اسلام آباد (حنیف خالد) پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے سہ نکاتی فارمولا پیش کر دیا ہے۔ اس فارمولے پر عملدرآمد کا فیصلہ آئندہ 48گھنٹوں میں وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز خصوصی کمیٹی کی رپورٹ لیکر کرینگے۔
پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن کے بارہ رکنی وفد نے اپنے مرکزی چیئرمین محمد ذکاء اشرف چوہدری کی قیادت میں حکومت پنجاب کی خصوصی شوگر کمیٹی کے وفد سے تین اہم ملاقاتیں کی ہیں جس میں حکومتی ٹیم نے شوگر انڈسٹری کے وفد کو 70روپے کلو چینی حکومت کو فراہم کرنے کی ہدایت کی مگر پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے مرکزی چیئرمین چوہدری ذکاء اشرف‘ انکے بارہ رکنی وفد میں شامل بارہ شوگر ملز کے مالکان میاں رشید‘ فیصل مختار‘ محمد رفیق‘ محمد اویس‘ یوسف انیس‘ خالق غوری اور دوسرے شوگر ملز مالکان بمعہ سیکرٹری جنرل حسن اقبال نے تین دن کی یکے بعد دیگرے ہنگامی ملاقاتوں کے بعد 70روپے فی کلو چینی حکومت کو فروخت کرنے سے انکار کر دیا۔
حکومتی ٹیم میں سابق صدر پاکستان فاروق لغاری کے صاحبزادے اویس لغاری ایم پی اے (ڈی جی خان)‘ بلال یاسین ایم پی اے (ن) لیگ‘ چوہدری اقبال ایم پی اے (ن) لیگ گوجرانوالہ‘ عطا تارڑ ترجمان پنجاب مسلم لیگ (ن)‘ حکومت پنجاب کے سیکرٹری خوراک علی سرفراز‘ حکومت پنجاب کے سیکرٹری صنعت جاوید قاضی اور پنجاب کے کین کمشنر زمان وٹو روزانہ کئی کئی گھنٹے مذاکرات کرتے رہے۔
پاکستان شوگرملز ایسوسی ایشن کے بارہ رکنی وفد نے اپنے مرکزی چیئرمین محمد ذکاء اشرف چوہدری کی قیادت میں ہفتہ 14مئی کی شام حکومت کو یہ پیشکش کر دی کہ حکومت 5لاکھ ٹن چینی کے سٹرٹیجک ریزروز چینی کے ای سی سی کے فیصلے کے مطابق بنائے‘ اس کیلئے وزارت صنعت حکومت پاکستان شارٹ ٹینڈر جاری کرے ۔
ان ٹینڈرز پر جو پیشکشیں شوگر ملز مالکان چینی کی فراہمی کیلئے دیں ان میں جو سب سے کم قیمت کی ہو اُن سے حکومت چینی خرید کر سٹرٹیجک ریزروز پانچ لاکھ ٹن تک کے بنا لے۔
ایک تجویز یہ پیش کی گئی کہ حکومت پانچ لاکھ ٹن چینی کی ایکسپورٹ کی اجازت دے۔ جو شوگر ملیں چینی ایکسپورٹ کریں اسکے تناسب سے پانچ روپے فی کلو حکومت کے خصوصی فنڈ میں ساتھ ساتھ جمع کرائیں۔
اس طرح پانچ لاکھ ٹن چینی کی ایکسپورٹ پر حکومت کو 2ارب روپے کے فنڈز دستیاب ہو جائینگے۔ شوگر انڈسٹری کے وفد نے بتایا کہ اگر وزیراعلیٰ حمزہ شہباز 70روپے کلو پر چینی خریدنے کا اصرار کرتے ہیں تو اس صورت میں 104شوگر ملیں جو پورے ملک کی ہیں دیوالیہ ہو جائینگی کیونکہ انکی پیداواری لاگت نوے روپے کلو تک ہے۔
70روپے کلو میں چینی حکومت کو دیکر شوگر ملز مالکان نہ بینکوں کے قرضے نہ اس پر بننے والے سود‘ نہ گنے کے کاشتکاروں کے واجبات نہ شوگر ملوں کے ملازمین کی تنخواہیں اور دوسرے متفرق اخراجات پور ےکر سکیں گی بلکہ آنے والے شوگر کرشنگ سیزن جو نومبر میں شروع ہونیوالا ہے وہ شروع کرنا ناممکن ہو جائیگا۔
شوگر انڈسٹری نے گزشتہ کرشنگ سیزن میں 500ارب روپے کا گنا کاشت کاروں سے خریدا اور اگلے سال 600ارب روپے کا گنا تیار ہو رہا ہے۔ اگر کرشنگ سیزن نومبر 2022ء میں حکومت کی ضد کی بناء پر شوگر انڈسٹری شروع نہ کر سکی تو 600ارب کا کسانوں کا گنا کم و بیش ضائع ہو گا بلکہ نئے مالی سال میں قومی ضرورت کی 60لاکھ ٹن چینی کی درآمد پر 6ارب ڈالر خرچ کرنا ہونگے اسکے علاوہ حکومت اور انڈسٹری کے پاس کوئی چوائس نہیں رہا۔