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، جن پر قاتلوں کی گرفتاری کے مطالبات درج تھے۔ اس موقع پر نعرے بازی بھی کی گئی۔ قاتلوں کو گرفتار نہ کرنے اور کیس کو مبینہ طور پر مسلسل کمزور کرنے کے خلاف سول سوسائٹی اور مختلف سماجی اداروں کی جانب سے کراچی پریس کلب پر احتجاج کیا گیا۔ پائلر کے سربراہ کرامت علی نے مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہم سب کے لیے ایک امتحان ہے۔ ناظم کی اہلیہ آج سے میری بیٹی ہے۔ میں اس کے ساتھ ہوں۔ سندھ حکومت کو شرم کرنی چاہیے۔
پولیس کے لوگ بھی اس میں ملوث ہیں۔ آج ان لوگوں کو میری وارنگ ہے کہ ناظم کے انصاف میں ہمارے درمیان نہ آئیں ۔جبران ناصر نے کہا کہ ناظم جوکھیو کے اہل خانہ کو انصاف ملنے تک احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ویمن ایکشن فورم کی عظمی علی نے کہا کہ ہم شروع سے شرین جوکیو کے ساتھ ہیں۔ ہم نے وکیل کے ساتھ ملاقات کی اور شروع سے ہر وقت رابطہ کیا جو ہوا ہے۔ سندھ حکومت نے جو نا انصافی کی ہے، اس کی امید نہیں تھی، ان کی اہلیہ پیچھے کیوں ہٹی ہر شخص جانتا ہے، ہم سول سوسائٹی کا فرض ہے ناظم کی اواز بنے۔ شیما کرمانی نے کہا کہ اس ملک میں انصاف نہیں ملتا۔ مجرم آزاد گھومتے ہیں اور طاقت چلتی ہے۔
ان کا مذید کہنا تھا کہ ہمارا ایک ہی مطالبہ ہے کہ مجرم کو سزا دی جائے۔اس کیس میں بھی قانون بظاہر بااثر افراد کے ساتھ ہی کھڑا نظر آتا ہے، گوکہ ملزمان کا کہنا ہے کہ مقتول کی بیوہ کی جانب سے انھیں معاف کرنے کے بعد ہی ان کا نام کیس سے خارج کیا گیا ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ ایسا کسی غریب شہری کے ساتھ کیوں نہیں ہوتا اور ہمیشہ بااثر افراد ہی کو کیوں اس کا فائدہ ہوتا ہے ۔