• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماضی میں پاکستان میں اچھے دور بھی گزرے ہیں تو برے دور بھی،مگر یہ برے دور اس وجہ سے برے کہے جاتے تھے کہ کچھ ایسے واقعات ہوئے تھے جن کو کسی طور پر بھی اچھانہیں کہا جاسکتا مگر یہ دور ایسے برے نہیں تھے کہ لوگ اس دور سے نفرت کرتے۔ اسی طرح پاکستان میں اچھے سیاستدان اور اچھے حکمران بھی گزرے ہیں تو برے سیاستدان اور برے حکمران بھی۔بلکہ اکثر ملکوں میں یہ ہوتا رہا ہے۔ مگر گزشتہ تین چار سال میں ایسا برا دور آیا کہ لوگ اس دور کے حکمرانوں سے نفرت کرنے لگے ہیں‘ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی مختلف ادوار میں ایسے حکمران آئے جو عوام اور اپنے مخالف سیاستدانوں کے بارے میں اچھی زبان استعمال نہیں کرتے تھے مگر پی ٹی آئی دور میں تو ساری اخلاقی حدوں کو عبور کر لیا گیا‘ ہمارے ان حکمرانوں نے پہلے تو خاص طور پر اپنے مخالف سیاستدانوں کے خلاف گالم گلوچ کی زبان استعمال کی مگر اب بات اتنی آگے بڑھا دی گئی کہ لوگ اپنے مخالفین کے خلاف غنڈہ گردی کرنے پر اتر آئے ہیں۔

سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ سب سے پہلے گالم گلوچ کی زبان اس دور کے حکمران نے خود استعمال کی۔یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ یہ صاحب سعودی عرب کے دورے پر گئے تو انہوں نے وہاں پاکستانیوں سے خطاب کیا جس میں بار بار اپنے مخالف سیاستدانوں کو ’’چور اور ڈاکو‘‘ کہا۔ اس مرحلے پر انہوں نے جو تقریر کی وہ اب بھی ریکارڈ پر ہوگی‘ اس تقریر میں انہوں نے 30 سے 40 بار اپنے مخالفین کو چور ڈاکو کہا۔جب وہ امریکہ کے دورے پر گئے وہاں بھی انہوں نے پاکستانیوں کے اجتماع سے خطاب میں مخالف سیاستدانوں کو ’’چور اور ڈاکو‘‘ کہہ کر ان کا ذکر کیا۔ اسی طرح کچھ دیگر ممالک کے دوروں پر گئے تو وہاں بھی وہ اجتماعات سے خطاب میں اپنے مخالفوں کو چور ڈاکو کہتے رہے، اوران پر مختلف الزامات عائد کرتے رہے۔ انہوں نے اپنے دور میں ایک اور کارنامہ سر انجام دیاکہ اپنی انتہائی بڑی کابینہ میں وفاقی وزیروں کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ تقریباً 10 سے 12 ترجمان مقرر کئے جن کا فرض یہ ہوتا تھا کہ ہر ایک دو روز کے بعد ان میں سے کوئی نہ کوئی اخباری بیان جاری کرکے یا پریس کانفرنس کرکے اپوزیشن کے سیاستدانوں پر الزامات عائد کرنے کے ساتھ ان کو چور اور ڈاکو کہہ کر انہیں غلیظ گالیاں تک دیتا۔ ان میں سے ایک جو وفاقی وزیر تھے اور پارٹی کے دیگر رہنمائوں کی طرح حکومت سے الگ ہوچکے ہیں انہوں نے منگل کو ایک بیان جاری کیا جو ملک کے اکثر بڑے اخباروں میں شہ سرخی کے ساتھ شائع ہوا‘ یہ کوئی اور نہیں سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری ہیں‘ انہوں نے اپنے بیان میں چند دن پہلے وجود میں آنے والی وفاقی کابینہ پر انتہائی غیر مہذب انداز میں تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس کابینہ میں سارے بڑے بڑے ڈاکو شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ان وفاقی وزیروں کا مزید مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ کابینہ کا نام سینٹرل جیل کا حاضری رجسٹر لگتا ہے۔ کابینہ چوں چوں کا مربہ ہے۔ اس سلسلے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ترجمانوں میں سے ایک ترجمان چھپ چھپا کر ملک سے باہر بھاگ گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس کابینہ میں شامل کئی ترجمان اور وفاقی وزیر ملک سے باہر بھاگنے کی تیاریاں کررہے ہیں۔

جب عدالت کے حکم پر قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا تھاکہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوسکے۔ حالانکہ تین چار بار اس دن قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا اور تحریک عدم اعتماد کے لیے ممبران کی اکثریت قومی اسمبلی میں موجود تھی مگر اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر نے اجلاس کی صدارت کرنے اورووٹنگ کرانے سے انکار کردیا۔ اس دن قومی اسمبلی کی کارروائی سپریم کورٹ کی ہدایت کے تحت ہورہی تھی جب تین چار بار اسمبلی اجلاس ملتوی ہوتا رہا تو پاکستان کے چیف جسٹس نےرات میں عدالت کھولنے کا حکم دیا جس پر قومی اسمبلی کا اجلاس اس رات بارہ بجے سے پہلے اسپیکر کوآخر کار طلب کرنا ہی پڑا جس میں انہوں نے استعفیٰ دے کر اپنی ذمہ داری ایاز صادق کے سپرد کردی۔انہوں نے ہدایات جاری کیں کہ سارے منتخب ایم این ایز 12 بجے سے پہلے قومی اسمبلی کے اجلاس میں آجائیں تو تحریک عدم اعتماد منعقد ہو۔ ان ہدایات کے تحت اس رات بارہ بجے قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں ممبران کی اکثریت موجود تھی اس طرح اسمبلی میں موجود ممبران نے عدم اعتماد میں حصہ لیا۔ اسمبلی کے اسپیکر‘ ڈپٹی اسپیکر اور سابق وزیر اعظم کی اس بات پر سخت تنقید کی گئی بجائے اس کے کہ سابق وزیر اعظم اپنی حرکت پر پشیمانی کا اظہار کرتے انہوں نے الٹا پاکستان کے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے باقی ججوں پر سخت تنقید کی جبکہ ملک بھر سے لوگ پاکستان کے چیف جسٹس و دیگر ججوں کے اس فیصلے کی زبردست تعریف کرتے رہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین