• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مارچ میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی برطانوی معیشت سکڑ گئی

لندن (پی اے) قومی دفتر شماریات کے مطابق مارچ میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی برطانوی معیشت سکڑ گئی، لوگوں نے خرچ کرنا کم کردیا۔ رپورٹ کے مطابق فروری کے دوران معیشت میں کوئی گروتھ نہیں ہوئی جبکہ مارچ میں 0.1 کمی ہوئی۔ قومی شماریات دفتر کے ڈائریکٹر اکنامک شماریات کا کہنا ہے کہ اب لوگ دکانوں پر کم خریداری کررہے ہیں، فیول کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے کار میں سفر کرنا کم کردیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس سال کی ابتدائی سہہ ماہی کے دوران معیشت میں صرف 0.8 فیصد اضافہ ہوا اور یہ اضافہ ہاسپٹلیٹی اور ائر انڈسٹری کی بحالی کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ بینک آف انگلینڈ نے کہا ہے کہ برطانیہ کو معیشت میں تیزی کے ساتھ سست روی کا سامنا ہے جبکہ قیمتوں میں 30 سال کے مقابلے میں سب سے زیادہ تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ بینک نے پیش گوئی کی ہے کہ موجودہ صورت حال کے پیش نظر افراط زرکی شرح اس سال کے آخر تک 10 فیصد تک ہوسکتی ہے۔ مورگن نے بتایا کہ مارچ میں لوگوں کی جانب سے غیر ضروری مہنگی چیزوں کی خریداری نہ کئے جانے کے سبب ریٹیل سیکٹر میں توقع سے زیادہ کمی آئی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ فیول کی فروخت میں بھی نمایاں کمی ہوئی ہے کیونکہ لوگوں نے کار پر سفر کرنا کم کردیا ہے۔ دوسری صنعتیں بھی اپنی بقا کی جنگ لڑرہی ہیں۔ مارچ،اشیائےصرف/معیشت سکڑگئی موٹر مینوفیکچررز اور ٹریڈرز سوسائٹی کا کہنا ہے کہ 1998ء کے بعد مارچ کا مہینہ کاروں کی فروخت کے اعتبار سے سب سے کمزور مہینہ ثابت ہوا۔ دوسری جانب کار تیار کرنے والوں کو سپلائی چین کے مسائل بھی درپیش ہیں۔ مورگن نے کہا کہ قومی شماریات دفتر نے 40,000تجارتی اداروں اور دکانوں کا سروے کرایا، جس سے ظاہر ہوا کہ 50 فیصد کو اشیا کی ہول سیل قیمتوں میں اضافہ کا تجربہ ہوا ہے لیکن 50 فیصد سے بھی کم دکاندار اس اضافے کو خریداروں کو منتقل کررہے ہیں، بہت سے دکانداروں کو توقع ہے کہ اشیا کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ انھیں سب سے زیادہ پریشانی انرجی کی قیمتوں پر ہے۔ چانسلر رشی سوناک کا کہنا ہے کہ وہ مزید اقدام کرنے کو تیار ہیں لیکن اخراجات زندگی میں اضافے کو روکنے کیلئے مزید اقدامات کا وعدہ نہیں کرسکتے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ برطانیہ کی معیشت نمو پزیر ہے اور دوسرے ملکوں کے مقابلے میں گزشتہ تین مہینوں کے دوران بھی معیشت میں تیزی سے ترقی ہوئی ہے۔ انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ اگلے مہینوں کے دوران کساد بازاری کا امکان ہے یا نہیں لیکن یہ اعتراف کیا کہ یوکرین کی جنگ کی وجہ سے عالمی معیشت کو افراط زر کے دبائو کا سامنا ہے۔ جی ڈی پی کے تازہ ترین اعدادوشمار سے ایک دفعہ پھر ونڈ فال ٹیکس کی ضرورت کا اظہار کیا جا رہا ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ تیل اور گیس کی بڑی کمپنیوں کو اخراجات زندگی میں اضافے سے نمٹنے میں مدد کرنی چاہئے لیکن حکومت تیل اور گیس کی صنعتوں اور گرین ٹیکنالوجیز میں سرمایہ کاری رک جانے کے خوف سے ایسا نہیں کرنا چاہتی۔رشی سوناک نے اعتراف کیا کہ انرجی کی بڑی کمپنیاں بھاری منافع کما رہی ہیں لیکن کہا کہ وہ ونڈفال ٹیکس کے حق میں نہیں، یہ کمپنیاں برطانیہ ہی میں سرمایہ کاری کریں گی لیکن اگر انھوں نے ایسا نہ کیا تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ لیبر پارٹی کی مساوات سے متعلق شیڈو وزیر لیز نینڈی کا کہنا ہے کہ لوگوں کی رقم ان کی جیب میں واپس لانے کیلئے ونڈفال ٹیکس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ دکانیں سامان سے بھری ہوئی ہیں، لوگوں کے پاس خریداری کرنے کیلئے پیسے نہیں ہیں، دکاندار اپنی بقا کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ انھوں نے لوگوں کو اخراجات زندگی میں مدد دینے کیلئے فوری طورپر ایمرجنسی بجٹ کا اعلان کرنے کا مطالبہ کیا۔

یورپ سے سے مزید